امن بحالی افواجِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان چونکہ اقوامِ متحدہ کا ایک معزز رکن ملک ہے
تقریباً دو ہفتے قبل سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں منعقدہ ایک اہم سیمینار سے خطاب کرتے ہُوئے بجا کہا تھا کہ افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں نے دن رات اپنی جانوں کا بے دریغ نذرانہ پیش کرتے ہُوئے وطنِ عزیز میں امن کے پرچم لہرا دیے ہیں۔ کراچی ہو، سندھ میں کچے کا علاقہ ہو، بلوچستان کے بعض حساس اضلاع ہوں، فاٹا میں خصوصی طور پر جنوبی و شمالی وزیرستان کے علاقے ہوں، جنوبی پنجاب کے چند اضلاع ہوں...... واقعہ یہ ہے کہ افواجِ پاکستان نے شب و روز ایک کر کے دشمنوں کے منصوبوں، عزائم اور ایجنٹوں کو خاک میں ملا دیاہے۔
وحشی مجرموں کو فوجی عدالتوں کی طرف سے ملنے والی سزاؤں پر جس تواتر اور تسلسل سے عمل کیا جارہا ہے، اِن عوامل نے دہشتگردوں اور امن دشمنوں کے حوصلے مزید پست کر دیے ہیں۔ قیام ِ امن اور امن کی بحالی میں ہمارے عسکری اداروں کے وابستگان کے اس شاندار اور قابلِ تحسین کردار کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں وہ تمام علاقے جہاں بد امنی ہے، سرکشی ہے، بے روک ٹوک خونریزی جاری ہے، مسلح قبائل کی لُوٹ کھسوٹ ہے اور جہاں اقوامِ متحدہ کو طاقت کے زور پر امن بحال کرنا ہوتا ہے، وہاں پاکستان کے دلیر اور تجربہ کار فوجی دستوں کو ضرور تعینات کیا جاتا ہے۔ اِن علاقوں میں اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے، امن کی نیلی ٹوپیاں پہنے،مہذب دنیا کے کئی ممالک کی فوج سے کچھ دستوں کی خدمات لی جاتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان چونکہ اقوامِ متحدہ کا ایک معزز رکن ملک ہے، اس لیے ہمارے حکمرانوں نے، فوج کے ذمے داران کے مشورے سے، عالمی امن کی بحالی اور قیامِ امن (Peacekeeping Operations) کے لیے یو این او کی درخواست کبھی مسترد نہیں کی۔یہ دراصل قائد اعظم محمد علی جناح کے اُس ویژن کا عملی اظہار بھی ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت بانی پاکستان نے اقوامِ میں شامل ہوتے ہی کر دیا تھا۔
عالمی امن بحالی میں پاکستان نے 57 سال قبل اپنے اِس شاندار کردار کا آغاز اُس وقت کر دیا تھا جب 1960ء میں اقوامِ متحدہ کی درخواست پر پاکستان کے فوجی دستے انارکی اور بد امنی کے شکار افریقی ملک، کونگو، میں اُترے تھے۔ کونگو، جسے کبھی ''زائرے'' کہا جاتا تھا، آج بھی بد قسمتی سے بد امنی، انارکی اور قبائلی خونریزی کا شکار ہے اور پاکستانی ٹروپس آج بھی وہاں متعین ہو کر امن کی بحالی میں قابلِ تحسین کردار ادا کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ہر چھوٹے بڑے اور ذمے دار اہلکار نے افواجِ پاکستان کے اِس عالمی امن ساز کردار کو سراہا بھی ہے۔ اِسی پس منظر میں پچھلے کئی برسوں سے 29 مئی کا دن بطور International Day of UN Peacekeepers کی حیثیت میں منایا جاتا ہے۔
یہ ایک عجب اتفاق ہے کہ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت، دونوں تقریباً ایک عشرہ قبل اقوامِ متحدہ کے تحت عوامی جمہوریہ کونگو میں امن مشن کا حصہ رہ چکے ہیں۔اُس وقت جنرل باجوہ صاحب غالباً افواجِ پاکستان میں بریگیڈئر کے عہدے پر فائز تھے اور بھارتی جنرل بپن راوت بھی کونگو میں امن مشن کا حصہ ہوتے ہُوئے اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈئر ہی تھے۔
بھارتی فوج کے سابق سربراہ، جنرل(ر) بکرم سنگھ، بھی کونگو میں یو این او کے تحت امن مشن کی خدمات انجام دے رہے تھے جب ہمارے قمر جاوید باجوہ صاحب بھی وہیں تھے۔ دونوں ایک ہی جگہ تعینات تھے۔ جنرل بکرم سنگھ، جنرل باجوہ صاحب کو اِسی پس منظر میں جانتے بھی ہیں؛ چنانچہ جب جنرل باجوہ صاحب نے افواجِ پاکستان کا نیا نیا چارج سنبھالا تھا تو بھارتی جنرل بکرم سنگھ نے معروف بھارتی انگریزی اخبار ''ٹائمز آف انڈیا'' کو انٹرویو دیتے ہُوئے نہایت مناسب الفاظ میں جنرل قمر باجوہ کی تعریف و توصیف کرتے ہُوئے کہا تھا: ''باجوہ صاحب ایک سچے اور پروفیشنل سولجر ہیں۔ کونگو میں یو این کے تحت کیے گئے تمام آپریشنز میں اُن کا کردار نہایت شاندار اور پروفیشنل تھا۔'' اب جب کہ آج 29 مئی کو ایک بار پھر یو این امن بحالی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی افواج کے سابق سربراہ کے ہمارے سپہ سالار کے بارے متذکرہ تحسینی الفاظ فراموش نہیں کرنے چاہئیں۔
گزشتہ57 برسوں کے دوران،یو این امن مشن کے تحت مختلف اوقات میں، دنیا کے 23 مختلف ممالک میں پاکستان کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار دستے اپنی شاندار خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اب بھی پاک فوج کے تقریباً آٹھ ہزار ٹروپس یو این امن مشن کے تحت کئی ممالک میں امن بحالی کے لیے شب و روز ایک کیے ہُوئے ہیں۔ یہ خدمات آسان نہیں۔ بے پناہ مشکلات کا سامنا کرتے ہُوئے افواج ِ پاکستان کے جانبازجوان اور افسران بد امنی اور لاقانونیت کا شکار ملکوں میں امن بھی قائم کر رہے ہیں اور اُنہیں تعلیم و ٹیکنالوجی کے علوم سے شناسا بھی۔
یہ حساس ذمے داریاں ادا کرتے ہُوئے افواجِ پاکستان اور ہماری پولیس کے تقریباً ڈیڑھ سو افراد شہادتوں کے جام بھی نوش کر چکے ہیں۔ اِن میں افسروں کی تعداد 23 ہے۔ پاکستان کے اِن قابلِ فخر شہدا، جنہوں نے اپنی جانوں کے بدلے دنیا کے کئی ممالک کو امن کا تحفہ دیا ہے، میں پاکستان کے کچھ سویلین افراد بھی شامل ہیں۔ عالمی امن کے گلشن کی تزئین کے لیے ہمیں ان شہدا کی دی گئی قربانیوں کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
وسطی افریقہ کے کئی ممالک اور دارفور میں بھی ہماری فوج کے امن دستوں کا کردار بے مثل رہا ہے۔ انڈونیشیا میں امن مشن کے تحت پاکستانی دستوں نے جو تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا، اس کی تعریف تو چین کے ممتاز ترین قائد جناب چو این لائی بھی کیے بغیر نہ رہ سکے تھے۔کمبوڈیا اور ہیٹی کے نہائیت مشکل علاقوں میں، جہاں امن اور سماج دشمنوں نے مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے تھے، پاکستانی فوجی دستوں نے یو این او کی طرف سے متعین کردہ اہداف کو بھی حاصل کیا اور ناممکن کو ممکن بھی کر دکھایا۔ اور یوں دنیا بھر سے شاباشی بھی لی۔
ہیٹی ایسے مشکل ملک میں،آج سے بائیس سال قبل، افواجِ پاکستان کی انفنٹری کے PAKBAT دستے نے بہادری اور عالمی کمٹمنٹ کے ضمن میں مثالی کردار ادا کیا۔ جب صدامی فوجیں کویت سے نکالی گئیں تو بھی وہاں امن اور انفراسٹرکچر کی بحالی میں پاک فوج کا کردار سب سے نمایاں اور ممتاز تھا۔ اقوامِ متحدہ کے امن پرچم تلے، امن بحالی کی خاطر،افواجِ پاکستان کے متعینہ فوجی دستوں کو سب سے زیادہ جانی نقصان صومالیہ میں اٹھانا پڑا تھا۔
یہ سانحہ 5جون 1993ء کو پیش آیا جب پاکستانی پیس کِیپرزنے صومالیہ کے دارالحکومت (موگادیشو) میں اتحادی فورسز کو ریسکیو کرتے ہُوئے اپنی 24قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ دو درجن پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت سے دنیا سناٹے میں آگئی تھی(مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 19تھی) اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے کھلے دل اور کھلے بندوں پاکستانی فوجیوں کی ان بے مثل شہادتوں کو سیلوٹ پیش کیا۔
عالمی امن کے استحکام کے لیے افواجِ پاکستان کی یہ اتنی بڑی قربانی ہے کہ بھارت اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ افسوس اور حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ 21مئی2017ء کو سعودی عرب کے دارالحکومت میں سعودی بادشاہ اور چالیس مسلم عالمی رہنماؤں کے سامنے خطاب کرتا ہے تو قیامِ امن کی خاطر پاکستان کی اِن عالمی خدمات کا تذکرہ تک نہیں کرتا۔ اُس نے اُلٹا بھارت کو دہشتگردی کا شکار قرار دے کر پاکستان، پاکستانیوں اور افواجِ پاکستان کے زخموں پر نمک بھی چھڑکا ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی بے شمار قربانیوں کو Disown کرنے کی دلخراش حرکت بھی کی ہے۔
چند دن پہلے اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر پاکستان سے نا انصافی کی ہے کہ ''سی پیک کی موجودگی میں پاکستان اور بھارت کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔'' امریکی صدر اور یو این او کے مذکورہ الفاظ واضح طور پر بھارت کی حمائیت ہیں۔ پاکستانی عوام کو زیادہ تکلیف اس بات سے پہنچی ہے کہ اُن کے منتخب حکمران ٹرمپ کے سامنے احتجاج کر سکے نہ اقوامِ متحدہ کی تازہ دریدہ دہنی کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانبداری کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں کے تازہ قتل قطعی دکھائی نہیں دے رہے۔