سِتار کے سُر اُداس ہیں
استاد رئیس خان نے اپنے خاندان کے نام کو ساری دنیا میں روشناس کرایا تھا۔
گزشتہ دنوں آسمان موسیقی کا ایک اور جگمگاتا ستارہ ڈوب گیا۔ ستار کے سُر اداس ہیں کہ ہندو پاک کے نامور ستار نواز استاد رئیس خان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ہندوستان میں دہلی گھرانے سے تعلق رکھنے والے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان کے بعد موسیقی کے میواتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد رئیس خان ستار نواز نے برصغیرمیں بڑا نام کمایا تھا۔ استاد رئیس خان سے پہلے ان کے ایک چچا استاد ولایت خان نے بھی ستار نوازی میں بڑی شہرت حاصل کی تھی مگر رئیس خان کی مہارت نہ صرف سارے ہندوستان، پاکستان بلکہ امریکا اور یورپ میں بھی اپنے فن کی وجہ سے لازوال تھی۔ استاد رئیس خان کے آباؤ اجداد موسیقی کے فن کی وجہ سے ہندوستان کے راجا، مہاراجاؤں کے درباروں میں بڑی قدرو منزلت کے حامل تھے۔
استاد رئیس خان نے اپنے خاندان کے نام کو ساری دنیا میں روشناس کرایا تھا۔ استاد رئیس خان نے ستارکی ابتدائی تربیت اپنے چچا استاد ولایت خان ہی سے حاصل کی تھی اور پھر سارنگی کی فنی باریکیوں کو بڑے منفرد انداز سے آگے بڑھایا تھا۔ جب استاد رئیس خان نو عمر تھے تو بمبئی کے ایک میوزک پروگرام کے دوران ہندوستان کے مشہور شہنائی نواز استاد بسم اﷲ خاں کے ساتھ شہنائی اور ستار کے درمیان بڑی مہارت کے ساتھ ایک جگل بندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ دو سازوں کی جگل بندی میں سُروں کے اتار چڑھاؤ میں سمندرکے ایک تلاطم جیسا منظر ہوتا ہے اور اس جگل بندی میں کہنہ مشق استاد بسم اﷲ خاں کے ساتھ رئیس خان کسی طرح بھی پیچھے نہیں رہے تھے ۔
اس پروگرام کے بعد سارے ہندوستان میں رئیس خان کے فن کی بھی دھوم مچ گئی تھی اور پھر رئیس خان کے شہرت کا سفر آگے بڑھتا ہی چلا گیا تھا اور ہندوستان میں روی شنکر کے بعد رئیس خان ہی کا نام ہی لیا جاتا تھا۔ رئیس خان کے فن کی مہارت انھیں پھر فلمی دنیا تک لے گئی تھی اور اس دورکے لیجنڈ موسیقاروں نے استاد رئیس خاں کے ستارکو اپنے گیتوں کو سجانے اورسنوارنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ بہت سی فلموں میں رئیس خاں نے اپنے ستار کا جادو جگایا اور بعض گیتوں میں ستارکا فن ہی نمایاں نظر آتا تھا۔
جیسے کہ فلم ''آخری خط'' یہ گیت بہار و میرا جیون بھی سنوارو بہار و موسیقار خیام اور شاعر کیفی اعظمی تھے یا پھر فلم ''نہتے زخم'' کا گیت آج سوچا تو آنسو بھر آئے، موسیقار مدہن موہن نے اور شاعر کیفی اعظم تھے اور پھر فلم ''میرا سایا'' کے ایک گیت میں تو ستار کا جادو سر چڑھ کر بولا تھا۔ اس گیت کے بول تھے: ''نینوں میں بدرا چھائے، بجلی سی چمکے ہائے'' اس گیت کو راجہ مہدی خان نے لکھا تھا اور موسیقی مدہن موہن نے دی تھی اتفاق سے یہ تینوں گانے نامور مغنیہ لتا منگیشکر کے گائے ہوئے تھے۔
استاد رئیس خان اپنے ستارکی وجہ سے فلمی دنیا کے نامور موسیقاروں کی گڈ بک میں تھے اور خاص طور پر مدہن موہن کے تو بڑے بھی چہیتے ستار نواز تھے۔ یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ موسیقی کی دنیا میں بطورموسیقار شہرت پانے سے پہلے مدہن موہن بھی ستار نواز ہی تھے۔ مدہن موہن استاد رئیس خاں کے بڑے معترف تھے اور ان کے درمیان گہری دوستی بھی تھی ایک بار مدہن موہن کے گھر میں موسیقی کی ایک محفل تھی اس میں رئیس خاں کو بھی دعوت دیتے ہوئے ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس محفل میں اپنے فن کا جادو جگانے کے کتنے پیسے لیںگے تو رئیس خان بہت ناراض ہوگئے تھے کہ مدہن موہن صاحب نے یہ بات کہہ کر دوستی اور اُن کی توہین کی ہے پھر دونوں میں کافی ناراضگی ہوگئی تھی اور پھر مدہن موہن نے بھی اپنے کسی گانے میں ستار کا ساز رکھنا ہی چھوڑدیا تھا کیونکہ وہ رئیس خاں کے ستار کے علاوہ کسی اور ستار نواز کو لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں استاد رئیس خان کے فن کو کتنی اہمیت حاصل تھی اور موسیقاروں کے کتنے پسندیدہ تھے۔
استاد رئیس خاں جتنے اچھے ستار نواز تھے اتنے ہی اچھے کمپوزر بھی تھے اور خود بھی اچھا گاتے تھے مگر ان کی کمپوز کی ہوئی دھنیں ہندوستان کے نامورفنکاروں نے گائیں اور ان دھنوں سے بے مثال شہرت نصیب ہوئی اور وہ گیت مقبولیت کی سند ثابت ہوئے جیسے کہ شاعر حسن رضوی کا لکھا ہوا یہ گیت جسے میڈم نور جہاں کے بعد غلام علی نے بھی گایا تھا۔ گیت کے بول ہیں:
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا
کبھی درختوں پہ نام لکھنا
اس گیت کے علاوہ ایک اور لاجواب دھن اور گیت جسے لیجنڈ گلوکار کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں گلوکاروں نے گایا اور بے تحاشا شہرت کمائی ناصرکاظمی کا یہ خوبصورت گیت بھی نذرِ قارئین ہے جس کی مدھر موسیقی دل موہ لیتی ہے۔
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
اس گیت اور دھن کی تازگی برسوں سے ایک جیسی ہے۔ اس کی مہک کبھی بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ گیت اپنی موسیقی کے ساتھ ماضی میں بھی مقبول تھا۔ آج بھی مقبول ہے اور آیندہ بھی اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ یہ گیت پذیرائی، پسندیدگی کی ایک سند ہے، ایک تاریخ ہے اور اس گیت کو میں خود بھی کئی بار لیجنڈ گلوکاروں مہدی حسن خان صاحب، جگجیت سنگھ، صابری برادران، حبیب ولی محمد اقبال قاسم اور آصف علی سے تو بارہا سن چکا ہوں۔
مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں نے استاد رئیس خان کو نامور کلاسیکل سنگر پرائڈ آف پرفارمنس استاد امراؤ بندو خان کے گھر کی ایک خاص محفل میں رو برو سنا بھی اور ان کے ستار کے فن کے مشہور گلوکارہ بلقیس خانم سے ہوئی چند ملاقاتوں کے بعد یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ بلقیس خانم کی یہ پہلی اور استاد رئیس خان کی دوسری شادی تھی۔ شادی سے پہلے بلقیس خانم کا گایا ہوا ''ایک گیت انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند'' بڑا مقبول ہوا تھا۔ ریڈیو پر میرے لکھے ہوئے کئی گیت بھی موسیقار لال محمد اقبال نے بلقیس خانم سے گوائے تھے۔جب بلقیس خانم کی رئیس خاں سے شادی ہوئی تو مجھے اپنا لکھا ہوا اور بلقیس خانم کا گایا ہوا ایک گیت یاد آگیا جس کے بول تھے:
تو جو ملا جانِ وفا
پیار کے گیت لبوں پر آئے اور میں جھوم اٹھی
اور واقعی بلقیس خانم کو شوہر کی صورت میں ایک انوکھا لاڈلا ایسا ملا تھا کہ وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھیں۔ دونوں کی سریلی جوڑی بڑی خوبصورت تھی۔ میری بلقیس خانم اور رئیس خاں سے کراچی میں ان کے گھر پر کئی بار یادگار ملاقاتیں رہی ہیں۔ افسوس وہ انوکھا لاڈلا بلقیس خانم کو داغِ مفارقت دے گیا اور اس احساس کو پھر سے تازہ کر گیا کہ یہ دنیا، یہ دنیا کی رونقیں، یہ حسن کے جلوے یہ شہرت یہ دولت سب عارضی چیزیں ہیں۔ یہاں کوئی دائمی نہیں ہے ہر چیز فانی ہے۔ رئیس خاں جیسے فنکار برسوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے وقت کے اس مہان ستار نواز کو 23 مارچ 2017 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا ۔ان کی بہترین کمپوزیشن اب کے سال پونم میں انڈین فلم ''جانفروش'' میں ری مکس کی گئی تھی استاد رئیس خاں دنیائے موسیقی کا حتمی سرمایا تھے آہ ! اب وہ اس دنیا میں نہ رہے۔
چپ چاپ چاندنی ہے ستارے اُداس ہیں
دنیائے سرکے سارے نظارے اُداس ہیں