کراچی کی سیاست اور عوامی مسائل

اس وقت ملکی سیاست پاناما اور نیوز لیکس کے گرد گھوم رہی ہے


عثمان دموہی May 21, 2017
[email protected]

لاہور: اس وقت ملکی سیاست پاناما اور نیوز لیکس کے گرد گھوم رہی ہے۔ کئی سیاسی پارٹیوں نے ان ایشوز کے ذریعے حکومت کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وزیراعظم سے استعفیٰ کا پرزور مطالبہ کر رہی ہیں۔ حکومت حزب اختلاف کے خطرے کو ٹالنے کے لیے ملک میں ترقیاتی کاموں کا سہارا لے رہی ہے۔

حزب اختلاف اگرچہ حکومت کے خلاف زوردار مہم چلارہی ہے مگر وہ عوام کو متاثر کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ حزب اختلاف عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی سر توڑکوشش کررہی ہے مگر ملک کے کسی بھی شہر میں عوامی سطح پر وفاقی مخالف ایک بھی ریلی نہیں نکلی ہے۔ گوکہ ملکی سیاست پر اس وقت پاناما اور نیوز لیکس چھائی ہوئی ہیں مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ کراچی کی سیاست پر عوامی مسائل چھائے ہوئے ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے کراچی کی سیاست پر دہشتگردی حاوی تھی۔

اس وقت یہ شہر طالبان اور ''را'' کے ایجنٹوں کے نرغے میں پھنسا ہوا تھا۔ یہاں روز ہی بیس سے پچیس افراد مارے جارہے تھے۔ مارنے والوں کو شاید گنتی پورا کرنے کا خوف دیا جاتا تھا چنانچہ وہ نہ جوان دیکھتے، ضعیف نہ بچہ، حتیٰ کہ خواتین تک کو گولیوں کا نشانہ بنانے سے نہ چوکتے۔ قتل و غارت گری تو اپنی جگہ تھی۔ ہڑتالوں نے شہر کو ویران کردیا تھا۔ بھتوں کی بھرمار نے چھوٹے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔

بیشترکارخانوں پر تالے پڑ گئے تھے ان میں کام کرنے والے مزدور بیروزگار ہوگئے اور کسی دوسری جگہ نوکری نہ پاکر مایوسی کے عالم میں نشے کے عادی بن گئے۔ پھر بچوں کو فاقوں سے بچانے کے لیے ان کی بیویاں سڑکوں پر آگئیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ بالآخر ظلم کی رات سمٹ گئی اور امن کا سورج نمودار ہوا۔

اب اس وقت کراچی میں تیس سال بعد حالات نارمل ہوگئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کراچی کے عوام پر غمالی کیفیت سے آزاد ہوکر کھل کر پہلے جیسی سیاست میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ اب ہر سیاسی پارٹی بھی یہاں کھل کر اپنا کام کررہی ہے۔ اس وقت ان کی سیاست کا محور شہر کے عوامی مسائل سے لا تعلق اور خوابیدہ حکومت سندھ کو بیدار کرکے عوام کے بنیادی حقوق کو بحال کرانا ہے۔

یہ شہر جو آزادی سے قبل صفائی ستھرائی کے لحاظ سے پورے برصغیر میں سب سے زیادہ صاف ستھرا شہر قرار دیا جاتا تھا اب پورے پاکستان میں سب سے زیادہ گندہ اور عوامی مسائل سے دو چار ہونے کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ بد قسمتی سے پورا شہر کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کچرے کے ڈھیروں کے تعفن سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر گندا پانی بہنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ گڑھوں میں گندے پانی کے کھڑے ہونے سے مچھروں کی افزائش ہورہی ہے۔

پینے کے پانی کے لیے لوگ ترس رہے ہیں۔ آئے دن پانی کی پائپ لائنیں پھٹتی رہتی ہیں اور پمپنگ اسٹیشنز پر بجلی غائب رہتی ہے سڑکوں کا حال برا ہے اکثر سڑکوں پر غار نما گڑھے پڑچکے ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اپنی ذمے داریوں سے قطعی لاپرواہ ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے اس سخت گرمی کے موسم میں لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ بد قسمتی سے صرف کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کے اکثر شہر حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے موئن جو دڑوکا منظر پیش کر رہے ہیں۔

دراصل اس وقت پیپلزپارٹی کی تمام تر توجہ آئندہ الیکشن جیتنے پر لگی ہوئی ہے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب یہ سیاسی پارٹی اپنی شہری ذمے داریوں کو پورا نہیں کرے گی تو لوگ اسے کیونکر ووٹ دیںگے؟ کراچی کے عوام کو مسائل میں گھرا دیکھ کر تمام ہی سیاسی پارٹیاں عوامی مسائل کو حل کرانے کے لیے میدان عمل میں کود پڑی ہیں۔

جماعت اسلامی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ پر کے الیکٹرک کمپنی کے خلاف کئی دن تک دھرنا دیا ہے۔ جب کہ ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ گورنر ہاؤس کے پاس دھرنا دیتے رہے ہیں۔ افسوس کہ گورنر سندھ بھی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکے۔ کے الیکٹرک اب بھی اپنی عوام کش روش پر قائم ہے۔ وہ نہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کررہی ہے اور نہ ہی اپنے بلنگ کے نظام کو عوامی توقعات کے مطابق ڈھال رہی ہے۔

عوامی مسائل کے سلسلے میں پاک سر زمین پارٹی گزشتہ دنوں پریس کلب کے باہر اٹھارہ دنوں تک دھرنا دے چکی ہے۔ پی ایس پی نے اپنے دھرنے میں حکومت کے سامنے اپنے 16 مطالبات رکھے تھے یہ تمام عوامی امنگوں کے مطابق ہیں۔ اس دھرنے کو زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ عوام کی بڑی تعداد وہاں ہر وقت موجود رہتی تھی۔

اس دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی کی کئی معزز شخصیات اور سیاسی پارٹی کے رہنماؤں نے پی ایس پی کے قائدین سے ملاقاتیں کیں اور انھیں عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ یہ دھرنا 18 دن کے بعد حکومتی بے حسی کی وجہ سے ختم کردیاگیا تھا مگر پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال نے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی 14 مئی کو ایک ملین افراد پر مشتمل ریلی نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔

اس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بھی عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک بڑی ریلی نکالی جو کامیاب اور انتہائی پر امن تھی۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم پاکستان کی کافی بڑی تعداد میں نمائندگی موجود ہے پھر اس کے میئر کو بھی عوام نے شہری مسائل کو حل کرانے کے لیے ہی منتخب کرایا ہے مگر وہ مسائل کو حل کرانے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم اکثر مبصرین عوامی مسائل کا سارا ملبہ حکومت سندھ پر ڈال رہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر کراچی کے مسائل سے لاپرواہی برت رہی ہے۔

کراچی کے میئر کے اختیارات میں کمی کرکے اسے بے بس کردیاگیا ہے تمام سیاسی پارٹیاں بھی میئر کے اختیارات کو کم کرنے کے سلسلے میں حکومت پر نکتہ چینی کررہی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ حکومت محض اپنے مالی مفادات کے لیے عوام کو تنگ کر رہی ہے جس کا نتیجہ اسے آئندہ انتخابات میں بھگتنا ہوگا۔

عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں پاک سرزمین پارٹی نے 14 مئی کو ملین مارچ کا اہتمام کیا۔ ریلیوں میں حقیقتاً افراد کی کم یا زیادہ تعداد معنی نہیں رکھتی اصل مقصد مشکلات کے باوجود عوامی فلاح کے لیے جد وجہد جاری رکھنا ہے۔ 14 مئی کو ایف ٹی سی پل کے پاس مغرب کے وقت عوام کا جم غفیر موجود تھا جس میں مہاجر، پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور سرائیکی کیا ہندو سکھ اور عیسائی کمیونٹی کے لوگ بھی شریک تھے۔

اس ریلی نے حقیقتاً کراچی کی تیس سال پرانی عوامی یکجہتی کی یاد تازہ کردی تھی۔ یہ ریلی ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ پولیس نے اس کی پیش قدمی روک کر ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی۔ واٹر کینن کے ذریعے پانی میں تربتر کرکے بھیڑ کو منتشر ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ چیئرمین مصطفیٰ کمال اور دیگر قائدین کو پولیس نے گرفتار کرلیا مگر بعد میں رہا کردیا۔

مبصرین کے مطابق ریلی کو ریڈ وزن میں داخل ہونے سے پہلے ہی منتشر کرکے حکومت نے عوام کے ساتھ کھلی زیادتی کی۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کی اور اسے اپنا رویہ عوام دوست بنانے کا مشورہ دیا۔ پی ایس پی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت عوامی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کو جرم قرار نہ دے اور اگر اس کے نزدیک یہ جرم ہے تو وہ ایسا جرم بار بار کرتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔