دشمن کون ہے
دشمن کو مطعون کرنا ایک بہت آسان کام ہے
دشمن کو مطعون کرنا ایک بہت آسان کام ہے۔ اتنا آسان کہ پاکستان کا وزیر دفاع جو ''کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے'' سے معروف ہے آرام سے گھر بیٹھے اسرائیل کو دھمکی دے دیتا ہے کہ ''اگر پاکستان کے خلاف کچھ کہا تو ہم تم پر ایٹم بم ماردیں گے۔'' حالانکہ اس قسم کے بیان سے پہلے دماغی امراض کے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسرائیل پاکستان کے پہلو میں نہیں ہے اور کسی طرح بھی پاکستان کے پہلو میں نہیں ہے۔ بھارت کے پہلو میں سیاسی طور پر ہے۔ بلکہ دہشت گردی کا ''پہلوٹھی کا بچہ'' ہے۔
اور یہ بیان بھی سراسر فراڈ تھا اورکسی اسرائیلی سابقہ وزیرکا تھا۔ خبر رساں ایجنسی نے اس غلط خبر پر معذرت کی حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ غلط خبریں صحیح خبروں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں، مگر پھر بھی پاکستان کے وزیر دفاع کو یاد رکھنا چاہیے تھا ''کچھ شرم ہوتی ہے،کچھ حیا ہوتی ہے'' انتظارکرلیتے اور بعد میں ردعمل دیتے اور وہ بھی سمجھداری کے ساتھ، اس جال میں نہ پھنستے جو ان کو پھنسانے کے لیے بچھایا گیا تھا۔
بات کہیں اورنہ چلی جائے تو وہیں واپس پلٹتے ہیں۔ بھارت ایک مسلسل اذیت کا سبب ہے پاکستان کے لیے، مگر بات یہی ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے، ہاں پڑوسی کو مختلف طریقوں سے ربط وضبط کے ذریعے بات چیت کے ذریعے تعاون و اشتراک پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ جس کی حد کردی رائے ونڈ نے۔ سرخ قالین بچھادیا، سالگرہ کی مبارکباد وصول کرلی۔
قائد اعظم نے پاکستان بنا کر دے دیا اور غلام محمد بیورو کریسی نے پاکستان کے بخیے ادھیڑ دیے۔ کسی وزیر اعظم کو کام نہ کرنے دیا۔ لیاقت علی خان کو شہید اس وجہ سے کیا گیا کہ ایسا وزیر اعظم بیورو کریسی کو یا اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں تھا۔
شہادتیں تو بعد میں بھی ہوئیں پاکستان کے وزیر اعظم کی مگر وہ اس مقصد کے تحت نہیں تھیں جو مقصد لیاقت علی خان کا تھا کہ آخری الفاظ تھے ''خدا پاکستان کی حفاظت کرے'' اور بغیر کسی حفاظتی بندوبست کے وہ عوام سے مخاطب تھے۔
راولپنڈی نے پاکستان کے تین وزرائے اعظم کا خون جذب کیا ہے۔ ضیا الحق ایک پرزے کی ناکامی تھی لہٰذا بین الاقوامی بازیگروں نے ''پرزہ'' بدل دیا۔ اور کچھ نہیں اور پھر مکافات عامل بھی تھا۔ دونوں کام بہت سہولت سے ہوگئے۔
آج تک امریکا ہمارا دوست ہے حالانکہ زبان وہ بھارت افغانستان کی بول رہا ہے۔ ہمیں دلدل میں پھنسا کر ہمارے دشمنوں سے مل گیا ہے اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے مگر امریکا پاکستانیوں کے سر پر سوار ہے آج بھی ہر ایک امریکا جانا چاہتا ہے۔ امریکا سے تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تقسیم سے پہلے برطانیہ مرکز تھا اور سب ولایت اس کو کہتے تھے اب ولایت امریکا ہے چاہے وہ ہمارا کچھ حشر کردے۔
تو قصور کس کا ہے کہ دشمنوں کو کوستے رہو، جماعت اسلامی کی طرح گیدڑ بھبکیاں دیتے رہو۔ پلے کچھ ہے نہیں جھگڑا ساری دنیا سے۔ کیا ہے پاکستان کی سیاست؟ کیا ہے پاکستان میں پاکستانیت؟ کس چیز پر فخرکریں۔ کون سا لیڈر ہے جس کے بارے میں کہہ دیں کہ یہ سچا پاکستانی ہے۔
ایک بھی نہیں، پھر لکھ رہا ہوں، ایک بھی نہیں! پاکستانی سیاست موسم کا سا کھیل ہے۔ یہاں ہر وقت سیاست کا موسم رہتا ہے۔ عوام کی ترقی کا موسم نہیں آتا، پرانی تختیاں اتارکر نئی لگا دی جاتی ہیں افتتاح ہوجاتا ہے اور پھر افتتاح ہوتا رہتا ہے۔ بھارت نے کتنے ڈیم بنائے گزشتہ بیس سال میں ہم کالا باغ کو سفید باغ نہ کرسکے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
پاکستان سیاست دانوں کی نرسری ہے، یہاں سب سے زیادہ سیاست دان پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے بعد بے ایمانوں کی تعداد ہے۔ ایماندار اور محب وطن ان دونوں صنفوں میں مشکل ہی ملیں ، یہ سارے لوگ غریب عوام میں پائے جاتے ہیں اور کثیر تعداد میں مگر بے بس اور صرف منہ دیکھنے والے بے ایمانوں کا۔
ساری طاقت ملک کی سیاستدانوں اور بے ایمان مافیا کے پاس ہے، اس مافیا میں کاری کارندے اسکول ٹیچر سے لے کر اوپر تک سب شامل ہیں اور یہاں اب ایمان دار صاحب کردار کا جینا مشکل ہے، دو ہی راستے ہیں بے ایمان ہو جاؤ یا جگہ خالی کردو۔
پہلے دو خاندان مشہور ہو رہے تھے سیاست میں وہ تو ہیں ہی مگر اب تو ہر وزیر، ہر شاہ کا بیٹا بیٹی بھی سیاست کے میدان میں اتر آئے گا کہ یہ سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ اب تو پورا ملک کچرے کا ڈھیر ہے سارا پیسہ ہر صوبے میں ہڑپ۔ پکڑے گئے تو ''پلی بارگین'' نہ پکڑے گئے تو پاکستان تو کیا دبئی، برطانیہ میں جائیداد، راستے سینئر سیاستدانوں نے دکھادیے ہیں۔
دشمن کو مطعون کیوں کیجیے وہاں جو بھی آیا، نظریہ یہی رہا کہ ''بھارت مہان ہے'' اور ہم کہتے رہے ''پاکستان دولت کی کان ہے''۔ کھودتے جاؤ کھاتے جاؤ۔ سندھ کے قدیم ترین وزیر اعلیٰ اورگورنر نے بھی سندھ کو کیا دیا لسانیت کی سیاست اور بربادی۔
بڑا صوبہ ترقی کرتا رہا کہ وہاں بھی بھارت والا نعرہ ہے اور سندھ کا حال پاکستان والا ہوا ہے، اور رہے گا۔ یہاں صرف زبان کی سیاست ہے۔ سارے جھگڑے سندھ میں ہیں۔ سب سے برا حال سندھ کا ہے۔ آبادی کا بوجھ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل پر اس صوبے سے تعلق نہ رکھنے والوں کا قبضہ۔
اب بات صرف کراچی کی نہیں ہے سندھ کے ہر شہر میں وہ لوگ آ پہنچے ہیں جن کے پاس ہیروئن کی آمد ہے اور ان لوگوں کی خرید و فروخت نے یہاں کے رہنے والوں کا جینا دوبھرکردیا ہے۔ زندگی گزارنا مشکل ہے۔ بزرگوں سے سنا تھا جب ہم پاکستان آئے تھے تو ہمارے سندھی بزرگ بتایا کرتے تھے کہ سندھ کو افغان سے خطرہ ہے۔
اس وقت ہم نقشے پر نظر ڈالتے تو سندھ خاص طور پر کراچی اور افغانستان بہت دور نظر آتے تھے اور ہم سوچتے تھے کہ بھلا وہ لوگ یہاں کیوں آئیں گے۔ اب نہ صرف وہ آگئے ہیں بلکہ جانے کا نام نہیں لے رہے ۔ اور ہمارے ہی ایک صوبے کے لوگ ان کو یہاں رکھنے پر بضد ہیں کیونکہ اس طرح ان کا ووٹ بینک بڑھے گا اور آخر کار وہ سندھ میں ہی قبضہ کریں گے ان کا تو کچھ بگڑے گا نہیں دونوں طرف بندوق ہے اور سندھ کے لوگ بندوق کے بجائے اکتارے سے پیار کرتے ہیں۔ امن کے گیت گاتے ہیں اور گاتے رہیں گے مرتے دم تک۔
دشمن کو مطعون کیوں کیجیے۔ پاکستان کا حلیہ کون بگاڑ رہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان جو اب ٹڈی دل ہوچکے ہیں اور جن کی زبانیں عوام کا دم بھرتے نہیں تھکتیں۔ حالانکہ ریشم و کمخواب سے باہر نکلے ابھی چند سال ہوئے ہیں، مگر سیاسی مرغی کا چوزہ نکلتے ہی دانہ چگنا شروع کردیتا ہے۔
تو پاکستانیو! میرے دوستو تیار کرلو اپنے بچوں کو ان کے بچوں کی غلامی کے لیے کیونکہ اب علاقے بھی بٹ گئے ہیں اور ''سیاسی وارثین'' بھی آگئے ہیں۔ اناؤنس ہوگئے ہیں۔ کوئی بھی فرق ہو ان میں، کہیں کے بھی ہوں، عوام کو ''نچوڑنے'' میں یہ سب ایک ہیں۔ بوڑھے سیاسی مرغوں کے چوزے ہمیں ''ٹھونگیں'' مارنے کو تیار ہیں تمہارا ٹیکس تم پر اگر خرچ کردیں گے غلطی سے تو احسان یوں کریں گے جیسے کہ یہ ان کے باپ دادا کا پیسہ تھا۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ سیاست دانوں نے پنجے گاڑ دیے پاکستان کے جسم میں ۔ کاش کوئی پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے کام کرتا صرف پاکستان کے لیے۔
اگر کوئی ایسا کرتا تو نہ سوئٹزرلینڈ کے قصے ہوتے، نہ لندن کے فلیٹ، نہ پانامہ کے جھگڑے مگر ایسا ہوتا تو کیا فائدہ ہوتا۔ پاکستانی بن کر پاکستان میں ہی رہنا پڑتا، وہ مزے کہاں سے ملتے جو عوام کے ٹیکس کو خرچ کرنے میں ملتے ہیں۔ خاندانوں کے خاندان پل گئے پاکستان میں مگر صرف سیاستدانوں کے، بے ضمیروں کے بے ایمانوں کے اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کے۔