OBOR وہ ہی منزل وہ ہی راستہ
یہ خطہ، دنیا کا واحد خطہ ہے جو بہت پسماندہ ہے
یوں لگتا ہے ہم ہندوستان کے نہیں، مودی کے پڑوسی ہیں۔ کل جس طرح ہٹلر کے زمانے میں جرمنی کے پڑوسی تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ زمانہ کوئی اور تھا، یہ زمانہ کوئی اور ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں ہے، مگر تاریخ آئینہ بن کر کچھ نہ کچھ بتاتی ضرور ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم قصوروار نہ ہوں، اگر اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا تو پتھر کا جواب اینٹ سے ضرور دیا۔
یہ خطہ، دنیا کا واحد خطہ ہے جو بہت پسماندہ ہے۔ ہم نہ آپس میں تجارت کرتے ہیں نہ آتے جاتے ہیں۔ اور تاریخ بار بار یہ بتاتی ہے ہم اسی تہذیب کے وارث ہیں جس کو دنیا اب صرف ہندوستان کی تہذیب کے نام سے جانتی ہے۔ انڈس سولائزیشن ہی تو ہے جس میں آج کے پاکستان کی جغرافیہ موجود ہے۔
پاکستان کل ملا کر ستر سال کا اور انڈس سولائزیشن دس ہزار سال پر مبنی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد، ہم خواہ مخوا ادھر ادھر اپنی شناخت ڈھونڈتے رہے، محمد بن قاسم کو ایجاد کیا، غوری و غزنوی کو لے کر آئے، غرض کہ جو بھی انڈس سولائزیشن پر حملہ آور ہوا ہم نے اسے ہیرو بنادیا۔ ایسا دنیا میں ہوتا نہیںہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم ہجرتوں سے بنے ہوئے ہیں، کوئی سینٹرل ایشیا سے آیا، کوئی ایران سے تو کوئی عرب سے آیا۔ پاکستان بننے کے بعد ہماری بدنصیبی یہ ہوئی کہ جناح جلد ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ ملک تو بن گیا، مگر قیادت کہیں نہ تھی۔ ایک سوچ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ابھی پورے مسلمان نہیں ہوئے۔ ہم کون ہیں؟ ہمارا نظریہ کیا ہے؟ ہماری سوچ کیا ہے؟ شرفاؤں کو فکر لگ گئی۔
اور بالآخر جنرل ضیاء الحق نے اس بگڑے ہوئے بیانیہ میں وہ بگاڑ پیدا کیا کہ ساری کی ساری انڈس سولائزیشن دھری کی دھری رہ گئی۔ خیر جو ''بامیان'' میں بدھا کے بتوں کے ساتھ ہوا، ہمارے ہاں بات وہاں تک نہ پہنچی، موہنجو دڑو، ٹیکسلا، اور ہڑپہ ہم اس تہذیب کے وارث ہیں۔کل جب جنرل جاوید قمر باجوہ نوجوانوں سے نئے بیانیہ یا ردِ بیانیہ کے بارے میں بات کررہے تھے، تو اس یقین کے ساتھ میں آج یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان ماڈرن ریاست بننے کے لیے ایک نئے زینے پر آگیا ہے، جہاں سے اس ملک کے لیے بہت سے راستے کھلتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسے پڑوسی کا سامنا ہے جس کی اندرونی سیاست اور بیرونی تعلقات کی بنیاد پاکستان دشمنی ہے۔ وہ ہم سے کنونشنل انداز میں جنگ نہیں کرتا بلکہ نان کنونشنل انداز میں جنگ کرتا ہے۔
پوری دنیا میں پراکسی جنگیں اتنی نہیں ہوتی ہوں گی جتنی کہ اس خطے میں۔ ہماری نفسیات جاسوسوں اور پراکسی جنگ میں پکڑے ایجنٹوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ جب کہ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔وہ کلبھوشن کو ہندوستان کا بیٹا کہتے ہیں اور ہمارے لیے وہ اب ولن کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہمیں تو اپنے بیانیہ نے جو ڈسا وہ ڈسا، ہم اس سے نکل رہے ہیں، مگر ہندوستان پاگل پن سے ایک اور پاگل پن کی منزل کی طرف چل پڑا ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ دشمنی میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا ہے۔
یہاں تک کہ حال ہی میں چین میں OBOR (وہ ہی منزل وہ ہی راستہ) کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کی۔ یہ کانفرنس اس صدی کے بڑے ایونٹس میں شمار ہوتی ہے۔ چین دنیا کا سپر پاور بن چکا ہے اور اس کی معاشی و تجارتی طاقت ہونے میں، اب کی بار پاکستان بھی ایک ستون ٹھہرا۔ لاؤس سے لے کر دس مزید ایشیائی ممالک کا تعلق بن رہا ہے ریل کے ذریعے۔ ان پہاڑی سلسلوں سے سو سے زیادہ پلیں اور سرنگیں بنائی جائیں گی اور لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے، نائیجیریا سے کینیا تک اور بہت سے افریقی ممالک کو ریل کے ذریعے جوڑا جارہا ہے، جس پر لگ بھگ پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ بیجنگ سے سینٹرل ایشیا سے گزرتی ہوئی ریل کی پٹری آگے برطانیہ میں پہنچے گی۔ وہ مکمل بھی ہوچکی ہے، لگ بھگ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے۔
اور ہمارا CPEC جو مجموعی طور پر OBOR کا لگ بھگ 25% حصہ ہے، جس میں بھی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی یعنی آنے والے دس سال میں ایک ہزار ارب ڈالر صرف کیے جائیں گے اس منصوبے پر۔ اور ہم اس آتی ہوئی تبدیلی میں، جو کہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، اس کا حصہ ہیں۔ ہم صرف حصہ نہیں ہیں بلکہ اس منصوبے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس کی وجہ ہماری جغرافیائی حیثیت ہے، جو کہ اس منصوبے کے لیے بہت اہم ہے اور جو کہ چین کو افریقہ تک پہنچاتا ہے اور ساتھ ساتھ گلف ریاستوں کے لیے بھی راستہ کھولتا ہے۔ کل تک ہم امریکا کے ساتھ تھے۔ آج ہم چین کے ساتھ ہیں۔ ہندوستان امریکا کے بہت قریب آگیا ہے اور آہستہ آہستہ وہ خطے میں اپنی اہمیت کھو رہا ہے، اس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ OBOR ہے۔
برصغیر میں ریلوے کا انفرااسٹرکچر انگریز لایا، پاکستان میں تو وہ بدحالی کا شکار ہے۔ جنرل ایوب کے زمانے میں امریکا کی ''فورڈ'' ٹرکوں کے لیے راہیں جو ہموار کرنی تھیں۔ میاں نوازشریف کو بھی پیار ریلوے سے کم سڑکوں سے زیادہ ہوا۔ سی پیک کے ذریعے چین دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہمارے ریلوے نظام پر کرے گا۔اس پورے بدلتے پاکستان میں جو منفی پہلو ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے انسانی وسائل بہت ہی پسماندہ ہیں اور ساتھ ساتھ ہمارے ادارے کمزور ہیں اور اسی طرح سے سیاسی قیادت بھی۔