کلبھوشن جمہوری و ریاستی قدریں
’’چین 2010ء سے 2012ء تک بیس سے زیادہ امریکی جاسوس ہلاک یا پھر قید کرچکا ہے‘‘۔
ہنگامے کا مقصد: عالمی عدالت انصاف نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے زیر سماعت مقدمے کے عبوری فیصلے میں پاکستانی ریاست کی جانب سے ایجنٹ کو پھانسی دیے جانے والے فیصلے کو اپنے حتمی فیصلہ آنے تک موخر رکھنے کے احکام سنائے ہیں، یعنی عالمی عدالت انصاف نے بھارت کو کلبھوشن سدھیر یادیو کی پھانسی کے خلاف اسٹے آرڈر جاری کردیا ہے۔ جس پر پاکستان میں سیاسی طور ایک بہت ہی بڑا ہنگامہ کھڑا کیا جاچکا ہے۔ عالمی عدالت میں جانے سے لے کر وکیل کی تقرری تک کے پہلوؤں پر دور کی کوڑیاں لائی جانے لگی ہیں۔
جن کے نتیجے میں حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکٹ دھڑا دھڑا تقسیم ہونے لگے ہیں۔ جن کا سب سے زیادہ حقدار حکومت کو قرار دیا جانے لگا ہے۔ ہمارے مدبرین، پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت میں جانے، وہاں اپنا وکیل کھڑا کرنے اور عالمی عدالت انصاف کے اس عبوری فیصلے پر جو گوہر افشانی کر رہے ہیں وہ انتہائی حیران کن حقیقت کو بیان کرنے کا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کچھ تو یہاں تک چلے جاتے ہیں کہ ان کی بات میں وطن سے محبت یا نفرت کے جذبات میں تمیز کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آنے لگتا ہے۔
بعض نے تو عالمی عدالت انصاف کی بے توقیری کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی کامیابی کا حوالہ دینے میں دیر ہی نہیں کی، جب کہ بعض اہل نظر حضرات تو ریاست ہی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ حیرت تو ان پر آتی ہے کہ جنھوں نے عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارت کو دیے جانے والے اس ''اسٹے آرڈر'' کو پاکستان کی شکست قرار دیا اور اب تو ''وہ'' بھی برملا کہنے لگے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مودی اور جندال چلارہے ہیں۔ ان کو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ جب بھی کسی اعلیٰ عدالت میں زیریں عدالت کے کسی فیصلے کو چیلنج کیا جاتا ہے تو وہ اعلیٰ عدالت سب سے پہلے قابل سماعت یا اپنے زیرسماعت مقدمے کے حتمی فیصلے تک زیریں عدالت کے فیصلے کو موخر رکھنے کا پہلا حکم صادر فرماتی ہے۔ کلبھوشن سدھیر یادیو کے مقدمے میں بھی عالمی عدالت انصاف نے یہی کچھ کیا ہے تو اس میں اتنا ہنگامہ کھڑا کردینے کا مقصد کیا ہے؟
پاکستانی اقدام: پاکستان نے اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی عالمی برادری سے ہم آہنگ ہونے اور ان کے قدم سے قدم ملاکر چلنے پر یقین رکھا ہے۔ گو کہ اس پالیسی پر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی اس پالیسی پر ثابت قدمی سے قائم رہتا آیا ہے۔ اپنے نظریاتی تشخص کی روشنی میں مسئلہ کشمیر سے لے کر روسی جارحانہ کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے اور نائن الیون سے لے کر آپریشن ضرب عضب تک اس نے عالمی برادری اور عالمی اداروں کے فیصلوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے کی روایت کو پروان چڑھایا ہے۔ جس کے بدلے میں پروردگار عالم نے پاکستان کو قدم قدم پر سرخرو رکھا ہوا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت عالمی معاہدوں و مسائل میں پاکستان کی عملی شرکت اور ان میں بحیثیت ایک ریاست پاکستانی صلاحیتوں کا بہترین کارکردگی و مظاہرہ ہے۔ جس پر پاکستان وانسان دشمن قوتیں تلملائی ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات وسیاسیات کے طالب علم یہ جانتے ہیں کہ یہ قوتیں ہمیشہ سے ہی عالمی برادری میں پاکستان کو حاصل ہوتے رہنے والی توقیر وتعظیم کی کھلی حقیقتوں اور قدآور قومی تشخص کو اس قسم کی ہنگامہ خیزیوں میں گم کرکے قوم پر مایوسی کے بادل چھائے رکھنے کی سازشوں میں مگن رہتی آئی ہیں۔ جن کی نظریاتی جڑیں جمہوری قدروں میں اور عملی مظاہرے ''بھیانک ایجنٹ لیکس'' میں باآسانی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، جن پر پاکستانی ریاست کی پالیسی اور موقف واضح ہے، جس کے مدمقابل انسان دشمن قوتوں کی تخلیق کردہ جمہوری قدریں کسی خوبصورت لچکیلے سانپ کی مانند ریاستوں کے ہاتھوں دودھ پیتے رہنے کے باوجود ان کے وجود میں اپنا زہر اتارتی آئی ہیں۔ جس کے اثرات بلاشبہ پاکستان میں بھی ظاہر ہوکر ریاستی وقومی تشخص کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود پاکستان نے بحیثیت ایک ریاست کسی بھی محاذ پر خود کو عالمی برادری سے علیحدہ نہیں کیا۔ جو کہ اس کا بہت ہی مستحسن تاریخی اقدام ثابت ہوتا آیا ہے۔
متوقع فیصلہ اور اثرات: بین الاقوامی تعلقات وسیاسیات اور پاکستان کے نام نہاد وسیع النظر وجمہوریت پسند دانشوروں کے اٹھائے سوالوں کی روشنی میں اگر حالات کو بیان کیا جائے تو پاکستان اس وقت تین اہم اور بنیادی محاذوں پر مصروف جہد دکھائی دیتا ہے۔ 1۔ عالمی استعماریت کی رائج اقتصادی برتری کو دعوت مبارزت دینے اورلگ بھگ چار ارب چالیس کروڑ افراد کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کرنے والا سی پیک۔ 2۔ مشرق وسطیٰ میں استحکام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کی خاطر اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد۔ ملاحظہ ہوکہ اسی مقصد کی خاطر جہاں اس اتحاد کا صرف ایک ملک سعودی عرب امریکا سے 110 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے جارہا ہے، وہیں یہ اتحاد مجموعی طور پر پاکستان سے ریاستی دفاعی صلاحیتیں فراہم کیے جانے کا درخواست گزار بھی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس فوجی اتحاد کے سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان اور چین سے اسلحہ خرید کیے جانے کے پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
3۔ پاکستان کی داخلی اصلاحات، جن میں اساسی طور آپریشن ضرب عضب، رینجرز آپریشن اور آپریشن ردالفساد قابل ذکر ہیں۔ مزیدار بات کہ انھی محاذوں پر نبردآزما ریاست پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو دریافت کیا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں پر پاکستان کی عالمی توقیر وخوبصورت تشخص سب کے سامنے آجانا چاہیے۔ اس کے بعد بھی اگر یہ حضرات فرض کرلیتے ہیں کہ پاکستان جمہوری قدروں کے زیر بار کلبھوشن یادیو کے مسئلے پر کسی روایتی غفلت کے مرتکب ہوا بھی ہے، تو انھیں نیویارک ٹائمز کی حالیہ رپورٹ ملاحظہ فرمالینی چاہیے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ''چین 2010ء سے 2012ء تک بیس سے زیادہ امریکی جاسوس ہلاک یا پھر قید کرچکا ہے''۔
جب کہ پاکستان بھی ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نبردآزما رہنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو استعماریت کی متعارف کردہ لیکس گزیدہ جمہوری قدروں کے رحم وکرم چھوڑا ہوا ہے تو پھر اب یہ آپریشن ضرب عضب، رینجرز آپریشن اور آپریشن ردالفساد کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ان کی طرف سے اس قسم کی گوہر افشانی جلد ہی سامنے آجائے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری میں پاکستان کی بحیثیت ریاست اتنی پذیرائی استعماری قوتوں کے رحم وکرم اور سرمائے پر چلنے والے عالمی اداروں سے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کے ہر اول دستے کے طور متحرک رہنے والے ہندوستان کو یہ قوتیں اس موڑ پر تنہا چھوڑ سکتی ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی مسئلہ کھڑا کرسکتی ہیں۔ لیکن تنہا ہم بھی نہیں ہیں۔ بس ذرا ان کی جمہوری قدروں کے مدمقابل ہماری ''ریاستی قدروں کی پذیرائی'' کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔