اداکارہ رانی اپنی ذات میں انجمن تھیں
رانی مرحومہ نے 1941ء میں بلال ٹھڈا نامی شخص کے ہاں جنم لیا
راقم ماضی کے حوالے سے شوبز پر اس لیے کبھی کبھی لکھتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو بھی پتہ چلے کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں کیسے کیسے جواہر پیدا ہوئے۔ جو اپنی جوانی کے دن گزارنے کے بعد 50 ویں بہار میں داخل ہوگئے ہیں، وہ ایسے مضامین کو بہت توجہ اور محبت سے پڑھتے ہیں۔ ماہ مئی میں اس فلم انڈسٹری پر حکومت کرنے والی شخصیات، کے کام نے ان کو ستاروں کی مانند کردیا۔ اداکارہ رانی اپنی ذات میں انجمن تھیں۔ انھوں نے ناکامیاں تو دیکھیں مگر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ لازوال اداکارہ بن گئیں۔
رانی مرحومہ نے 1941ء میں بلال ٹھڈا نامی شخص کے ہاں جنم لیا۔ اس گھر میں فاقہ اور غربت کا بسیرا تھا۔ ٹھڈا کی بیوی بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد اس سے طلاق لے کر حق نامی شخص سے شادی کرلی، جو لاہور کی ایک بہت بااثر خاتون مختار بیگم کے ہاں ڈرائیور تھا۔ حق اپنی بیوی بالی اور اس کی بیٹی ناصرہ (رانی) کو مختار بیگم جو گلوکارہ فریدہ خانم کی بہن تھیں، کے ہاں لے آیا۔ مختار بیگم ایشیا کے نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی اہلیہ تھیں۔
رانی کے والد لاہور کے ایک تنگ و تاریک محلے مزنگ کی ایک گلی میں آباد تھے، جہاں رہنے والے لوگ غربت کی گہرائیوں میں رہتے تھے، وہاں سے نکلنے والی لڑکی رانی کو جب مختار بیگم کی محبت ملی تو وہ کندن کی شکل اختیار کر گئی۔ رانی جب 15 سال کی ہوئی تو مختار بیگم نے انھیں معروف مصنف اور ہدایت کار انور کمال پاشا کے فنی طور پر حوالے کردیا۔ انھوں نے رانی میں فن کے جوہر تلاش کیے، فن شناس پاشا نے رانی کو اپنی فلم ''محبوب'' میں سیکنڈ ہیروئن کے طور پر لیا، جس میں مرکزی کردار حبیب اور شمیم آرا نے کیے اور رانی یوسف خان کے بالمقابل آئیں۔
یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی، مگر انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو معلوم نہیں تھا کہ رانی مختار بیگم کی منہ بولی بیٹی ہے۔ دوسری فلم آغا جی اے گل کی ''اک تیرا سہارا'' تھی، اس میں بھی ان کے ساتھ شمیم آرا تھیں، یہ فلم بھی ناکام ہوئی۔ ہدایت کار وزیرعلی نے رانی اور کمال کو لے کر فلم ''چھوٹی امی'' میں کاسٹ کیا۔ یہاں کمال نے رانی کے لیے نرم گوشہ رکھا، اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور 1964ء کے اخبارات نے بہت کچھ لکھا ان دونوں کی داستانوں پر۔ اداکار کمال مرحوم نے اپنی ذاتی فلم ''جوکر'' میں رانی کو ہیروئن لیا اور ریلیز کے بعد یہ فلم بھی فلاپ ہوگئی۔
اس قصے کو ختم کرنے کے لیے کمال نے ایک گھریلو خاتون سے شادی کرلی تاکہ رانی بہت زیادہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ نصیب کی ٹھوکروں نے انھیں بہت پریشان کیا، کچھ عرصہ انھوں نے ناکامیوں سے بھرپور دور دیکھا۔ اس زمانے میں رانی کی فلاپ فلموں کی لائن لگ گئی۔ 1966ء کی بات ہے فلم ''عورت' صنم، شطرنج، سفید خون، عورت کا پیار، چھوٹی امی، بیس دن اور جوکر'' ان کی فلاپ فلموں میں شمار ہوئیں۔ کمال کافی زندہ دل انسان تھے۔
کمال نے اعلان کیا کہ جوکر کی نمائش کے روز رانی اور کمال نشاط سینما پر آکر پرستاروں سے ملیںگے، اس خوشی میں بینڈ باجے منگوائے گئے۔ ان تمام تر کارروائیوں کے باوجود ہدایت کار اقبال یوسف کا نام بھی فلم کو ناکامی سے نہ بچا سکا۔
جولائی 1966ء میں رانی کی زندگی میں حسن طارق بہار کا جھونکا بن کر آئے اور پھر رانی اور حسن طارق شائقین فلم پر چھا گئے۔ فلم ''تقدیر'' کی ریکارڈنگ کے دوران حسن طارق اور رانی ایک دوسرے کے قریب آگئے، جب کہ حسن طارق شادی شدہ تھے اور اپنے وقت کی معروف رقاصہ ایمی مینوالا ان کی بیوی تھی، مگر جب رانی ان کی زندگی میں آئیں تو ہواؤں کا رخ بدل گیا اور حسن طارق رانی کے ہوکر رہ گئے۔ انھوں نے رانی سے شادی کرلی مگر ایمی مینوالا سے تعلق نہ توڑا۔
جب حسن طارق مزید بیمار ہوئے تو ایمی مینوالا نے ان کا ایک مشرقی عورت کی طرح بہت ساتھ دیا۔ یہ رانی کی پہلی شادی تھی۔ حسن طارق نے فلم ''دیور بھابھی'' بنائی اس نے سپرہٹ بزنس کیا اور اس فلم کے مرکزی کردار وحید مراد، سنتوش نے ادا کیے۔ شائقین فلم کا کہنا تھا کہ حسن طارق سے شادی کے بعد رانی اب ناکامی کے سحر سے نکل گئی ہیں مگر یہ ان کی خیام خیالی تھی۔ اس کے بعد ظالم، چھین لے آزادی، عدالت نامی فلمیں بری طرح فلاپ ہوئیں اور پھر حسن طارق نے رانی کو لے کر انجمن امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی بنائیں۔
ثریا بھوپالی تو خاطر خواہ بزنس نہ کرسکی مگر انجمن اور امراؤ جان ادا نے جادو پھیر دیا اور رانی کو صف اول کی اداکارہ بنادیا۔ اس کے بعد تو ان کی کئی فلموں، جن میں ایک گناہ اور سہی، ناگ منی، دیا اور طوفان، مکھڑا چن ورگا، چن مکھنا نے رانی پر کامیابیون کے در کھول دیے۔ مگر اب بھی رانی کے نصیب میں ناکامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ ان کی پہلی شادی جو حسن طارق سے ہوئی، ان سے ان کی ایک بیٹی رابعہ ہے۔ رانی کو اس بات کا دکھ تھا کہ حسن طارق سے ان کا نبھا نہ ہوسکا اور انھوں نے رانی کو طلاق دے دی۔
رانی دل برداشتہ ہوکر خاموشی کی زندگی گزار رہی تھیں کہ فیصل آباد کے فلم ساز جاوید قمر نے ان سے شادی کرلی اور پھر رانی کی بیماری کے دوران جاوید قمر نے بھی انھیں طلاق دے دی۔ غموں اور زندگی کے دیے ہوئے زخموں سے چور رانی علاج کی غرض سے لندن چلی گئیں۔لیکن ابھی غریب کی نصیب میں ٹھوکریں باقی تھیں کہ ایک ٹھوکر سرفراز کی صورت میں اور لگی۔ لندن میں رانی کی ملاقات کرکٹ کے کھلاڑی سرفراز نواز سے ہوئی، سرفراز کے خلوص سے متاثر ہوکر، جو ان کی برابر عیادت کے لیے آتے تھے، رانی نے اس سے شادی کرلی۔ یہ ان کی تیسری شادی تھی۔
اب آتے ہیں رانی سے دو تین تفصیلی ملاقاتوں کی طرف۔ یہ 23 مئی 1993ء کی بات ہے، ہمارے استاد محترم اسد جعفری نے ہماری ملاقات آغا خان اسپتال میں رانی سے کروائی۔ یہ ایک مختصر ملاقات تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب راقم ان سے ملنے دوبارہ گیا، جو ان کی زندگی کا آخری اسٹیشن تھا، فلمی صنعت، اخبارات اور ٹی وی پر حکومت کرنے والی فلمی ''رانی'' زندگی کے آخری ایام میں بالکل تنہا تھیں۔ ان کی خوبصورت کٹورہ جیسی آنکھیں غم جذبات سے نم تھیں۔
انھیں دکھ تھا، شوبز کی فیلڈ سے اور نئی نسل کے صحافیوں سے خاص گلہ کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ اب انجمن اور امراؤ جان ادا کی رانی جوانی کی دہلیز شاید پار کرگئی ہے، جبھی تو میری عیادت کے لیے اتنے بڑے شہر کراچی سے کوئی صحافی نہیں آیا۔ انھوں نے اداکار رنگیلا کے بارے میں کہا کہ وہ بہت شریف اور نیک انسان ہیں، میری مسلسل فلاپ فلموں کے باوجود انھوں نے مجھے اپنی فلم ''دیا اور طوفان'' میں ہیروئن لیا۔ یہ رنگیلا کی نیکی تھی کہ اس فلم نے پاکستان میں سپر ہٹ بزنس کیا۔
عنایت حسین بھٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایاکہ وہ اور ان کے بھائی کیفی فرشتہ صفت انسان ہیں۔ انھوں نے فلم چن مکھنا، جو سپرہٹ فلم تھی، میں کاسٹ کیا اور اداکار حبیب نے میرا ان سے تعارف کروایا تھا ، بعد میں ان دونوں بھائیوں سے میری بے لوث دوستی کا آغاز ہوا، عنایت حسن بھٹی نے مجھے اپنی ذاتی فلم چن مکھنا میں ہیروئن لیا اور وہ اس فلم کے ہیرو تھے۔
بحیثیت گلوکار وہ بہت سریلے گلوکار تھے۔ رانی بیماری کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھیں اور ان کی کینسر کے حوالے سے کمیوتھراپی ہورہی تھی، یہ جان لیوا مرحلہ ہوتا ہے۔ سرفراز نواز کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں نے جب دوبارہ شوبز میں قدم رکھا تو یہ بات غالباً سرفراز کو پسند نہیں آئی اور میں نے پی ٹی وی کی سیریل ''خواہش'' میں کام کرنے کی حامی بھری مگر ہماری اور سرفراز کی علیحدگی طلاق کی صورت میں ہوئی۔
دنیا کی انجمن سے روٹھنے والی رانی 1993ء مئی کو ایک رات اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی میت کے پاس کوئی نہیں تھا۔ فلمی صنعت کی بے حسی کا عجیب عالم یہ تھا کہ ان کی رسم چہلم کے موقع پر فلم کی کسی قابل ذکر شخصیت نے شرکت نہیں کی۔یہ فلموں کی رانی کا دردناک دی اینڈ تھا۔