لاہور کی تھانیدارنی
وقت کے ساتھ تبدیلی بھی ایک مثبت چیز ہے گو تبدیلی کو پسند یا قبول ذرا مشکل سے ہی کیا جاتا ہے
وقت کے ساتھ تبدیلی بھی ایک مثبت چیز ہے گو تبدیلی کو پسند یا قبول ذرا مشکل سے ہی کیا جاتا ہے لیکن اچھی تبدیلی وقت کے ساتھ قبولیت کی سند حاصل کر ہی لیتی ہے اور ہم رفتہ رفتہ اس کے عادی بھی ہو جاتے ہیں۔ آج کل تبدیلی کا زمانہ ہے، پرانی چیزوں کو نئی چیزوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جاتا ہے تا کہ وہ تر و تازہ رہیں ۔ انسان ہر وقت تبدیلی کا خواہاں رہتا ہے لیکن تبدیلی اپنی پسند کی چاہتا ہے ۔ہماری نوجوان نسل تو ہر نئے رنگ میں رنگنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے اور اس کی نظر میں پرانی اشیاء کی وقعت وہ نہیں جو ہماری نسل کے لوگوں میں تھی۔
ہم پرانے زمانے کے لوگ تبدیلی کو یا تو قبول نہیں کرتے اور اگر قبول کرنی پڑ جائے تو پھر مجبوراً اسے زندگی کا حصہ بناتے ہیں لیکن دل پرانی چیزوں میں ہی اٹکا رہتا ہے کیونکہ ہماری عُمر اِن چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہی گزر رہی ہوتی ہے تو پھرکیونکر ہم نئے رنگ و روپ کو قبول کریں۔ یہ باتیں مجھے آج ایک خبر پڑھ کر یاد آرہی ہیں جس کے تذکرے سے منسلک وردی کی تبدیلی ہے جو پنجاب پولیس کے لیے کی گئی ہے اور وہ بھی کئی دہائیوں کے بعد ۔ پولیس کی پرانی وردی کو بچپن سے دیکھتے دیکھتے جوان ہوئے اور اب بڑھاپے میں ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جسے دل و دماغ قبول کرنے سے متامل یا انکاری ہے۔ پولیس کی پرانی وردی کا اپنا ایک رعب اور دبدبہ تھااور مجھے یاد ہے کہ گائوں میں جب کوئی پولیس والا داخل ہوتا تھا تو ہر آدمی اس کی عزت بھی کرتا تھا اور اس سے ڈرتا بھی تھا ۔
لوگ اس سے مانوس تھے اور پرانی وردی پنجاب پولیس کی پہچان بھی تھی لیکن برُا ہو نئے زمانے کا جس میں ہر طرف تبدیلی کی ہو اچل پڑی ہے اور ہر کوئی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے۔ اس جدید زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے ہمارے حکمرانوں نے پنجاب پولیس کی وردی بھی تبدیل کر دی ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ ان کا عوام پر قائم قدیم رعب و دبدبہ بھی ختم ہو گیا ہے ۔ اب میں کہیں بھی پولیس والوں کو نئی وردی میں دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر کسی سیکیورٹی ایجنسی کے گارڈ کا گماں گزرتا ہے ۔ ہمارے وزیر اعلیٰ نے پنجاب پویس کی بہتری کے لیے بہت کام کیا ہے جس میں پنجاب بھر میں نئے تھانوں کی تعمیر ، ان کو نئی گاڑیوں اور جدید اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ان کی تنخواہوں میں بھی قابل ذکر اضافہ شامل ہے لیکن بات وہیں پہ آکے رک جاتی ہے کہ ان تمام اقدامات کے باوجود عوام کو وہ تحفظ نہیں مل سکا جس کے لیے اتنا بڑا محکمہ عوام کے پیسوں سے چلایا جا رہا ہے ۔
وزیر اعلیٰ نے کئی دفعہ امن و امان کے معاملے میں پولیس پر اپنے عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا ہے اور شاید یہ ان چند محکموں میں سے ہے جن پر ہمارے ہمہ جہت خادم اعلیٰ کا بھی بس نہیں چل رہا ہے اور پولیس اپنی نئی یونیفارم میں بھی اپنی پرانی ڈگر پر رواں ہے۔ نہ جانے کس عالی دماغ نے وردی کی تبدیلی کا مشورہ دیا اور اس کو فوراً قبول بھی کر لیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وردی کی تبدیلی سے قبل ذہن بھی بدلے جاتے اور پولیس کو عوام کے جان و مال کے تحفظ کی تربیت دی جاتی ۔ میں اس تبدیلی کا بغور معائنہ کرتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ اس کے مثبت پہلو بھی نظر آئیں گے تو اس پر قلم اٹھائوں گا لیکن یہ میرے ارمان ہی رہے اور ہرروزاخبار میں ناقص امن و امان کی خبروں میں اضافے نے مجھے بھی مجبور کر دیا کہ وردی کی تبدیلی کے سوا پولیس کے روایتی انداز حکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیںآئی ۔ پولیس کی وردی بدلنے سے اگر معاملات حل ہوجاتے ہیں تو ہم ہر دفعہ اس تبدیلی کو خوشدلی سے قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن حالات بھی بدلیں تو نا۔
کہتے ہیں کہ صنف نازک کا کام گھر داری سنبھالنا ہے اور بچوں کی تربیت میں اس کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے کیونکہ گھر کے مرد حضرات تو اپنی خاندان کی کفالت کے لیے باہر ہی رہتے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں گھر سنبھالنے کی ذمے داری عورت پر ہی ہوتی ہے۔ عورت ہر روپ میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، چاہے وہ ماں کا روپ ہو یا بیٹی کا ، بہو کا ہو یا بیوی کا ، اس کا گھر میں کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ شروع میں ایک خبر کا ذکر کیا تھا اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایک خاتون پولیس آفیسر محترمہ غزالہ شریف کو لاہور میں رنگ محل تھانے کا انچارج بنا دیا گیا ہے ۔خبر کے مطابق انیس سال کے بعد کسی خاتون پولیس آفیسر کو تھانہ چلانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے ۔
لاہور میں اس وقت خواتین کے لیے مخصوص ایک ہی پولیس اسٹیشن ہے جو عرصہ دراز سے کام کر رہا ہے اور کافی مدت کے بعد مردوں کے تھانے میں ایک تھانیدارنی کو تعینات کیاگیا ہے جنھوں نے اپنے عہدے کا چارج بھی سنبھال لیا ہے ۔ لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی میں تھانوںکی تعداد بھی سو کے قریب پہنچنے والی ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب سے خراب تر کی طرف ہی بڑھ رہی ہے آئے روز امن و امان کی ابتری کی ہولناک خبریں اس کا ثبوت بھی ہیں ۔ مردوں کی حکمرانی میں اس نئے زمانے میں ایک خاتون پولیس افسر کو تھانہ چلانے کی ذمے داری ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ خواتین گھر داری کے معاملے میں بہترین منتظم ہوتی ہیں اور عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ان پر کوئی بھاری ذمے داری پڑتی ہے تو وہ اس کو احسن طریقے نبھاتی ہیں ۔یہ اہم ذمے داری نہ صرف محترمہ غزالہ کی ذاتی صلاحیتوں کا امتحان ہے بلکہ یہ ان تمام خواتین کی بھی نمائندگی کر رہی ہیں جو ہمارے اس تنگ نظر معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور ملکی کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بھی چلا رہی ہیں ۔ ان کی اس تعیناتی کو مثبت طور پر لینا چاہیے اور وہ تمام مرد حضرات جو ان کی کمان میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں ان کو کسی بھی تعصب سے بالاتر ہو کر ان کی کامیابی کے لیے ان کا ساتھ دینا چاہیے تا کہ ہم معاشرے میں ایک نئی روایت کو پروان چڑھا سکیں۔ میری نیک خواہشات اس خاتون پولیس آفیسر کے ساتھ ہیں اور میں ان کی اور اس ملک کی تمام خواتین کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں اور ان کی کامیابی کامنتظر ۔