بجٹ آرہا ہے

اعلان ہوگیا، عوام کے دلوں میں توقعات نے انگڑائی لی، خدشات جاگ اٹھے۔


آصف زیدی May 21, 2017
ہر بجٹ سے قبل عوام میں ایک طرف کچھ امیدیں ہوتی ہیں، کچھ بہتری کی توقعات ہوتی ہیں۔ فوٹو : فائل

''بجٹ آرہا ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے؟'' اس بار بجٹ میں ہمارے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا''۔ ''بجٹ کا انتظار کرلو، قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے، پھر لے لیں گے''، ''بجٹ آرہا ہے، اﷲ خیر کرے۔'' یہ اور ایسے ہی بہت سے جملے ہر بجٹ کی آمد سے قبل ہر چھوٹے بڑے شہر میں بولے اور سُنے جاتے ہیں۔

ہر بجٹ سے قبل عوام میں ایک طرف کچھ امیدیں ہوتی ہیں، کچھ بہتری کی توقعات ہوتی ہیں تو دوسری جانب عوام میں ایک خوف بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو امید تو اس بات کی ہوتی ہے کہ حکومت اس بار ان کے لیے بجٹ میں یقینی طور پر کوئی خوش خبری سنائے گی۔ منہگائی کا طوفان کم ہوگا اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی آسمانوں کا سفر کرنے والی قیمتیں زمین پر آجائیں گی۔

دوسری جانب خدشات یہ ہوتے ہیں کہ کہیں حکومت پہلے سے منہگی چیزوں کو بھی مزید منہگا نہ کردے۔ کھانے پینے کی چیزوں، گھریلو استعمال کی مصنوعات اور دیگر متعلقہ چیزوں کے نرخوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں، یہ صورت حال عوام کے سروں پر لٹکتی تلوار کی مانند ہوتی ہے اس بار بھی عوام ایسی ہی کیفیات کا شکارنظر آتے ہیں، ہر کوئی اپنی اپنی علمیت کے مطابق اور اپنی خواہشات کے تحت بجٹ کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہے۔

کہیں پر اپنی خواہشات کو پورا ہونے کی امید ہیں تو کہیں کچھ وہم ذہنوں کو جکڑے ہوئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام منہگائی کے عذاب کو مسلسل جھیل رہے ہیں۔ کہیں روزمرہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا عذاب ہے تو کہیں منی بجٹ کی صورت میں قیمتوں میں بار بار اضافہ لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ بے روزگاری اور تنخواہوں میں کمی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد سخت پریشان میں ہیں کیونکہ تنخواہیں تو نہیں بڑھ رہیں لیکن مہنگائی مسلسل بڑھ رہے ہے۔

دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام الناس کے لیے بہت کچھ کررہی ہے، عوام کی زندگی آسان بنانے اور انھیں بہتر سہولتیں دینے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات سمیت بہت سی اشیائے ضروریہ پر حکومت ریلیف دے کر خود بوجھ اٹھارہی ہے۔ یقینی طور پر حکم رانوں کی اس بات میں کچھ سچائی ضرور ہوگی۔ حکومت نے اقدامات بھی کیے ہوں گے لیکن بات تو جب بے جب عوام کو ملنے والا ریلیف فوری نظر آئے۔

جب کوئی بازار جائے تو اسے چاول، چینی، دال، انڈے، گھی، چائے، مٹی کا تیل، صابن، گھریلو استعمال کی اشیا، پھل، سبزیاں، گوشت وغیرہ سے کم نرخوں پر ملیں تو حکم رانوں کی بات میں وزن ہوگا۔ بازاروں اور دکانوں میں اشیا کی قیمتیں عوام کی آسان رسائی میں ہوں تو لوگ دل سے حکومتوں کو دعائیں دیں گے اور دیتے ہیں مگر ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ عوام امید کررہے ہیں کہ اس بار کے وفاقی بجٹ میں کوئی غیرمعمولی ریلیف انھیں ضرور ملے گا۔ آئیے ایک نظر گذشتہ وفاقی بجٹ پر ڈالتے ہیں۔

وفاقی بجٹ 2016-17 کا مجموعی حجم 43 کھرب 95 ارب روپے تھا جس میں ٹیکسوں کا ہدف 3621 روپے رکھا گیا تھا۔ اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا گیا جب کہ 85 سال سے زاید عمر کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن 25 فی صد بڑھادی گئی تھی۔ گذشتہ بجٹ میں ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 9894.5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ دفاعی بجٹ میں 11 فی صد اضافہ کرکے اس کا حجم 860 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔

بجٹ 2016-17 میں سگریٹ، بسکٹ، کاسمیٹکس، ایئر کنڈیشنرز، اسٹیشنری، موبائل فون، مکھن، پان، چھالیہ، کولڈ ڈرنک، مرغی، انڈے، خشک دودھ، پولٹری فیڈ، منرل واٹر اور دیگر اشیا مہنگی ہوگئی تھیں جب کہ کھادیں، زرعی دوائیں، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر کی قیمتوں میں کمی آئی۔ بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 30 ارب روپے جب کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 21 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، ملک بھر میں پانی، بجلی کے منصوبوں کی تکمیل اور انھیں مزید فعال کرنے کی غرض سے حکومت نے اس شعبے کے لیے ایک کھرب 97 ارب روپے رکھے۔

بجٹ آنے کے بعد اپوزیشن نے اسے مسترد کردیا تھا اور یہ کہاکہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے کچھ نہیں ہے، دوسری جانب تاجر برادری اور صنعت کاروں نے بھی بجٹ پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔ کسی نے اسے عوام دوست کہا تو کسی کی رائے تھی کہ عام آدمی کے لیے مزید مراعات اور سہولتوں کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا۔ لگتا ہے ایسی ہی صورت حال اس سال کے بجٹ کے بعد ہوگی۔

اب یہ تو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے کہ فلاں شعبے کے لیے اتنی رقم مختص کی گئی ہے، ٹیکس وصولی کا ہدف یہ ہے۔ ان چیزوں پر اتنی سبسڈی دی گئی وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پر بجٹ تقاریر کو لوگ سنتے ضرور ہیں لیکن پوری بجٹ تقریر سمجھنے والے بہت کم ہیں۔ ہر کوئی اپنے حساب سے بجٹ کا انتظار کرتا ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا انتظار ہوتا ہے، تاجر برادری مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی شرح کے حساب سے بجٹ کے اچھے ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہے۔

اسی طرح ہر شعبے سے وابستہ لوگ وزیر خزانہ کے ان جملوں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں جن میں ان کے حوالے سے کوئی ''خوش خبری'' ہو لیکن ایک عام غریب شہری جس کی آمدنی بھی کم ہے اور ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، تیزی سے بڑھتی منہگائی کے طوفان کا بہت مشکل سے مقابلہ کر رہا ہے، وہ بجٹ کے اعدادوشمار میں الجھنے کے بجائے اس بات کی فکر میں رہتا ہے کہ حکومت نے کیا ایسا کام کیا جس کے نتیجے میں وہ اپنی قلیل آمدنی میں بھی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکے، اس سوال کا جواب حاصل کرنے کبھی برسوں لگتے ہیں تو کبھی زندگیاں گزر جاتی ہیں۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ پورے ملک کا بجٹ بنانے والی حکومت کیا اس غریب آدمی کے گھر کا ماہانہ بجٹ بناسکتی ہے جو اپنی 9000 یا 10000 روپے ماہانہ کی آمدنی میں بیوی، بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہے؟ آئیے ہم کوشش کرکے دیکھیں کہ ایک غریب آدمی کا ماہانہ کا بجٹ اس کی آمدنی کے حساب کیا ہوگا۔

کچھ دیر کے لیے فرض کرلیں کہ ایک غریب مزدور کی ماہانہ آمدنی 10 ہزار روپے ہے اور وہ اپنی بیوی، 3 بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔

مکان کا کرایہ...1500 روپے

بجلی کا بل (کم سے کم)...900 یا 1000 روپے

گیس کا بل ...50روپے (تقریباً)

مہینے کا راشن ...3500 روپے

(چائے، دال، چینی، چاول، گھی، دودھ وغیرہ)

بچوں کی اسکول کی فیس (کم سے کم) ...500 روپے فی کس۔

مزدوری پر آنے جانے کا روزانہ کا کرایہ...1000 روپے۔

(کسی نا گہانی صورت پر یہ رقم بہت زیادہ ہوسکتی ہے)

کسی تقریب میں آنا جانا یا گھر میں مہمان داری 1000روپے۔

تہوار کے موقع پر بچوں اور خود کے لیے شاپنگ (کم سے کم) 2500 روپے۔

درج بالا تخمینہ ہم نے ایک پس ماندہ علاقے میں رہنے والے غریب شخص کا لگایا ہے۔ اگر دیگر علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں ہر چیز کے نرخ دگنے سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور 20یا 25 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے بھی کافی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ہم نے جو بجٹ بنانے کی کوشش کی اور جو اخراجات لکھے وہ اس مزدور کی ماہانہ آمدنی سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس میں وہ چیزیں شامل نہیں جو متوسط طبقہ روزانہ اپنے اخراجات میں شامل کرتا ہے یعنی روزانہ کی بنیاد پر گوشت، پھل یا بچوں کے لیے آئس کریم، چپس، بسکٹ وغیرہ لینا۔ دیکھا جائے تو عام آدمی کے لیے موجودہ آمدنی اور مسلسل منہگائی کے اس دور میں اپنی آمدنی میں گھر چلانا مشکل نہیں بلکہ انتہائی مشکل ہے۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا آدمی ایک کے بجائے دو نوکریاں کرکے گھر چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت کو بڑے بڑے اعلانات اور اعداد و شمار دینے کے بجائے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینی ہوگی جن سے غریب عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف مل سکے۔

ابھی بجٹ آنے میں چند روز ہیں۔ ہم اس مضمون کے ذریعے وفاقی بجٹ کے حوالے سے چند تجاویز حکومت کو دے رہے ہیں جن کے ذریعے عام لوگوں کی زندگی کچھ آسان ہوجائے۔

بجٹ کے حوالے سے کچھ تجاویز:

٭ ... صحت عامہ کی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہے اور ضرورت بھی، ہر چھوٹے بڑے شہر میں صحت و علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ یوں تو ہر شہر میں صحت مراکز ہیں لیکن دواؤں اور ڈکٹروں کی قلت نے عوام کے مسائل بڑھادیے ہیں۔ حکوامت کوشش کرے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجود اسپتالوں، رورل ہیلتھ سینٹرز اور دیگر طبی مراکز میں نہ صرف دوائیں ہر وقت موجود ہوں بلکہ ڈاکٹروں کے لیے بھی مریضوں کو انتظار نہ کرنا پڑے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت فنڈز کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر کرے اور تمام علاقوں کو یکساں سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

٭ ... تعلیم ہر ایک کے لیے ضروری ہے، ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جائے، تاکہ وہ بچے بھی اسکول جاسکیں جو اپنے پڑھنے کی عمر میں مزدوری کی مشقت سہنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے بڑے شہروں میں موجود اسکولوں، کالجوں کی ماہانہ فیس میں بھی کمی کرکے عوامی مشکلات میں کمی کی جاسکتی ہے۔

''تعلیم سب کے لیے'' کا نعرہ بہت معنی خیز اور جامع ہے لیکن اس کا اصل لطف جب مل سکتا ہے جب اس کی اصل روح کے مطابق ہر کسی کو سستی اور معیاری تعلیم کی سہولت ملے۔

٭ ... اشیائی ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اس صورت میں ممکن ہے جب ان پر عائد ٹیکسوں کو کم کیا جائے۔ اس وقت روزانہ استعمال کی ہر چیز پر لوگ ٹیکس دے رہے ہیں جس کی وجہ سے کھانے پینے اور دیگر استعمال کی چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ ٹیکسوں کا بوجھ کم کرکے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح روز مرہ استعمال کی اشیا بھی سستی ہوں گی اور عوام کو گھر کا بجٹ بنانے میں بھی آسانی ملے گی۔

٭ ... پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ٹرانسپورٹرز کے جائز مسائل کو بھی حل کیا جائے۔

٭ ... بجٹ کے بعد منی بجٹ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

٭ ... اگر حکومتی اخراجات میں کچھ کمی کی جائے تو عوام کے مسائل بہت زیادہ حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ وی آئی پی پروٹوکول، امرا، وزرا کے روزانہ کے اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم میں کٹوتی بھی کردی جائے تو ارباب اقتدار کو فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ایسا کرنے سے عوام کو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔

٭ ... پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاحال اتنی کمی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے، ہماری تجویز ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات خاص طور پر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کم از کم 15 روپے فی لیٹر کمی کی جانی چاہیے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے حکومت یہ بات جانتی ہے، اب اسے اس معاملے کو بھی عوامی مفاد میں حال کرنا ہوگا۔

٭ ... پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کو مزید بہتر کرنا بہت ضروری ہے، کراچی جیسے میگا سٹی کے حوالے سے تو سب کا پرزور مطالبہ ہے کہ سر کلر ٹرین کو دوبارہ فعال کیا جائے، اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے۔ علاوہ ازیں رکشا، ٹیکسی اور منی بسوں کے کرایوں کو بھی عوام کی رسائی میں لانا ضروری ہے۔ ایسے بھی اقدامات کیے جائیں کہ عوام پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح نہ ٹھونسے جائیں بلکہ ایک باعزت سفر کریں۔

٭ ... پانی کی ملک بھر کے عوام تک فراہمی سب کا مطالبہ اور خواہش ہے، اس بجٹ میں حکومت کو چاہیے کہ آبی منصوبوں کی جلدازجلد تکمیل کو ترجیح دے اور جاری منصوبوں کو مزید فعال کرے تاکہ ہر کسی کو صاف پانی میسر آسکے۔

٭ ... دنیا ٹیکنالوجی سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھارہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ کمپیوٹر اور اس سے متعلق دیگر اشیا کی قیمتیں کم کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاکر اپنے علم میں اضافہ کرسکیں اور دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔

٭ ... شہری بجلی کے اضافی بلوں کے بوجھ سے پریشان ہیں، حکومت ایسی حکمت عملی وضع کرے جس کے تحت گھریلو صارفین پر صرف وہی بل لاگو ہو جتنی اس نے بجلی کا استعمال کی ہو۔

یہ چند تجاویز ہیں اس سے بہتر اور اچھی تجاویز بھی سامنے آئیں گی حکومت کو چاہیے کہ وہ زندگی کے تمام طبقوں کی طرف سے آنے والی آرا اور تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بنائے تاکہ سب لوگ اس بجٹ کو عوام دشمن نہیں بلکہ عوام دوست کہیں۔

ہم یہی امید کرسکتے ہیں کہ آئندہ بجٹ عوامی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہوگا۔ اس بات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے، ہم اور آپ سب کو ہی بجٹ کا انتظار ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں