سیاستدانوں کے لیے ریفریشر کورس

اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے


فاطمہ نقوی May 23, 2017
[email protected]

بہت دن سے آفس میں حالات معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ اس خاموشی سے بڑا خوف تھا کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہوجائے اور پھر یہ ہی ہوا کہ حکم آیا کہ آپ کے لیے ایک کورس کا انتظام کیا جا رہا ہے کیوں کہ محسوس ہورہا ہے کہ کہیں آپ کو زنگ نہ لگ جائے۔ اس لیے آپ کی اوور ہالنگ اور ری فیولنگ چونکہ ضروری ہے اس لیے سوچا گیا ہے کہ آپ کو یہ نیا کورس کروایا جائے۔

دی علم فاؤنڈیشن نے کھلے دل سے آفرکی ہے کہ اگر ان کے انٹرویو کو جو لوگ ری ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے ہیں تو وہ ہی مرد میدان ہیں جس طرح نگینوں میں سے ایک نگینہ چنا جاتا ہے اسی طرح تین لوگوں کو چناگیا۔ ہم نے سوچا ہمارا انتخاب تو ہو نہیں سکتا ہم کندہِ ناتراش تو خیر نہیں تھے مگر اندر سے خواہش یہ ہی تھی کہ ایسا نہ ہو، کون چھ مہینے کے لیے اس درد سری میں پڑے مگر ہوتا وہ ہی ہے جو منظورخدا ہوتا ہے۔ ہمارے نصیب میں اس دشت کی سیاحی لکھی تھی تو ہم بہترین قرار پائے اور چن لیے گئے۔ حکم حاکم مرگ مفاجات آخر ہم نے بوریہ بستر تو نہیں اٹھایا مگر چاروں ہاتھ پیروں سے اس سمندر میں اترگئے کہ مرضی میرے صیاد کی یہ ہی تھی ۔ خیر صاحبِ آغاز کورس ہوگیا ہے ہمیں خوشی ہے کہ اس بہترین کورس کے لیے ہمارا انتخاب عمل میں آیا۔اس ''حسن انتخاب'' پر ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے۔ ERDC والے ہماری نوک پلک درست کرنے میں لگ گئے ہیں۔

سامان آرائش ان کے پاس ذرا فیشن کے مطابق ہے ماشاء اﷲ جماعت کا ہر فرد انگوٹھی میں نگینے کی طرح ہے ۔ ان کے درمیان ہماری یہ حالت ہے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ، ہر شخص خواہ وہ محترم ہیں یا محترمہ اپنے کام میں ماہر ، زبان غیر میں بات کریں تو محسوس ہوتا شاید یہ ہی زبان اپنی ہے اور ادھر ہمارا وہ حال کہ اپنی زبان بھی صحیح طریقے سے نہیں آتی۔ وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی کہ بڑے بڑے انشاء پرداز پڑے ہیں اردو دانوں میں جن سے سیکھنے کے لیے عمرِخضر چاہیے۔ پہلے ہی دن سوال ہوگیا کہ اپنی تعریف اپنے نام کے حروف تہجی کے مطابق کریں یا کسی واقعے، کسی کتاب سے اس کو وابستہ کرلیں۔ ہم نے دماغ پر بڑا زور ڈالا کہ کچھ بہترین خصوصیات اپنے اندر ڈھونڈ لیں کہ کچھ عزت رہ جائے مگر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں ، تم سے پاس وفا ذرا نہ ہوا ، پھر بھی ہم سے ترا گلہ نہ ہوا۔ بہرحال کچھ واقعات پسندیدہ کتاب اور دیگر چیزوں سے کام چلایا۔

ابھی اس مرحلے سے جیسے تیسے نکلے کہ نیا حکم صادر ہوگیا کہ اپنے ماضی ، حال اور مستقبل کو کھنگالو اور جو کچھ اچھا برا ہوا ہے اس کو تحریرکی شکل میں لے آؤ۔ دو دن اس کام کے لیے دیے گئے، اب کہاں اتنے سال اورکہاں دو دن دریا کو کوزے میں بند کرنا شاید اسی کوکہتے ہیں۔ مرتے کیا نہ کرتے یہ کام بھی کیا اورگزشتہ زندگی کو دائرہ تحریر میں لائے اور اپنے اسے پڑھنے والوں کے لیے صبر کا سامان پیدا کیا۔ ہمارے مینٹورز بھی پچھتاتے ہونگے کہ کس سے کیا کام کروالیا۔ ابھی اس مرحلے سے جیسے تیسے کرکے نکلے تھے کہ اگلا حکم آگیا کہ کبھی غوروفکر بھی کرلیا کرو ، خالہ ! اب ہماری تو ساری زندگی ہی غوروفکر کرتے گزری کہ کام بہت تھے اگر غوروفکر میں لگ جاتے تو باقی کے ضروری کام کون کرتا، اگر اپنی زندگی میں غوروفکرکو شامل کرلیتے تو ہم آج کچھ سے کچھ ہوتے۔اب اسائمنٹ دیاگیا کہ غوروفکرکب کیوں کیسے کریں۔

تدریس کے دوران کریں توکیوں کریں کیسے کریں اب جناب اتنے سارے سوالوں کے جواب ہمیں معلوم ہوتے تو کروڑ پتی ، عیدی سب کے لیے میں نہ چلے جاتے مگر ہماری کوئی بات نہ پہلے کبھی کسی نے سنی تھی نہ ہی اب سنی گئی اس لیے ہم نے ہی ان لوگوں کی بات کو توجہ سے سنا اور لگے غوروفکر کرنے ، پھر ہم نے جانا کہ کاش ہم، ہمارے ارد گرد رہنے والے وہ اساتذہ جن کے ہاتھوں میں قوم کے نونہالوں، معماروں کا مستقبل ہے وہ بھی کبھی اپنی اداؤں پر غورکر لیں کہ ہم بتائینگے تو شکایت ہوگی ، سب سے بڑھ کر اس وقت ہمارا ملک اندرون اور بیرون ملک کچھ پیچیدہ حالات سے گزررہا ہے۔ کسی فورم پر ہماری کوئی بات نہیں سنی جا رہی ہے۔ پڑوسی ممالک ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔اس کا سبب یہ ہی لگتا ہے کہ ہم نے ماضی میں کی گئی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہم وہ ہی لکیر کے ماڈرن فقیر بنے رہے کہ ہم اپنی چیزوں پر ایک تنقیدی نگاہ تو ڈالتے، یہ کام دوسروں پر چھوڑا ہوا ہے اور وہ یہ کام اتنی شدت سے کرتے ہیں کہ پھر اس میں تنقید ہی تنقید رہ جاتی ہے اصلاحی پہلو کہیں دور چلا جاتا ہے۔

آج ہم ایک بٹی ہوئی قوم ہیں۔ قومی پالیسیوں سے ناآشنا، ہر شخص کیا وہ صاحب اقتدار ہو یا اپوزیشن میں ہو عوام ہوں یا خواص سب نے اجتماعی سوچ سے ہاتھ اٹھالیے ہیں۔ ذاتی مفادات نے اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہر شخص صرف ایک دھن میں مگن ہے کہ میں کس طرح مزید پیسہ کما لوں اس کے لیے جائز ناجائز کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے رول ماڈل جو لوگ ہیں وہ بھی تو اس پہلو پر کام کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ پگڑیاں سرعام نیلام ہورہی ہیں حد تو یہ ہے کہ خواتین کی تذلیل پارلیمنٹ میں ہورہی ہے مگر ان کے لیے یہ باعث شرم نہیں باعث فخر ہے۔ ہمارا تو کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کے گھروں میں ایسا آئینہ پہنچادیا جائے جس میں وہ اپنی اصل حالت میں سامنے آجائیں مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! سوچنا ، سمجھنا اوراس کے تناظر میں اپنی شخصیت کا تجزیہ کرنا ایسی منازل ہیں جن پر قدم رکھ کر ہم شاہراہ اخلاقیات پر قدم رکھ سکتے ہیں۔

ہم تو شاید اتنے پختہ کار ہوگئے ہیں کہ ہم پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی مگر یہ کام ہم معصوم بچوں کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں کہ شروع ہی سے ان میں سوچنے، سمجھنے، چیزوں پر غور کرنے کی عادت کو پختہ کیا جائے۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے مگر جب نسل پروان چڑھ کر پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے گی تو کوئی وجہ نہیں ہم ایسا معاشرہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوجائیں جہاں امن اور خوش حالی کا راج ہوگا۔ جرم کو جرم سمجھا جائے گا کہ ملک سے دشمنی کرنیوالا خواہ کوئی بھی ہو مسند اقتدار پر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو وہ غدارکہلائے اور یہ کوئی دشوار امر نہیں کبھی کبھی بہتے پانی پر بھی مکان تعمیر ہوجاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں