قصور اپنا ہے
پاکستان میں اس پر مقدمہ چلا اور اسے فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا دے دی
کلبھوشن یادیو ایک بھارتی جاسوس جو ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا اور متعدد تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہا، جس کا اعتراف موصوف نے خود بھی کیا ہے۔
پاکستان میں اس پر مقدمہ چلا اور اسے فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا دے دی۔ ظاہر ہے ہندوستان کا بندہ ہے۔ اس کے اشارے پر اس نے کارروائیاں کیں، پاکستان میں مشکل حالات پیدا کیے، ہندوستان اور ان کے عوام کے نزدیک وہ ایک ہیرو ہے ، جس نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر پاکستان میں ہلچل مچائی، پاکستان میں بم دھماکے اور تخریب کاری کے واقعات میں ملوث رہا، اس کی رہائی کے لیے اس کا ملک جتنی کوشش کرسکتا ہے، وہ کر رہا ہے اور کرے گا، عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔
اب صورتحال ہماری طرف یہ ہے کہ ریاست کے اندر ایک آدمی داخل ہوتا ہے، غیر قانونی طور پر بنے پاسپورٹ، کاغذات اس کے پاس موجود تھے، ہم شک کی بنا پر اس کو پکڑتے ہیں اور پھر تصدیق بھی ہوجاتی ہے کہ مایہ ناز جاسوس ہے، نیول فوج سے اس کا تعلق ہے، اس کے بیان اور شواہد کی موجودگی سے فیصلہ بھی ہوجاتا ہے۔ جب ہم پریقین ہیں کہ واقعی یہ جاسوس ہے تو ہندوستان کے واویلا مچانے پر ہمیں فکر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ وہ تمام شواہد مکمل ہونے چاہئیں جن کی بنا پر ہم نے اسے سزا دی، کیونکہ بین الاقوامی برادری کے سامنے شواہد کو لانا بہت ضروری ہے۔ اصولاً تو یہ معاملہ عالمی عدالت میں ہمیں لے کر جانا چاہیے تھا کہ ہندوستان دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ہمارے ملک میں کارروائیاں ڈال رہا ہے، مگر وائے افسوس ہمارے پاس نہ وہ انداز ہے نہ بولنے کی صلاحیت اور نہ ہی اپنی بات منوانے کے عوامل، جس کے ذریعے ہم عالمی برادری کو ہمنوا بناسکیں اور یہی بات ہے کہ ہم اپنا مافی الضمیر درست طریقے سے پیش نہیں کرسکتے اور سچے ہوتے ہوئے شرمندگی ہمارا نصیب ٹھہرتی ہے۔
اب کہا یہ جا رہا ہے کہ 1960 میں پاکستان نے ویانا کنونشن میں دستخط کیے تھے جب کہ بھارت نے نہیں کیے تھے، یہ ایک رضاکارانہ معاہدہ تھا۔ میرے خیال میں تو ایسے معاہدے ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں، کیونکہ یہ مرضی کے تابع ہوتے ہیں، کسی اصول یا قوانین کے تابع نہیں ہوتے، اگر کبھی ہم اس معاہدے کے پابند تھے تو اب ہم اس سے نکل بھی سکتے ہیں، کیونکہ حالات اب کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ اب کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ بھارت کشمیر میں جو ریشہ دوانیاں کر رہا ہے یا وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ سلوک ہو رہا ہے تو پاکستان عالمی عدالت میں چلا جائے، مگر ہندوستان وہاں پتلی گلی سے نکل جائے گا کہ جناب ہم اس معاہدے کے پابند نہیں ہیں اور اس مقدمے میں فریق نہیں بن سکتے۔
اب تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ انٹرنیشنل عدالت کا جج جوکہ غیر جانبدار ہوتا ہے، وہ ہمیں فون کرکے کہتا ہے کہ یادیو کو پھانسی نہ دو، بغیر دلائل یا مقدمہ پورا ہوئے بغیر، شواہد دیکھے بغیر، کس طرح ایسا حکم صادر ہوسکتا ہے۔ تو صاف اور کلیئر بات ہے، مگر ہم اتنا عادی ہوچکے ہیں ہر قسم کی ڈکٹیشن کے کہ اس میں ہمیں کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آتی اور ہم ہر قسم کی ڈکٹیشن کو سن کر جی سر، جی سر کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر مزے کی بات تو یہ ہے کہ ریاست کا سربراہ ریاست کے وقار کا ذمے دار ہوتا ہے۔
جب ایسے وقت میں کہ بھارت کے ساتھ مخاصمت چل رہی ہے تو وہاں کے ایک بزنس مین جندال کو ویزہ دے دیا جاتا ہے، کچھ خفیہ ملاقاتیں ہوجاتی ہیں اور پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ جندال ہمارے دوست ہیں اور ذاتی بزنس کے تحت یہ ملاقات ہوئی تھی۔ حالانکہ ایسے وقت میں اس طرح سے کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ قوم کے سامنے ساری صورتحال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، ابہام پیدا نہیں کیے جاتے، ذاتی مفاد سے زیادہ تو ملک کی عزت و وقار ضروری ہوتا ہے۔ یہ ذمے داری میڈیا کی بھی بنتی ہے کہ وہ ایسے ایشو پر سوالات نہیں اٹھاتا۔ اس وقت پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا ہوگیا ہے، وہ افغانستان، بھارت اور ایران کا گٹھ جوڑ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس صورتحال سے نکلنے کی تدابیر کریں مگر ہماری تو وزارت خارجہ ہی فعال نہیں ہے۔ اپنے ملک کی صورتحال، واقعات، حالات کو دیکھتے ہوئے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بنایا سنوارا جاتا ہے۔ آج پوری دنیا میں ہم اکیلے کھڑے ہیں، سوائے چین کے کوئی ملک ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
یادیو کے معاملے کو ہی دیکھ لیں، ہم اس معاملے پر الجھے ہوئے ہیں کہ عالمی عدالت جانا چاہیے تھا یا نہیں۔ ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ اب تو عالمی عدالت میں معاملہ چلا گیا، اب ہمارے پاس کیا مواد موجود ہے۔ ہمارے وکیل صاحب کا تو یہ حال تھا کہ وہ صرف 50 منٹ بول کر ہی تھک گئے، دلائل ختم ہوگئے، الفاظ کا ذخیرہ جانے کہاں چلا گیا، جب کہ ان کے پاس ٹائم بہت باقی تھا۔ ہمیں دنیا کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یادیو ہمارا قومی مجرم ہے اور ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ اس نے ہمارے خلاف کارروائیاں کی ہیں، تسلیم کیا ہے، مگر زبانی کلامی صورت میں نہیں دلائل اور شواہد کی روشنی میں معاملے کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت جذبات کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی کے ساتھ عالمی عدالت میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس لیے حکومت، عوام اور فوج کا ایک صفحے پر ہونا بہت ضروری ہے ، کیونکہ بھارت تمام تر ریشہ دوانیاں کرکے بھی عالم اقوام میں سرخرو ہے اور ہم کچھ نہ کرکے بھی دنیا کے سامنے نہ ٹھہرے ہیں، بد سے بدنام کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ کوئی ملک بھی بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان کے معاشی معاملات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہی اقوام عالم میں وہ مقام نہیں پاسکے ہیں کہ ہمارا چہرہ کرپشن زدہ ہے، ہم ڈالر خیرات لینے میں مشہور ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ہم مسلم امہ کے چیمپئن بذات خود بنے ہوئے تھے مگر وہاں بھی بھارت اور مودی سرکار کی جے جے کار ہے، ہزاروں مسلمانوں کے قاتل کو اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا جاتا ہے، بھارت اس وقت اقوام عالم میں منہ چڑھی بہو کا کردار ادا کر رہا ہے، جس کو پیا چاہے وہی سہاگن۔
حال ہی میں سعودی عرب میں مسلم امہ کی کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب اور جس طرح ان کا استقبال ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نیا ہونے جا رہا ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا تذکرہ تو کیا نام بھی لینا گوارا نہ ہوا۔ مسلمان ممالک بے تحاشا دولت مند ہونے کے باوجود مغربی ممالک کے آگے بچھے جاتے ہیں، ان کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، ایران کو جس طرح دنیا سے الگ کرکے اس کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے یہ وقت ہم پر بھی آسکتا ہے۔ ایران نے تو پہلے بھی دنیا سے کٹ کر بھی اپنے آپ کو منوالیا تھا۔ مگر ہم شاید ایسا نہ کرسکیں، کیونکہ ہم میں آپس میں من حیث القوم اتحاد نہیں ہے۔ امریکا اور طالبان کی لڑائی میں ہم نے نیک نامی کی جگہ بدنامی بھی کمائی، ہم اگر اس وقت اپنی ساکھ کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرتے تو آج دہشت گردی کے اس ماحول میں کہ متاثر بھی ہم ہوئے اور صلواتیں بھی ہم سن رہے ہیں۔