پاکستان …ایک نئی طاقت
ہمارے وزیر اعظم ان دنوں ایک بار پھر ایک اور دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے دورہ پر ہیں
ہمارے وزیر اعظم ان دنوں ایک بار پھر ایک اور دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے دورہ پر ہیں، اور ان سطور کی اشاعت تک خیرو عافیت سے واپس وطن میں پہنچ چکے ہوں گے۔ اس بار ان کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ساٹھ رکنی وفد میں ان کے ہم سفر تھے۔ بڑے ملکوں کے سفر میں ہمارے حکمران ہمیشہ اپنے ساتھ بڑا وفد لے کر جاتے ہیں جس میں کاروباری افراد کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہرین اور صحافی حضرات بھی ہمرکابی کرتے ہیں۔
کاروباری افراد اپنے لیے کاروباری مواقع تلاش کرتے ہیں جب کہ ماہرین ان کی اور حکومت کی معاونت کرتے ہیں جب کہ ہم صحافی حضرات وزیر اعظم کے کسی بھی ملک کے دورے کی کامیابی یا ناکامی کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں جو کہ عموماً کامیاب ہی ہوتا ہے اور اس کامیابی میں ہم اخبار نویسوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور اگر اخبار نویس ہاتھ کر جائیں تو دورہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں سوجھ گئی ورنہ ہم کہاں اور حکمران کہاں بس اس بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے اقتدار کے اولین دنوں میں ہمارے دوست ملک چین کے پے درپے دوروں کا آغاز کیا جس میں وہ ہمیشہ کسی نہ کسی قسم کا معاہدہ ہی کرتے نظر آئے جو کہ ان کے خیال میں ملکی ترقی کے لیے بہتر ہو اور اس کے لیے انھوں نے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے انتھک وزیر اعلیٰ شہباز شریف کوبھی اپنے ساتھ شامل رکھا تاکہ وہ بھی پاکستان کی ترقی کے لیے کیے گئے معاہدوں میں ان کی معاونت کریں جس سے ترقی کی نئی راہیں بلکہ شاہراہیں کھولی جا سکیں۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی اس اہم موقع پر شمولیت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ ہم ملکی ترقی کے اس منصوبے میں سیاست سے بالاتر ہو کر متحد ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کو جنون کی حد سڑکیں تعمیر کرنے کا شوق ہے اور وہ یہ کہتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں یہ شاہراہیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے ہی تجار ت ہوتی ہے اور آپس کے رابطے آسان ہوتے ہیں، یہ ترقی کی جانب پہلا زینہ بھی ہوتی ہیں۔ بطور وزیر اعظم اپنے پہلے دور میں نواز شریف نے پاکستان میں موٹروے کا آغاز کیا اور اس کو دوسرے دور میں پایہ تکمیل تک پہنچایا وجہ وہی رہی کہ درمیان میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پر کام بند کر دیا جس سے موٹر وے کی لاگت میں اضافہ بھی ہو گیا لیکن نواز شریف نے اپنے اس خواب کو تعبیر دی اور یوں پاکستان کی پہلی موٹر وے کے ذریعے ہم جیسے دور دراز علاقوں کے رہنے والوں کا سفر بھی جو کئی گھنٹوں پر محیط ہوتا تھا گھٹ گیا اور ہمیں آسان سفر کی سہولت میسر آگئی۔
اپنے موجودہ دور حکومت میں انھوں نے مختلف علاقوں میں موٹر وے کے منصوبے شروع کیے ہیں جو کہ امید ہے کہ ان کی حکومت کے دوران ہی مکمل ہو جائیں گے لیکن ایک منصوبہ جو کہ بقول ہمارے سابق صدر آصف علی زرداری انھوں نے شروع کیا تھا لیکن اس کو عملی شکل موجودہ وزیر اعظم نے دی ہے وہ چین سے لے کر پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کے علاقے گوادر کی بندرگاہ تک سڑک کی تعمیر کا ہے جس کو اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا ہے۔ہماری حکومت کی تما م تر توجہ اسی منصوبہ پر ہے اور ہم نے اپنے ملک کے مستقبل کی ترقی کو اس سے مشروط کر دیا ہے کہ یہ نئی راہیں کھولے گا اور پھر ہم تجارتی دنیا میں ایک نہایت اہم مقام بنا لیں گے۔
پاکستان جو کہ موجودہ حالات میںہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور ہمارے ہمسائے یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں امن و امان کی فضا ہو اور ہم ترقی کی جانب اپنے سفر کو ہموار رکھ سکیں۔ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مضبوط پاکستان ان کے ایک خطرہ ہو گا لیکن وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اور اس کے اندر اپنے دفاع کی بھر پور صلاحیت موجود ہے اور بقول ہمارے سابق وزیر اعظم چورہدری شجاعت حسین کے کہ ہم نے ایٹم بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا۔ اس کے باوجود ہمارے ہمسایہ ممالک کی بھر پور کوشش ہے کہ پاکستان اس منصوبہ کو مکمل نہ کر سکے۔ لیکن چین اور پاکستان نے مل کر اس منصوبے کی داغ بیل ڈالی ہے اوریہ کامیابی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اور جب یہ مکمل ہو جائے گا تو گوادر کے راستے دنیا بھر کی تجارتی منڈیوں تک آسان رسائی ہوگی۔
پاکستان اور چین کے اس مشترکہ منصوبے کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں اس کو ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ماخوذ کیا جارہا ہے جو کہ ایک فرسودہ بات ہے کیونکہ اس وقت اس نئی دنیا کے حالات میں ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے اور چین نے بھی اگر اس منصوبے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے تو وہ اس کے نفع نقصان سے بھی آگاہ ہے۔پاکستانی ایک بھولی بھالی اور دوستوں پر اعتبار کرنے والی قوم ہے اور ہماری قوم اس نئے منصوبے سے اپنی ترقی کی آس لگائے بیٹھی ہے اس وقت ہماری حکومت کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہ اس منصوبے سے منسلک معاہدوں میں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھیں کیونکہ چینی بڑے ہوشیار اور چالاک ہیں۔
ہمیں بھی نہایت عقلمندی سے اس منصوبے سے وابستہ کاروباری معاہدوں کو اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا کیونکہ ہم تو پہلے ہی اپنے مستقبل کی ترقی کو اس منصوبے کے مرہون منت کر کے بیٹھے ہیں اور اس پر کسی طرح کی زد ہم برداشت نہیں کر پائیں گے کیونکہ یہ منصوبہ صرف ایک سڑک نہیں جو کہ دو ملکوں کو آپس میں ملائے گی بلکہ ایک ایسی تجارتی گزرگاہ ہو گی جو کہ اس خطے کی تجارت کے علاوہ سیاست کو بھی تبدیل کر دے گی اور ہم یہ نہیں چاہئیں گے کہ کوئی صرف ہمارے گھر سے گزر کر اس سڑک کا کرایہ ہی ادا کرے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں ''دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی ۔لوگوں نے میرے صحن سے راستے بنا لیے''۔ ہم کوئی کچی دیوار والا ملک نہیں اگر چینیوں نے ایک عظیم دیوار بنا کر اپنے ملک کا دفاع مضبوط بنایا تھا تو ہم نے بھی جدید دور کے دفاعی تقاضوں کے تحت ایٹم بم بنا کر اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر کیا ہے اور ہمیں ترنوالہ سمجھنے والے ہماری اس طاقت سے خبردار ہیں اور اس سے ہوشیار بھی۔