کمرشل اور آرٹ فلم کی تقسیم کا قائل نہیں عاصم عباسی

انسان فلم دیکھ کر سنیما ہال سے باہر نکلے تو زندگی میں کوئی تبدیلی محسوس ہونی چاہیے


نمرہ ملک May 23, 2017
جو فلم کامیاب ہو جائے خودبخود کمرشل ہو جاتی ہے، ’کیک‘ کے ہدایتکار عاصم عباسی کی ایکسپریس سے بات چیت۔ فوٹو : فائل

پاکستانی فلم انڈسٹری کے احیاء میں فلم سازی پڑھ کر اس شعبہ میں آنے والی نوجوان نسل کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہدایت کاری کے شعبہ میں ایک نوجوان عاصم عباسی وارد ہوا ہے جس نے ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے نمایاں چہروں عدنان ملک، آمنہ شیخ اور صنم سعید کے ساتھ فلم ''کیک'' بنانے کا ارادہ کیا جس کی تمام عکسبندی مکمل ہوچکی ہے اور فلم پوسٹ پروڈکشن کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔

عاصم عباسی لندن میں مقیم پاکستانی فلمساز ہیں جو کہ لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل اسٹڈیز کے گریجویٹ ہیں اور بینکنگ کے شعبہ میں بھی کام کرچکے ہیں۔ شاید انہیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ محض حساب کتاب میں ہی مہارت نہیں رکھتے بلکہ کہانی بیان کرنے کا فن فن بھی جانتے ہیں۔ فلمسازی کے شوق میں انہوں نے صرف کیمرہ پکڑ کر کام کرنا شروع نہیں کردیا بلکہ اس شعبہ میں آنے سے قبل انہوں نے لندن فلم آکیڈیمی اور اسکول آف اورینٹل اینڈ آفریقین اسٹڈیز سے فلم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے عاصم عباسی نے اپنی فلم 'کیک' اور اب تک بنائی گئی شارٹ فلموں کے بارے میں بتایا۔عاصم نے بتایا کہ فلم کیک بنانے کا تجربہ بہت کڑا تھا۔ ہم نے خود ساختہ پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں کہ ہمیں شوٹ مقررہ وقت میں ہی ختم کرنی ہے۔ ہم نے دو مہینے مسلسل شوٹ کی۔ پاکستان میں عموماً رواج یہ ہے کہ پہلے ایک اسپیل کیا جاتا ہے پھر بریک لی جاتی ہے اس عمل میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے جو کہ ہم اس فلم کیک میں ہرگز نہیں چاہتے تھے، تو وقت کی پابندی نے پورے مرحلے کو انتہائی دشوار اور کٹھن بنا دیا تھا۔ میں فلم میں بہترین پرفارمنس پر اپنے اداکاروں سے بے حد خوش تھا کیونکہ انہوں نے اطمینان بخش کام کیا۔

فلم کی مرکزی کاسٹ میں عدنان ملک، آمنہ شیخ اور صنم سعید شامل ہیں، عدنان سعید اور میری یہ پہلی فلم ہوگی، ہم دونوں ایک ساتھ ڈیبیو کررہے ہیں جبکہ آمنہ اور صنم فلموں کانمایاں نام ہیں۔ فلم کی معاون کاسٹ میں محمد احمد، بیو رانا ظفر، حرا حسین، فارث خالد شامل ہیں، فلم میں تمام کردار اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں اور ہر فرد کا کردار معنی خیز ہے۔ فلم کی ہدایات اور کہانی میں نے خود لکھی ہے لیکن فلم کی اسکرپٹ کو لندن اور یہاں اسکرپٹ ڈاکٹرز نے دیکھا ہے جس کے بعد ہم نے شوٹنگ کا باقاعدہ آغاز کیا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی مو اعظمی ہیں جبکہ فلم کی عکسبندی کراچی، اندرون سندھ حیدرآباد ٹنڈو جام سے آگے گوٹھ اور لندن میں ہوئی ہے۔

فلم کی کہانی اور مزاج کے حوالے سے عاصم نے کہا کہ فلم کا بڑا حصہ خاندان اور باہمی رشتوں کے مختلف پہلوں پر مبنی ہے۔ یہ ایک جدید دور کی ڈرامہ فلم ہوگی لیکن روایتی ڈرامہ نہیں بلکہ اس میں بہت سے غیرروایتی عنصر شامل ہیں جو اسے تھرلر ڈرامہ بناتے ہیں۔ اس کی کہانی کا کا مرکزی خیال پرانے رازوں پر مبنی ہے کہانی کو آگے بڑھائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی حقیقت ظاہر ہو گی۔ یہ فلم دراصل ماضی، اور بیتے ہوئے زمانے بارے میں ہے۔ فلم میں ہر چیز کو مہارت کے ساتھ باہم مربوط کیا گیا ہے۔ میں ڈرامہ میں تو یقین رکھتا ہوں لیکن میلو ڈرامہ میں نہیں، اداکاری کو جتنا حقیقت سے قریب رکھیں اتنا فلم بین کہانی سے خود کو جوڑ پاتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ایک کا کردار آپا باجی والا ہے اور دوسرے کا بہت ماڈرن۔ صنم سعید اور آمنہ شیخ بہنوں کے کردار میں نظر آئیں گی۔ ایک بہن نے اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں جیا ہے جبکہ دوسری نے زندگی کو قربانی دے کر جیا ہے۔

سیف سمیجو نے فلم کی موسیقی ترتیب دی ہے۔ فلم میں آدھے گیت سندھی میں جبکہ تین گیت اردو میں ہیں۔ مجھے سیف کی موسیقی ذاتی طور بہت پسند ہے، فلم کی کہانی آدھی سے زیادہ اندرون سندھ میں شوٹ ہوئی ہے۔ فلموں میں زیادہ تر لوک موسیقی نہیں رکھی جاتی لیکن میری فلم کی کہانی میں لوک موسیقی کا ذخیرہ دیکھنے کو ملے گا اور دیکھنے والوں کو احساس ہو گا کہ لوک اور روایتی موسیقی کس قدر خوبصورت ہے۔

عاصم نے بتایا کہ فلم اور ٹی وی دونوں میڈیم میں اب تک کام نہیں کیا اور نہ ہی میں اپنے آپ کو ٹی وی میں کام کرتا دیکھتا ہوں کیونکہ یہ ایک بلکل مختلف میڈیم ہے۔ 24 اقساط پر ڈرامہ بنانا، یہ میرا اسٹائل نہیں ہے، ڈرامہ میں اداکاری سے لے کر فریمنگ سب مختلف ہے۔ میں تین پیج ایک دن میں کرتا ہوں، تھوڑا آہستہ کام کرتا ہوں کیونکہ میں اداکاروں کا ہدایت کار ہوں مجھے اپنے اداکار کے ساتھ وقت چاہیے ہوتا ہے میں بہت وقت لگاتا ہوں ریہرسل کروانے میں، ان سے پرفارمنس کروانے میں، کئی کئی بار ایک سین کو شوٹ کرتا ہوں جب تک کہ مطمئن نہ ہوجاؤں کہ اب اس سے بہتر نہیں ہوگا۔تو اس لحاظ سے فلم اور ٹی وی کا اسٹائل بہت مختلف ہے۔ مقامی ٹی وی اور بین الاقوامی ٹی وی میں بہت فرق ہے ہالی ووڈ جو ٹی وی کی جانب آرہا ہے وہ سینما ٹی وی ہے، وہ چار دیواری کے اندر بند کلوز شوٹس اور فارمولا کہانی پر مبنی ڈرامہ نہیں بلکہ سینمیٹک مزاج پر مبنی ہے، اگر ایسا کچھ کرنے کا موقع ملا تو ضرور ٹی وی کروں گا۔

عاصم عباسی نے کہا کہ حال میں فلم ایکٹر ان لاء اور ماہ میر دیکھنے کا اتفاق ہوا، دونوں ہی اچھی فلمیں ہے۔ دس سال ریوائیول کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس سے پہلے پاکستانی سینما کلچر کو تباہ کیا گیا۔ لوگ سینما کا رخ نہیں کرتے تھے تو سینما جانے والا کلچر دم توڑ چکا تھا۔ ہم نے پائریٹڈ بالی ووڈ فلموں پر سروائیو کیا ہے، آپ کے پاس کوئی اسٹار پاورسسٹم نہیں ہے، تو ہمارے لیے تفریح کا اہم ذریعہ بالی ووڈ رہا ہے۔ بالی ووڈ فلمیں بند ہوئیں سینما دوبارہ ویران ہوگئے۔اب ایسا وقت ہے کہ فلموں کو ٹائپ کاسٹ نہیں کرنا، یہ نہیں سوچنا کہ عوام کو بریانی دی ہے تو وہ اور کچھ نہیں کھائے گی۔ میرے مطابق اب وہ وقت ہے کہ ہر طرح کی فلمیں بننی چاہییں لیکن سمجھداری کے ساتھ بجٹ اور فلم کو دیکھتے ہوئے۔ پروڈکشن ویلیو کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔

عاصم نے کہا کہ میں اپنی فلم کو کسی کلاس میں ڈیوائیڈ کرنے میں یقین نہیں رکھتا، ہم کوئی نہیں ہوتے جو فلم کو سینما اسکرینز پر تقسیم کریں کہ یہ سرکٹ سینما میں لگے گی تو یہ ملٹی پلیکس میں۔میں مانتا ہوں کہ کمرشل اور آرٹ فلم کی تقسیم غیر مناسب ہے کیونکہ جو فلم چل جاتی ہے وہ خود بخود کمرشل ہوجاتی ہے، فلم بناتے وقت آڈینس کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔میری فلم مصالحہ فلم نہیں ہوگی، اس میں آئٹم سانگ نہیں ہے یونہی ناچ گانا نہیں ہے، آڈینس بہت سجمھدار ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ فلم فلاں طبقہ کے لیے ہے اور اسے شہر میں موجود سینما گھروں میں لگانا چاہیے نہ کہ دیہی سینما گھروں میں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں جب ڈسٹریبیوٹرکے پاس جاؤنگا تو وہ میری فلم کو بھی طبقوں میں تقسیم کریں گے لیکن بحیثیت ہدایتکار میں نے یہ فلم تمام آڈینس کے لیے بنائی ہے وہ آئیں اور اس تجربے سے خود گزریں۔

انہوں نے کہا کہ آڈینس فلم دیکھنے اس لیے جاتی ہے کیونکہ یہ ایک جذباتی تجربہ ہوتا ہے۔ انسان ذہنی تناؤ اور دباؤ کو کم اور ختم کرنے کے لیے فلم دیکھتا ہے تاکہ جب آپ دو گھنٹے بعد جب اس تاریک کمرے سے فلم دیکھ کر باہر نکلیں تو آپ کی زندگی غیر محسوس انداز میں بدلی ہوئی ہو، کچھ فرق آیا ہو آپ کی زندگی میں جو کہ صرف جذبات کی صیح انداز میں عکاسی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔

اب تک پانچ شارٹ فلمیں بنا چکا ہوں جن میں لٹل ریڈ روزیز(چھوٹے سرخ گلاب) نیویارک سٹی فلم فیسٹول اور رواں برس جنوری میں جے پور فلم فیسٹول میں لگی تھی۔شارٹ فلم ''ہور'' نے اٹلی شارٹینی فلم فیسٹول میں بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا، لاس اینجلیس میں ہولی شاٹس کے نام سے فیسٹول میں بھی اسکرین کی گئی۔2011 میں آکیڈمی پروجیکٹ کی فلم''بیگرز بیلو۔بھکاری کا ایمان'' بنائی،2012 میں آنتھیما، 2013 میں دو شارٹ فلمیں بنائیں جن میں ہور اور ونز آ مین شامل ہیں

عاصم عباسی نے کہا کہ کیک یقیناً میری زندگی بدلنے والی فلم ثابت ہوگی لیکن یہ کہنا تصنع آمیز ہوگا کہ میری فلم دنیا بدل دے گی۔ یہ ضرور کہوں گا کہ فلم کی کہانی اور پرفارمنس یقینا لوگوں کی توقعات پر پوری اترے گی۔باہر والوں کو اندازہ نہیں ہے کہ فلم بنانا کس قدر مشکل ہے، مجھے بھی اندازہ نہیں تھا، فلم آپ کے دن رات برابر کردیتی ہے، نیند پوری نہیں ہوتی، 70سے زائد کی ٹیم کو سنبھالنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔

فلم میں برانڈنگ کے استعمال پر عاصم نے کہا کہ میری فلم کی تمام تر شوٹنگ ہوچکی ہے، اپنی فلم کی کہانی پر سمجھوتا نہیں کرونگا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ بڑے بجٹ کی برانڈنگ سے بھرپور فلم بنانے سے چھوٹے بجٹ کی فلم بنانا سمجھداری ہے کیونکہ نہ میں اشتہارات بناتا ہوں اور امید ہے نہ مجھے ضرورت پڑے گی۔انہوں نے کہا کہ'' دوبارہ پھر سے ''بہتر فلم ہوتی اگر اس میں برانڈنگ نہ ہوتی، میں اپنی فلم کی کہانی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا۔ فلم کی ریلیز رواں سال کے آخر میں متوقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔