لندن براستہ آئس لینڈ
پروگرام کی کامیابی کی وجہ سے ندیم مرزا کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
RAWALPINDI:
چند ماہ قبل انگلستان کے سفرکے دوران لندن میں عزیزی ندیم مرزا سے ملاقات ہوئی، تعارف تو برادرم ڈاکٹر جاوید شیخ نے کروایا مگر اس کے بعد کئی اور رابطے اور واسطے بھی نکل آئے، پتہ چلا کہ موصوف ہمارے فلیمنگ روڈ (جو اب آقا بیدار بخت روڈ کہلاتی ہے) کے پرانے محلے دار ہیں۔
شاہنواز زیدی صاحب کے پنجاب یونیورسٹی شعبہ آرٹ و ڈیزائن میں شاگرد رہ چکے ہیں اور برادر عزیز ڈاکٹر احمد بلال کے قدرے سینئر ہم عصر اور واقف حال بھی ہیں۔ انگلینڈ میں گزشتہ تقریباً سترہ برس سے مقیم ہیں اور آرٹ ڈیزائن کے شعبوں سے متعلق مختلف طرح کے کام کررہے ہیں۔ اب انھوں نے ''دی لائٹ'' کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا ہے جو پرنٹ سے آن لائن کے مراحل میں ہے اور جس کی تشہیر اور تعارف کے لیے وہ کچھ مشاعرے کرنا چاہتے ہیں اور جن کے لیے انھیں ہم سے کچھ وقت درکار ہے۔
یہ سب باتیں اس محفل اور عشائیے کے دوران ہوئیں جو ہائی کمشنر پاکستان سید ابن عباس نے میرے اور انورؔ مسعود کے اعزاز میں ترتیب دیا تھا اور جس میں گلوکار رجب علی نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ سفر کے دوران اس طرح کے دعوت نامے اکثر ملتے ہی رہتے ہیں لیکن زیادہ تر کسی نہ کسی وجہ سے گفتگو کی حد تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر جاوید شیخ کے سفارشی اور ضمانتی فونوں اور ندیم مرزا کے مسلسل رابطے سے اندازہ ہوا کہ یہ بات صرف برائے وزن بیت نہیں بلکہ خاصا اور عملی قسم کا وزن رکھتی ہے۔
اتفاق سے اس کے کچھ عرصہ بعد ہی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا کینیڈا سے متعلق پروگرام فائنل ہوگیا جس کی سب سے زیادہ خوشی ندیم مرزا کو ہوئی اور اس نے فوراً ہی واپسی پر ہمارے انگلینڈ میں رکنے اور لندن، مانچسٹر اور برمنگھم میں مشاعروں کا پروگرام بنانا شروع کردیا اور یہی وہ موڑ تھا جہاں آئس لینڈ درمیان میں آیا کہ اب ہمیں ٹورانٹو سے لندن آئس لینڈ ایئر کے ذریعے آنا تھا اور اسی چکر میں جہاز بدلنے کے لیے کچھ دیر آئس لینڈ کی فضائی زیارت اور اس کے ایئرپورٹ کی حد تک زمینی سلام دعا بھی کرنا تھی۔
لندن کا ہیتھرو ایئرپورٹ دنیا کے چند معروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ہے اور یہاں مسافروں کے ہجوم کی وجہ سے بعض اوقات امیگریشن کے عمل سے گزرنے میں کئی کئی گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں اور یہ عمل طویل پروازوں سے آنے والے مسافروں کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا مگر اللہ بھلا کرے انور مسعود کا کہ ان کی ویل چیئر کی بدولت ہمیں بھی لمبی لمبی قطاروں میں لگنے کے بجائے خصوصی دیکھ بھال یعنی Special Handling والی مختصر قطار استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ فلائٹ وقت پر پہنچی اور اس رعایت کی وجہ سے ہم نسبتاً بہت جلد اپنا سامان لے کر باہر نکل آئے۔
میزبان یعنی ندیم مرزا سے بغل گیر ہونے کے بعد ہم نے برادرم عامر جعفری کو الوداع کہا کہ انھیں اپنے دوستوں کے پاس رکنا تھا اور خود کنگسٹن کے علاقے میں واقع پریمئر ان کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ عزیزی عمران راشد اور راشد ہاشمی بھی مسلسل رابطے میں تھے۔ سو وہ بھی کچھ دیر میں وہیں پہنچ گئے۔ ہم نے ندیم مرزا کو آزاد کردیا کہ اس نے کچھ دیر بعد اپنے استاد محترم اور ہمارے عزیز دوست پروفیسر شاہنواز زیدی کو ایئرپورٹ سے لے کر آنا تھا۔
ہمارا ارادہ اگلا ڈیڑھ دن ایسٹ لندن میں برادرم ساجد خان اور کچھ دیگر احباب کے ساتھ گزارنے کا تھا کہ ساجد کا ریستوران China Grill اور اس سے ملحق اس کی کیک شاپ اب ایک طرح سے لندن کا پاک ٹی ہاؤس بن چکی ہیں کہ یہاں ہر وقت میڈیا اور فنون لطیفہ سے متعلق مقامی اور غیر مقامی احباب کا میلہ سا لگا رہتا ہے۔
ساجد ایک سیلف میڈ، محبتی، محنتی اور فن کا دیوانہ شخص ہے جس کے چہرے کو رب کریم نے ایک مہمان نواز، پر خلوص اور سدا بہار مسکراہٹ سے سجا رکھا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنھیں خدمت میں راحت ملتی ہے اور درویشوں کی طرح اس کا دسترخوان بھی ہمیشہ کھلا اور آباد رہتا ہے۔ میں نے ایک دو بار اسے ہلکے پھلکے انداز میں سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ اس روش سے اس کے کاروبار کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے مگر ہر بار اس کی پرخلوص آنکھ اور محبت بھری مسکراہٹ نے یہی پیغام دیا کہ شاید اس کے کاروبار کی ترقی کا راز بھی یہی جذبۂ خدمت ہے کہ اس سب کے باوجود اس کا کاروبار مسلسل ترقی ہی کررہا ہے۔
ساجد کو تصویریں لینے کا بے حد شوق ہے اور اس کے ریستوران میں ہمہ وقت گزشتہ بیس برس میں وہاں آنے والوں کی تصویریں اسکرینوں پر چلتی رہتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت اور ریستوران کا معیار دونوں ہی لندن میں آنے والی منفرد اور معروف شخصیات کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں اداکار بھی ہیں، گلوکار بھی، ادیب اور شاعر بھی اور کھلاڑی مصور اور سیاستدان بھی جب کہ ہر بار وہاں کچھ ایسے عام اور بظاہر گمنام لوگوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جن سے مل کر لطف آجاتا ہے۔
اس بار بھی سید انور سعید سے جو ملاقات ہوئی اسے اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ انور شاہ میرے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے ہم جماعت اور رسالہ ''محور'' کی ادارت میں میرے ساتھی علی ثنا شاکر بخاری کے فرسٹ کزن نکلے۔ کوئی چالیس برس قبل پاکستان ہائی کمیشن کے اسٹاف میں بھرتی ہوکر آئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ مختلف کاروبار کیے اور زندگی کے پست و بلند کو بہت قریب سے دیکھا، کھلے دل، کھلے ذہن اور مثبت معانی میں جذباتی طبیعت کے حامل انسان ہیں۔ ہر طرح کے اظہار کی مکمل آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور فنون لطیفہ اور اس سے متعلق لوگوں سے بے حد محبت کرتے ہیں، سو جونہی انھیں پتہ چلا کہ انور مسعود اپنی اضافی ادویہ والا پیکٹ کہیں بھول آئے ہیں۔
انھوں نے فون ملانے شروع کردیے اور آیندہ دس بارہ گھنٹوں میں نہ صرف ہمیں ساتھ لے جاکر ایک پاکستانی ڈاکٹر دوست سے ان کا نسخہ بنوایا بلکہ چار میں تین دوائیاں فوراً فراہم بھی کردیں۔ کئی دیگر ملکی اور غیر ملکی چینلز کے نمایندے وقتاً فوقتاً آتے رہے کچھ نے ریکارڈنگز بھی کیں اور ایک دو نے تو ہماری گفتگو کو براہ راست نشر بھی کیا۔
26 اپریل کو سارا دن عمران اور راشد ہمارے ساتھ رہے۔ پروگرام کے مطابق 28 کو مانچسٹر، 29 کو لندن اور 30 کو برمنگھم کا مشاعرہ تھا جب کہ یکم مئی کو ہمیں برادرم طارق احمد کے پاس نیوکاسل جانا تھا جہاں ایک گھریلو قسم کی شعری نشست کا انتظام کیا گیا تھا۔ اصولاً یہ ترتیب لندن، برمنگھم اور مانچسٹر ہونا چاہیے تھی لیکن ندیم مرزا کے بیان کے مطابق بوجوہ ایسا ممکن نہ ہوسکا اور یوں 28 کا پورا دن سفر میں ہی گزرگیا۔
مانچسٹر میں چند ماہ قبل پاکستان کے قونصل جنرل ڈاکٹر ظہور احمد سے ''ندیم صدی'' تقریبات کے حوالے سے ملاقات ہوئی تھی جس میں ان کی ادب دوستی نے بہت متاثر کیا۔ یہاں بھی وہ انتظامات میں پیش پیش نظر آئے۔ مشاعرہ حسب معمول ''نواب ہوٹل'' کے ایک ہال میں تھا۔ برنلے سے ہمارے احباب ملک رفیق، ریاض اور نجف برادران، عدالت خان وقت پر پہنچ گئے تھے۔
مقامی سطح پر ندیم مرزا کے پاس کوئی اپنی ٹیم نہ تھی اس لیے تقریب درمیانی سی رہی لیکن اس کی ساری کسر گزشتہ روز لندن والی تقریب میں نکل گئی جس میں ہر چیز ہر اعتبار سے درست تھی۔ مشاعرے کے ساتھ ایک تصویری نمائش کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں شاہنواز زیدی، جمال اور ندیم مرزا کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کی کچھ سابقہ طالبات اور حال مقیم انگلینڈ کا کام بھی رکھا گیا تھا جو بہت عمدہ تھا۔ مشاعرہ کی آرائش بھی اچھی تھی اور سامعین بھی مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے بہت سخن فہم تھے، سو خوب محفل جمی۔
ڈاکٹر جاوید شیخ اور ان کی بیگم حسینہ بھابی جو خود بھی ڈاکٹر ہیں کے علاوہ برمنگھم کے سید نصیر شاہ اور عزیزان عمران راشد اور راشد ہاشمی سمیت بہت سے احباب سامنے کی کرسیوں پر تھے۔ بیشتر خواتین مین ہال میں مردوں کے ساتھ اور کچھ سائیڈ کے ایک ہال میں ازراہ پردہ علیحدہ سے بیٹھی تھیں جو لندن کے پس منظر میں اچھا لگا اور قدرے عجیب بھی۔ شاہنواز زیدی صاحب کی مرحوم طبلہ نواز استاد شوکت حسین کے بارے میں لکھی گئی نظم کو بہت پسند کیا گیا۔
پروگرام کی کامیابی کی وجہ سے ندیم مرزا کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ مناسب ٹیم نہ ہونے اور اس طرح کے پروگراموں کے ضمن میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ سخت ٹینشن میں تھا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ کسی بھی لمحے اس کے چہرے کی مسکراہٹ ماند نہیں پڑی۔ اس دوران میں ہمارا عزیزی عبدالواحد سے بھی رابطہ ہوگیا جو اپنی جسمانی معذوری کے باوجود اس قدر ایکٹو اور منظم ہے کہ بے ساختہ اس کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے، آج کل وہ کام اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ مقامی سیاست میں سنجیدگی سے حصہ لے رہا ہے اور کوئی عجب نہیں کہ چند برس بعد ہم اس کو برطانوی پارلیمنٹ میں کسی اہم عہدے پر دیکھیں۔