عبرت چوک
بظاہر لگتا ہے میرا دوست مقصود الرحمن بھی میری طرح ضعیف ایمان کا شکار ہے
بظاہر لگتا ہے میرا دوست مقصود الرحمن بھی میری طرح ضعیف ایمان کا شکار ہے۔ گزشتہ روز بتانے لگا کہ جمعہ کی نماز کے دوران نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے خیالات بھٹکتے رہے اور اس کی عبادت میں یکسوئی وقفے وقفے سے ٹوٹتی رہی۔ جب تک وہ مسجد سے نکل کر سڑک کی دوسری جانب نہیں پہنچ گیا اسے یوں لگا جیسے وہ جان ہتھیلی پر رکھے بیٹھا رہا ہے۔
اس کے مطابق سن 07ء کے اوائل میں اس کی ذہنی کیفیت متاثر ہونا شروع ہوئی اور اب ہر پر ہجوم مقام، مارکیٹ اور عبادت گاہ جہاں پر کچھ دیر رکنا پڑے اس کی ذہنی خلجان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی توجہ وہاں سے جلد از جلد نکل بھاگنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ کئی اور لوگوں نے بھی اسی قسم کی بے چینی کی تصدیق کی تو انہی دنوں ایک ماہر نفسیات و ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو کہتے سنا کہ گزشتہ کئی ماہ سے اس کے پاس آنے یا لائے جانے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔
کچھ روز قبل ایک کمسن طالبعلم اپنے کمپیوٹر پر کسی دوست کا بھیجا ہوا جہادی وعظ سن رہا تھا۔ قریب سے گزرتے باپ نے آواز سنی تو رک گیا۔ وعظ میں پیغام تھا کہ ''یہ زندگی عارضی ہے اور ہمیشہ کی رہنے والی زندگی کے لیے امتحان گاہ ہے جتنی جلدی ہوسکے اسے چھوڑ دینا چاہیے لیکن اس سے پہلے کفر کو دنیا سے مٹانا ہوگا جس کے لیے جہاد ہی آخری ذریعہ ہے اور اس میں اپنی زندگی کو قربان کرکے ہی اللہ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے۔ رستے میں آنیوالی ہر رکاوٹ یعنی ماں باپ بھائی بہن اولاد اور دولت کو ٹھوکر مار کر ہی حصول منزل ہو گی اور اطاعت کا حق ادا ہو گا۔ حیات جاوداں پانے اور الٰہی حکم بجالانے والے ہی انعام کے وارث ہونگے اور جنت کے دروازوں پر حوروں کو اپنا منتظر پائیں گے۔ دین کی راہ میں جہاد کرنیوالا رتبۂ شہادت پانے کے لیے چھاتی سے خودکش بم باندھ کر کفر کی ظلمت کو مٹانے نکلے گا تو ہمیشہ کی زندگی پائیگا اور جس کے قدم ڈگمگاگئے وہ اس دنیا ہی میں نہیں حقیقی اور آنے والی زندگی میں بھی جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔''
معصوم طالبعلم کے باپ نے وعظ کے الفاظ جن میں زیادہ سے زیادہ زندگیاں ایک خودکش دھماکے سے ختم کرنے پر انعامات کی تفصیل تھی سنے تو بیٹے کو کمپیوٹر بند کر کے توبہ اور استغفار کرنے کا حکم دیا اور سوچا کہ اگر اس مضمون کا وعظ وہ بھی ایک دوماہ کے لیے روزانہ کئی بار سنے تو شاید وہ خود بھی چھاتی سے خودکش بیلٹ باندھ لے اور روبوٹ کی طرح جنت کی کنجی جیب میں ڈال کر کسی مارکیٹ، اسپتال یا جلسہ گاہ میں پھٹ جانے کے لیے جا پہنچے۔
اگرچہ ضرب عضب اور ردالفساد کی مسلسل کامیابیوں نے ملک میں دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن اسلحے پیسے اور گمراہی کا پھیلاؤ سمیٹنے میں شاید اس لیے دقت پیش آ رہی ہے کہ تربیت اور پناہ گاہوں سے مفاد حاصل کرنیوالوں نے دوہرے نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ وہ بظاہر فتنہ و فساد کی بیخ کنی میں فوج کے ہم نوا نظر آتے ہیں لیکن اندرون خانہ ظلم و بربریت کی فصل میں ساجھے دار ہیں کیونکہ معصوموں کا لہو ہی ان کے لیے آب بقا ہے۔ ان کے مکروہ چہرے بے نقاب ہونے میں اب زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ ایک کمسن طالب علم تک ان عفریتوں کی ویڈیو کا پہنچ جانا یقینا ان کی کامیابی ٹھہری لیکن اس معصوم کے باپ کو اس کا علم ہوجانا حالات کا رخ تبدیل ہو جانے کا اشارہ بھی ہے۔
ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے لیکن اسی مذہب کے نام لیوا ہونے کے دعویدار جب سو دو سو بچوں بوڑھوں اور معصوموں ہی نہیں اسی دین اسلام کے نام لیواؤں کو قتل کرنے کا دعویٰ کر کے اس کا کریڈٹ بھی لینا چاہتے ہیں تو دو ہی امکانات ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ ایسے افراد کا در حقیقت دین اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں اور اصل میں دشمن دین ہیں اور کسی دوسرے کے پالتو درندے ہیں یا پھر ان کی تربیت اور برین واشنگ کرکے انھیں روبوٹ کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایسے انسان نما درندوں کی تربیت گاہوں یا لیبارٹریوں اور ان کو چلانے والوں کا سراغ پانا ضروری ہے۔ پھر ان کا تیز ترین ٹرائل کر کے ان کی پبلک Hanging کی جانی چاہیے اور ہر شہر کے مین چوک کا نام عبرت چوک رکھ کر سعودی عرب کی تقلید کرنی چاہیے۔
پاکستان میں پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک پھانسی کی سزا پانے والوں کے لیے عمر قید کی سزا رہی۔ ایک دہشتگردی کے VICTIM ملک میں اس پالیسی نے ہزاروں لوگوں کو رعایت دے رکھی تھی جس کا خمیازہ بے قصور لوگوں نے جن کی تعداد انگنت ہے بھگتا اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے اور ضرب عضب و ردالفساد کے باوجود چڑھ رہے ہیں اس لیے عبرت چوک کی ضرورت جتنی کل تھی اتنی آج بھی ہے۔