درست تشخیص
سوئٹزر لینڈ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کا اصل سبب قرآن کو قرار دیا گیا ہے جو مطلقاً درست ہے
یورپ نے صحیح خطوط پرکام کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق سوئٹزر لینڈ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کا اصل سبب قرآن کو قرار دیا گیا ہے جو مطلقاً درست ہے۔ اس درست بات کو سمجھ لینے کے باوجود ایک غلط فیصلہ کیا گیا ہے۔ زیورخ کے پبلک سیفٹی کے محکمے نے عوامی مقامات پر قرآن مجید کی تعلیم پر پابندی عائد کردی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ہی جہادی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔
مذکورہ ادارے نے وفاقی حکومت کو اس پر ملک بھر میں پابندی عائد کرنے کی سفارش بھیج دی ہے۔ پرلطف بات یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی پبلک سیکیورٹی ایجنسی یہ رپورٹ دے چکی ہے کہ قرآن حکیم پر پابندی لگانا یا اس کی تقسیم میں رکاوٹ ڈالنا مذہبی آزادی کے بنیادی حق کے منافی ہے۔
مگر زیورخ پبلک سیفٹی سروس کا اصرار ہے کہ قرآن جہادی ذہنیت کو فروغ دینے کا سبب ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگ ''ایڈ'' مہم سے دور رہیں کیونکہ یہ اہم جہادی تحریکوں کے پھیلاؤ کا سبب بنی ہے۔''ایڈ'' مہم دراصل جرمنی میں 2011 میں چلی تھی جب ایک تنظیم ''ٹرو ریلیجن'' (سچا مذہب) نے اس کی ابتدا کی اور یورپ بھر میں اس تنظیم نے ڈھائی کروڑ قرآن پاک تقسیم کرنے کا ہدف مقرر کیا مگر جرمنی نے بھی تمام انسانی بنیادی حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گزشتہ نومبر میں اس تنظیم پر انتہا پسندی کا الزام لگا کر سرے سے تنظیم پر پابندی عائد کردی۔
اب ذرا ٹھنڈے دل سے غورکیجیے تو قرآن میں جہاد کے احکام موجود ہیں، جہاد کی ترغیب بھی ہے مگر یہ جہاد کن پابندیوں اور کس صورت حال میں کیا جاتا ہے اس کی تفصیل بھی اسی قرآن میں موجود ہے مگر قرآن کا یہی حصہ نظرانداز کردیا جاتا ہے اور یہ محض اتفاق نہیں، یہ لاعلمی بھی نہیں، یہ سرسری مطالعہ بھی نہیں بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی بات ہے یہ ایک منظم رویہ ہے کہ جہاد کے خلاف نعرے لگاؤ، مسلمانوں کو انتہا پسند کہو،ان کے مذہب میں جہاد کو جائز قرار دینے کے احکامات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالو۔ ان کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے اپنے رنگ میں پیش کرو اور پھر مسلمانوں کی مقدس کتاب پر پابندی کے مطالبات کرتے رہو۔ حالانکہ ایسے احکام خود پرانے عہد نامے ''تورات '' میں جابجا نظر آجائیں گے تو یورپ ان پر کیوں پابندی عائد نہیں کرتا۔
معاملہ نہ اتنا معصومانہ ہے نہ اتنا سادہ ، دراصل تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ قرآن کریم کی تقسیم کے نتیجے میں اسلام کا پیغام یورپ کے گوشے گوشے تک پہنچ رہا ہے۔ لوگ اسلام کی حقانیت اور اس کی سادہ تعلیمات سے آشنا ہوکر اسلام قبول کر رہے ہیں اور یورپ کو اہل یورپ کا اسلام قبول کرنا کسی طور ہضم نہیں ہو رہا۔
اس صورت حال سے ان کے بہت سے نعرہ ہائے مستانہ پر بھی ضرب پڑ رہی ہے۔ انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ، مذہبی آزادی، آزادی رائے کے وہ بلند و بانگ دعوے جو اس معاشرے میں بڑے بھلے لگتے تھے جس میں آپ کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ اب یہ ''کوئی اور'' جب اپنا وجود دکھلا رہا ہے، منوا رہا ہے تو آپ کے یہ نعرے خود بخود بے معنی ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ آپ اب ہر آواز کو کچلنا اور ہرگلے کو دبانا چاہتے ہیں۔آپ کے لیے جو چیز ناقابل قبول تھی وہ آپ کی چوکھٹ تک آ پہنچی ہے۔ اس لیے اب آپ ''سیلاب'' کو ہر صورت میں روکنا چاہتے ہیں۔
جب حضرت ابو بکرؓ قرآن گھر کے صحن یا کعبہ کے گرد پڑھتے تو مشرکین مکہ کو اس پر اعتراض ہوتا تھا کیونکہ اس کی سماعت سے ان کے بیوی بچے ''بگڑ'' رہے تھے۔
ابن دغنہ نے حضرت ابو بکرؓ کو مکہ چھوڑ کر جانے سے روکا تھا اور انھیں پناہ دی تھی تو مشرکین نے مکہ نے صرف ایک شرط عائد کی تھی کہ ابو بکر عام جگہ پر قرآن نہ پڑھیں۔ یہ بھی تو قرآن پر پابندی تھی کیونکہ ان کے بیوی بچے ''بگڑ'' رہے تھے اب یورپ کے بیوی بچے بگڑ رہے ہیں تو انھوں نے ٹھیک وہی ہتھیار اختیارکیا ہے اور اسے آزما رہے ہیں جو آزمایا جاچکا ہے۔
ایک بڑے مالدار مشرک نے اب سے پندرہ سو سال قبل جب اسلام کو پھلتے پھولتے دیکھا تو زرکثیر خرچ کرکے ناچنے گانے والیاں بلوالیں کہ جب قران پڑھا جا رہا ہو تو وہ اپنی آواز کے جادو اپنے بدن کے لوچ اور اپنی اداؤں کی مار سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ رکھیں تاکہ وہ نہ قران سن سکیں نہ ان سے متاثر ہوسکیں مگر خدا جانے قرآن میں کیا جادو تھا کہ نہ ادائیں کام آئیں نہ بدن کا لوچ نہ آواز کے شعلے کی لپک جادو سر چڑھ کر بولا تو قرآن کا۔
یورپ کوکافر ادا حسیناؤں کو بلوانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی پوری تہذیب انھی حسیناؤں کے نازک کاندھوں، ان کی دل کش اداؤں اور ان کے خوبصورت خدوخال پر استوار ہے۔ اس کے باوجود جب جرمنی اورسوئٹزر لینڈ میں قرآن کریم تقسیم کیا جاتا ہے، لوگ خود اسے پڑھتے ہیں، تو ان کے احوال میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ وہ دھڑا دھڑ اسلام قبول کر رہے ہیں اور یورپ اس فکر میں دبلا ہوا جاتا ہے کہ کہیں اسلام ان کی تہذیب کے دیمک زدہ بنیادوں کو لے بیٹھے، یہ ہے وہ خطرہ جس کے باعث جگہ جگہ اور بار بار انتہا پسندوں پر جہادیوں پر پابندیاں عائد کی جاتی رہتی ہیں۔ مگر یہ سب تو بہانے تھے اصل ہدف خود قرآن مجید تھا۔
یورپ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ مسلمانوں کی ہی نہیں اسلام کی بھی اصل طاقت قرآن کریم ہے۔ یہی اسلام کا منبع و مصدر ہے اس لیے اس بار شاخوں پر نہیں جڑ پر حملہ ہوا ہے۔ کچھ نہ ہوا تو اس بار تشخیص تو درست ہے۔