نعت خوانی اس کا جنون تھا
اس کی آواز میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو دل میں اترتی چلی جاتی تھی
اس کی آواز میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو دل میں اترتی چلی جاتی تھی، اس کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی خوب تھا۔ وہ جب آنکھیں بند کرکے نعتیں پڑھتی تھی تو فضا میں ایک نور سا بکھر جاتا تھا۔ یہ منیبہ شیخ تھی نعت خوانی جس کا جنون تھا صد افسوس وہ اب اس دنیا میں نہ رہی مگر اس کی آواز میں ریکارڈ کی گئیں بے شمار نعتیں ایک روحانی سرورکے ساتھ ہمیشہ اس کی یاد دلاتی رہیں گی۔
میری اس سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ کبریٰ شیخ تھی، میں اورامیر احمد خان (بعد کے استاد امیر احمد خان) اور غیاث خان (بعد کے پروفیسر غیاث وہاب خان) کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس وقت کبریٰ شیخ اپنی سہیلیوں،کلثوم، شہنازغوری اور سعیدہ شفیع کے جھرمٹ میں اکثر وبیشتر فارغ اوقات میں یونیورسٹی کے سبزہ زار پر بیٹھی باتوں میں مصروف ملا کرتی تھی۔ان دنوں نعت خوانی کے شوق کے ساتھ ساتھ کبریٰ کو فلمی گانوں کا بھی بڑا شوق تھا اور اپنے اس شوق کی خاطر وہ نامورکلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندوخان کے بھانجے بھی کبریٰ شیخ کی موسیقی سے دلچسپی سے واقف تھے اور اس کے استاد بھائی بنے ہوئے تھے۔
یہ سردیوں کی خوبصورت چمکیلی دوپہر تھی۔ میں اور امیر احمد خان کلاس سے فارغ ہوکر سبزہ زارکی طرف آئے تو کبریٰ شیخ کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ کبریٰ کوئی فلمی گیت گنگنا رہی تھی، میں اور امیر خان وہاں بیٹھنے لگے تو کبریٰ نے گنگنانا بندکردیا۔ امیر خان نے اپنی بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ارے بھئی! گنگناتی رہو، سنا دوکوئی لتا کا پیارا سا گیت۔ پھر امیر خان کے اصرار پر لتا منگیشکر کا مشہور گیت سنایا جس کے بول تھے، او بسنتی پون پاگل' نا جا رے نا جا۔ روکوکوئی۔۔۔۔۔ اور اس کی آواز نے ایک سماں سا باندھ دیا تھا۔ جب کہ اس کی آواز میں چھوٹی چھوٹی مرکیاں بھی تھیں، کبریٰ نے بتایا تھا کہ وہ لتا کی بچپن ہی سے دیوانی رہی ہے۔
یونیورسٹی سے فارغ ہوکر میں نے فلمی صحافت کو پروفیشن بنالیا تھا اور ہفت روزہ نگارکے شعبہ ادارت میں شامل ہوگیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ریڈیو کے لیے بھی لکھا کرتا تھا۔ ریڈیو پر میری پہلی ملاقات کبریٰ شیخ سے ہوئی تو وہ اب منیبہ شیخ کے نام سے ریڈیو سے نعتیں پڑھتی تھی اورکافی مشہورہوچکی تھی، لیکن فلمی گیت گانے سے اس نے ہاتھ جوڑ کر انکار کر دیا۔ اس کے شب و روز اب نعتیں پڑھنے میں ہی گزرتے تھے۔
اب سارے پاکستان میں اس کی نعتوں کے چرچے تھے میلاد شریف کی بڑی بڑی محفلیں، کراچی، لاہور اور اسلام تک اس کی نعتوں سے منور ہوتی تھیں ایوان صدر اسلام آباد کی محفل میلاد میں بھی اس کو بطورخاص کراچی سے بلایا جاتا تھا اور حکومت نے اسے 1988ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا۔ ویسے تو اس کی بہت سی نعتوں کو بڑی پذیرائی ملی تھی مگر دو تین نعتیں عوام الناس میں بڑی مقبول تھیں جن میں ''لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب''۔ اور ''خلق کے سرور، شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم'' جب یہ اپنے مخصوص انداز میں پڑھتی تھی تو میلاد کی محفلیں نور سے جگمگا اٹھتیں۔ میرے پہلے بیٹے نے جب قرآن پاک ختم کیا تو میری بیگم گل افروز بولیں، کیوں جی کیا ہمارے بیٹے کی رسم آمین میں میلاد کی محفل میں آپ منیبہ شیخ کو بلاسکتے ہیں، میں نے بیگم سے کہا اگر وہ ان دنوں کراچی میں ہوئی تو ضرور آئے گی۔ پھر جب ریڈیو اسٹیشن میں ملاقات کے دوران میں نے اسے بتایا کہ فلاں تاریخ کو میرے بیٹے فرخ کی رسم آمین ہے اور محفل میلاد بھی ہے۔
اس موقعے پر تمہاری شرکت میرے لیے خوشی کا باعث ہوگی،اس نے میری تاریخ جان کر اپنی ڈائری کھولی اور پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ میں اس کے دوسرے دن شام کو اسلام آباد جارہی ہوں۔ تمہاری تاریخ میرے پروگرام سے بال بال بچ گئی ہے۔ میں نے کہا میری بیگم تمہاری نعتوں کی بڑی دیوانی ہے اور پھر وعدے کے مطابق منیبہ میرے فلیٹ پر آئی۔ اس دن میرے فلیٹ میں پاس پڑوس کی اتنی خواتین آئی تھیں کہ گھر میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ وہ بہت ہی ملنسار، ہنس مکھ اور بہت ادب و آداب والی خاتون تھی۔ منیبہ نے اپنی زندگی کے کافی دن اپنے والدین کے بغیرکراچی میں اپنے بھائی اور بھابی کے ساتھ گزارے، منیبہ کی والدہ خضریٰ بیگم ہندوستان چھوڑنے پر کسی طرح بھی تیار نہیں ہوئی تھیں۔
انھوں نے کبریٰ (منیبہ) کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی تھی۔ منیبہ نے زندگی کے بڑے سرد وگرم دن دیکھے مگر وہ کبھی کسی بھی موڑ پرکمزور نہیں پڑی اس نے اردو ادب میں ایم اے کیا پھر کافی عرصہ کراچی ویمن کالج میں بطور لیکچرار اردو بھی پڑھائی وہ شعروشاعری کی بھی بڑی دلدادہ تھی۔ اسے اساتذہ کی بے شمار غزلیں یاد تھیں وہ اکثر تنہائیوں میں گھنٹوں گنگنایا کرتی تھی۔ جب میں امریکا آیا تو مجھے پتہ چلا تھا کہ منیبہ شیخ کی دیرینہ آرزو پوری ہوگئی اور وہ حج کی بھی سعادت حاصل کرچکی ہے مجھے گزشتہ دنوں امریکا ہی میں اس کے انتقال کی خبر ملی تو میں بھی بڑا دکھی ہوا تھا۔
مجھے امریکا آنے سے کچھ دن پہلے کی ایک یادگار اور اس سے آخری ملاقات یاد آئی تو میری بھی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ وہ بہت اچھی انسان تھی بڑے رکھ رکھاؤ کی خاتون تھی، ایک دن اس نے مجھے اور استاد امیر احمد خان کو اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ ہم دونوں سر شام ہی اس کے گھر واقع طارق روڈ پہنچ گئے تھے۔
آسمان پر ہلکے ہلکے کالے بادل تھے، اس کے گھر کے چھوٹے سے صحن میں چائے کی میز لگی ہوئی تھی اسی دوران بارش کی پھوار شروع ہوگئی موسم اور زیادہ خوشگوار ہوگیا تھا پھر جب پھوار تیز ہوگئی تو ہم اپنا اپنا چائے کا کپ اٹھائے اندر کمرے میں آگئے اس دوران بڑی پھرتی سے استاد امیر احمد خان باہر گئے اپنی گاڑی سے ہارمونیم اٹھا لائے کیونکہ خان صاحب کا ایک ہارمونیم ہر وقت گاڑی میں رہتا تھا کیونکہ ہر دوسرے دن ان کو اپنی کسی شاگرد کی میوزک کلاس لینے جانا ہوتا تھا۔ منیبہ نے جب استاد کے ہاتھ میں ہارمونیم دیکھا تو فرمائش کردی استاد بہت دن ہوگئے آپ کی غزلیں سنے ہوئے۔ آج ایک دو غزلیں ہوجائیں۔ امیر احمد خان بولے میں تمہاری فرمائش پر غزلیں گاؤں گا مگر آج تم بھی ایک آدھ گیت سناؤ گی اور پھر استاد امیر احمد خان نے میری ایک غزل سے آغاز کیا۔ جس کا مطلع تھا:
اپنی چاہت میں تم کمی نہ کرو
میری آنکھوں کو شبنمی نہ کرو
پھر چند غزلوں کے بعد استاد امیر احمد خان کے بے حد اصرار پر منیبہ نے فلم ''ہنستے زخم'' کا مدن موہن کی موسیقی میں ایک گیت سنایا جس کے بول تھے:
آج سوچا تو آنسو بھر آئے' مدتیں ہوگئیں مسکرائے
پھر اس گیت کے اختتام پر منیبہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ماحول کچھ لمحوں کے لیے اداس ہوگیا۔ منیبہ شیخ کو اپنی ماں کی یاد آگئی تھی جس کے پیار سے وہ ایک طویل عرصے سے محروم تھی۔ وہ اکثر اپنی تنہائیوں میں بھی ماں کو یاد کرکے اداس ہوجایا کرتی تھی اور اس کی زندگی کے آخری دنوں تک یہ اداسی اس کی زندگی پر چھائی رہی تھی اور اسی دکھ کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔