ماہ صیام اور ناجائز منافع خوری
امسال رمضان میں گراں فروشی کا طوفان سر پر منڈلا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں
ABBOTABAD:
ماہ صیام رحمت، برکت، نجات اور مغفرت کا مہینہ ہے۔ خدائے رحیم کی رحمتوں کے طلبگار اس مہینے کی گزرتی بابرکت ساعتوں میں گڑگڑا کر نجات، مغفرت اور نیک تمناؤں کی دعائیں مانگتے ہیں، لیکن جب اکثریت خوف خدا سے عاری ہوجائے تو خوف قانون بے حیثیت ہوجاتا ہے اور چنگیزیت جنم لیتی ہے۔ امسال رمضان المبارک کو ذاتی لالچ میں اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے غضب ناک عذاب کا پیش خیمہ مہینہ بنانے والے ظلم پر کمربستہ ہیں۔ کو ئی بعید نہیں یہ بے خوفی نہ ہو۔ روزے داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی مہربان اور رحیم ہوتی ہے، اس سے ہر مسلمان واقف ہے۔ لیکن یہ امر غریب روزے داروں کے لیے کس قدر تکلیف دہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی کھجور، پھلوں کی قیمتیں ان کی پہنچ سے دور کردی گئی ہے۔
امسال رمضان میں گراں فروشی کا طوفان سر پر منڈلا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پھلوں اور اشیائے خورو نوش کے دام میں ناجائز منافع خوروں نے ناقابل برداشت اضافہ کردیا ہے۔ ناجائز منافع خوری کی روک تھام کرنے والے حکام کہاں بستے ہیں؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ البتہ میڈیا میں ان کے بیانات پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ضرور ملتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں خورونوش کی قیمتوں میں نرمی آگئی ہے، لیکن بازار جاکر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب جھوٹ اور دکھاوا ہے، حقیقت وہی ہے جس کا سامنا صارفین کررہے ہوتے ہیں۔
بیوپاری حضرات سرکاری قیمتوں کو خاطر میں لاتے ہی نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام الناس میڈیا میں کی گئی قیمتوں کی روایتی تشہیر پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ ہی توجہ دیتے ہیں، کیونکہ وہ عرصہ دراز سے اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے بجٹ اسمبلیوں میں نہیں بلکہ بازاروں، مارکیٹوں، دکانوں اور خوانچہ فروشوں کے ٹھیلے پر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ صارفین یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کام میںسب سے بڑا سہولت کار معاون رشوت ستانی ملوث ہے، یعنی اس کا بے دھڑک فروغ ہے جو کہ انتظامی قوانین کو پامال کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں کسی کو کروڑوں بھوکے، ننگے غریبوں اور ان کی لاشیں، جو کسی پھندے میں لٹکی ہوئی ہوں، کا احساس کب ہوا ہے، جو اب ہوگا۔ غربت کے خاتمہ کی راہ میں ایسی کون سی چیز رکاوٹ ہے کہ بات غربت کے خاتمے کی، کی جاتی ہے اور ختم غریب ہو رہے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے، کیا اسی کا نام جمہوریت کا ثمر ہے؟ نہیں، سچ کہا ہے کسی نے کہ یہ جمہوریت کا انتقام ہے، جو ملک کے کروڑوں غریبوں سے مہنگائی، ناجائز منافع خوری، بیروزگاری، بے چینی، بدامنی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، پینے کے پانی کی عدم دستیابی، کچرے کے انبار، بند مین ہولوں، لوٹ مار، ملاوٹ اور نہ جانے کن کن ذرایع سے لیا جارہا ہے۔
کبھی قومی خزانہ بھرنے اور خوشحالی کی نوید سنائی جاتی ہے، کبھی روزگار مہیا کرنے کے بے سود اعلانات کیے جاتے ہیں، کبھی ایشین ٹائیگر بن جانے کی خوش کن خبر سناتے ہیں، کبھی غریبی ہٹاؤ مہم کا آغاز کیا جاتا ہے، کبھی معشیت کے خوش کن اعداد و شمار بیان کرکے دلوں کو بہلایا جاتا ہے، کبھی بجٹ کی کڑوی گولی نگل جانے کی قربانی کا تقاضا کیا جاتا ہے، کبھی غریبوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں کی نسبت پڑوسی ممالک میں مہنگائی اور بیروزگاری زیادہ ہے، لیکن یہ اعتراف کبھی نہیں کیا جاتا کہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی، سپلائی پر اجارہ داری اور دیگر حرام کام رشوت خوری کا شاخسانہ ہیں۔ اب تاریخ ساز بجٹ کے نقارے بج رہے ہیں۔ حالانکہ دن پھرے ہیں فقط امیروں ۔ہر بلاول ہے قوم کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے۔
ملک میں غربت کی شرح دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، ملک کی زیادہ تر آبادی کراچی کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے، کراچی جو کبھی عروس البلاد کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک عرصے سے غریب البلاد شہر بن چکا ہے۔ امسال رمضان المبارک میں شہر میں فلاحی اداروں کی جانب سے مستحقین میں پانچ ارب روپے سے زائد مالیت کا راشن، کپڑے، اور عید گفٹ تقسیم کیے جائیں گے، مستحقین میں امدادی اشیا کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کراچی کے مختلف مقامات پر تقریبات منعقد کی جارہی ہیں، جن میں مستحقین اور غرباء میں راشن، کپڑے اور عید گفٹ تقسیم کیے جارہے ہیں۔ خدا ترسی کے اس نیک کام میں سیکڑوں فلاحی ادارے رمضان سے پہلے اور رمضان کے دوران شہریوں کی امداد کرتے رہتے ہیں، جس سے کم وبیش دس لاکھ افراد فیضیاب ہوتے ہیں، اس سلسلے میں شہر کے بڑے ڈپارٹمنٹ اسٹور، ہول سیل مارکیٹوں اور کریانہ کی بڑی دکانوں کو آرڈر دیے جاتے ہیں.
ان راشن بیگز میں آٹا، دالیں، چاول، بیسن، مصالحہ جات اور کھانے پینے کی دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔ فلاحی اداروں کی جانب سے دو لاکھ سے زائد راشن بیگ مستحق خاندانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں، رمضان میں صاحب حیثیت مسلمان فطرہ، زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی مد میں بھی مستحقین کی مدد کرتے ہیں، فلاحی اداروں کے علاوہ رمضان میں سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی مستحقین میں راشن اور عید گفٹ کی تقسیم ہوتی ہے، جس کا سلسلہ رمضان کے آخری عشرے تک جاری رہتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پہلے سے غریب عوام غربت کی آخری لکیر کو پار کررہے ہوں اور جب یہ آخری لکیر پار ہوجائے گی تو پھر کیا ہوگا؟ اس بارے میں کسی نے سوچا بھی ہے یا نہیں؟ جب غربت کی یہ آخری لکیر سیلاب بن کر پار ہوجائے گی تو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔ خدارا! اس دن سے پہلے پیش بندی کرلو، اے حکمرانو! اپنی بے حساب دولت کو جو تم نے ملک سے باہر خفیہ بینکوں میں ٹھونس رکھی ہیں، اپنے وطن عزیز کے بینکوں میں منتقل کرلو، اگر تمہیں اپنے وطن سے پیار ہے تو یہ قربانی دے دو، غریب برسہا برس سے اپنے وطن کی خوشحالی کے لیے ٹیکس کی صورت میں قربانیاں دیتا آرہا ہے، اب وطن کو حکمرانوں کی قربانیوں کی ضرورت ہے۔
مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی روک تھام کے لیے ڈسٹرکٹ کی سطح پر مزید سبزی منڈیوں کے قیام کی ضرورت ہے، اور ساتھ ہی تاجر، آڑھتی اور دکاندار حضرات کے لیے ایسے قوانین بنائے جائیں کہ جس سے وہ سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت پر اشیائے خورونوش فروخت نہ کرسکیں۔ عرصہ دراز کے مشاہدے کے مطابق جب کوئی حکومت کسی چیز کی قیمت کے بارے میں سوچ و بچار کرتی ہے تو تاجر حضرات پہلے ہی سے کسی نہ کسی بہانے سے چیزوں کی قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں اور عجب حسن اتفاق ہے کہ حکومتیں بھی ان ہی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیدہ دلیری کے ساتھ استحکام کا نام دیتی رہی ہیں، جو کہ غریب عوام کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی ہے۔
حکومتوں کا کام عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے، انھیں مصائب میں گرفتار کرنا نہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ روزہ داروں اور مستحقین کے لیے مشکلات پیدا کر کے عید مناتے ہیں، گریبان میں جھانکیں تو سر ندامت سے جھک جائے۔ غریبوں کی بد دعائیں نہیں، دعائیں لینی چاہئیں، کیونکہ اللہ پاک اور مظلوم کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے، مظلوم کی آہیں عرش الہیٰ کو ہلا دیتی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ غریبوں کی آہیں کام کرجائیں اور ہم دیکھتے رہ جائیں۔