لبرل ازم کا بحران
ہمارے ہاں روشن خیالی کے فروغ کے لیے منطقی دلائل کے حوالے سے کوئی ایک بھی اس درجے کی دستاویز موجود نہیں ہے
PESHAWAR:
دیسی لبرل ازم کوئی علمی، فکری اور فنی تحریک نہیں ہے کہ جس کے فلسفیانہ تعقلات کا ایک مخصوص تناظر میں تجزیہ کرکے ان کے متعلقہ یا غیرمتعلقہ ہونے کا نکتہ اٹھایا جاسکے۔ یہ دہشت پسند مذہبیت کے ردِ عمل سے پیدا ہونے والے چند انتہا پسند لوگوں کے ایک ایسے بے ہنگم گروہ کی نظریاتی ترجیح ہے، جن کا ایک مقصد پاکستان میں مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ، قومی اورعلاقائی معاملات کے بارے میں پہلے سے موجود بحران میں اضافہ کرنا ہے۔ ان کے ہاں کسی بھی مربوط فکری وعلمی دلائل کا یکسر بحران پایا جاتا ہے۔
دلائل سے ان کی صرف اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی مذہب پرستوں کی فتویٰ صادر کرنے سے ہے۔ ان کے برعکس مغرب میں لبرل ازم کی ایک معاشی بنیاد موجود تھی، یعنی صنعتی ارتقا کا عمل جاری تھا، اس پر جہاں روشن خیال لبرل ازم کے داعی والٹیئر، مونٹیسکیو اور روسو وغیرہ جیسے اعلیٰ درجے کے مفکر موجود تھے جو سرمایہ داری نظام کے ارتقا سے ہم آہنگ خیالات کی تشکیل کرکے جہاں ابھرتی ہوئی بورژوازی کی نمایندگی کررہے تھے تو وہاں دوسری طرف ہولباخ، دیدے روجیسے اعلیٰ پائے کے مادیت پسند تھے، جو فطرت سے ماورا کسی بھی ''حقیقت'' کا انکار کرکے براہِ راست چرچ کی غالب حیثیت کو چیلنج کر رہے تھے۔
چرچ کے انتہائی اثرورسوخ کی وجہ سے بیرن ہولباخ کی کتاب ''دی سسٹم آف نیچر'' پہلی بار سترہ سو ستر میں ہولباخ کے نام کے بغیر شایع ہوئی۔ اس میں ہولباخ نے یہ دکھایا کہ فطرت میں مضمر قوانین انسانی تعقل سے ہم آہنگ ہیں اور انسانی مسرت کا راز ان کو دریافت کرنے اور ان سے تطابق رکھنے میں موجود ہے۔ اسی طرح دیدے روکے انسائیکلوپیڈیا میں موجود آرٹیکلز چرچ کی حیثیت کو الحاد کا کھلا پرچار کرتے ہوئے چیلنج کر رہے تھے۔ان تمام روشن خیال مفکروں کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح انسان کے سوچنے کے اندازکو تبدیل کرکے نئے حالات سے ہم آہنگ ہوا جائے۔ وہ انسان جو الٰہیاتی مرکزیت کے فلسفے کے تحت خود کو کسی اور 'ہستی' کا تابع کر دیتا ہے۔ ایسا کیا ہونا چاہیے کہ اس انسان کا خود اپنی ذات پر اپنے ہی خیالات کے ذریعے غالب آ جائے ۔ جو انسائیکلوپیڈیا دیدے رو وغیرہ نے تشکیل دیا اس کا مقصد انسانی تعقل کی بنیاد پر ماورائے عقل کسی بھی ہستی کے وجود کا انکار کرنا اور تعقلی دلائل سے انسان کے سوچنے کے انداز کو اس طریقے سے تبدیل کرنا تھا کہ مسیحیت کے پیروکاروں کے جھوٹ کا ابطال بھی ہوجائے اور ایک نئی ''روشن خیال'' فکرکی افزائش ممکن ہوسکے۔
ہمارے ہاں روشن خیالی کے فروغ کے لیے منطقی دلائل کے حوالے سے کوئی ایک بھی اس درجے کی دستاویز موجود نہیں ہے جسے روشن خیالی کے حقیقی بانیوں کی کسی بھی دستاویزکے مقابل رکھا جاسکے۔ نہ ہی فرانسیسی روشن خیال کے بانیوں جیسا کوئی مفکر ہی موجود ہے جو متعصبانہ جذبات پر قابو رکھتا ہوا حالات کا منطقی تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمارے ہاں کے ''لبرلز'' کا جو طریقہ تنقید ہے وہ بہت سطحی نوعیت کا ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سماج کے اندر ایک ایسی مصنوعی خلیج جنم لے رہی ہے جو سماج کو ارتقا کی جانب نہیں بلکہ زوال وانحطاط کی جانب گامزن دکھائی دیتا ہے۔
دوسروں کے عقائد کا مذاق اڑانا، مذہبی رسومات کی توہین کرنا، مذہبی شخصیات پر بہتان باندھنا ان کی اولین ترجیح بن چکا ہے۔یہی وہ آزاد خیال ہیں جو سوشل میڈیا پر ہندوستان کے لوگوں کو ان کے مختلف تہواروں کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے نہیں تھکتے، یہی وہ آزاد خیال ہیں اپنے ہی ملک کے کروڑوں مسلمانوں کی مذہبی رسومات کا تمسخر اڑاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہ جن تکثیر ثقافتی ممالک کی مثالیں پیش کرتے ہیں، ان ممالک میں دیسی آزاد خیالوں کے دوسروں کے عقائد پر ان حملوں کے پیش نظر ان کو شام سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے۔کیونکہ سبھی کے عقائد ونظریات کا احترام ہی مغربی ممالک کے اندر ''طبقاتی یکجہتی'' کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
دیسی آزاد خیالوں کو عوام الناس کے حقیقی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کی ترجیح صرف یہ ہے کہ مذہب پرستوں کے ان افکار پر بھی گرفت کی جائے جن کو نظر انداز کرنا ہی ان کی موت کے لیے کافی ہے۔ یہ ان معاملات کو ابھارتے ہیں، جنھیں نظر انداز کرنا زیادہ ضروری ہے۔ بعض خیالات و رجحانات اپنی موت کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کا ذکر ہی ان کو ازسرِ نو زندگی عطا کر سکتا ہے۔ان آزاد خیالوں کو اس نظام کی تبدیلی سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جس کے وسط سے دہشت، بربریت، تشدد، ظلم، جبر،استحصال اور جنگیں پھوٹتی ہیں۔ یہ ''روشن خیالی'' کو اس کے جدلیاتی کردار میں نہیں دیکھتے کہ جہاں سماجی، معاشی اور سیاسی ارتقا جنگوں، دہشت، تشدد، استحصال کی قیمت پر ممکن ہوتا ہے۔
یہ روشن خیالی کو اس کے اس مخالف سے الگ کرکے دیکھتے ہیں جو خود روشن خیال کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور جہاں عقل غیر عقل میں امن جنگ میں، انسانیت غیر انسانیت میں، ہر نوع کی اچھائی برائی میں اور لبرل ازم فاشزم میں بدل جاتا ہے۔یہ آزاد خیال سماجی، سیاسی، معاشی تجزیات کے دوران ہر ایک کو دوسرے سے الگ کر لیتے ہیں اور ان سب کو ایک اس کُل کا حصہ نہیں سمجھتے جس کی تشکیل سرمایہ داری نظام کے گہرے اثرات تلے ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر عہد میں ہی دہشت اور جنگیں موجود رہی ہیں۔ مختلف مذاہب کی نظریاتی پیکار جنگوں کا جواز بھی بنتی رہی ہے۔ ہر عہد میں جنگوں اور دہشت کے مختلف محرکات رہے ہیں اور ان کے تحت ہی جنگوں اور دہشت کی صورت پذیری ہوتی رہی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کی جنگوں اور دہشت کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار سرمایہ داری نظام نے ادا کیا ہے۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ جنگوں اور دہشت کو غیرتاریخی طور پر گزشتہ عقائد کا تسلسل سمجھ لیا جائے۔نظریات و عقائد کو غیر تاریخی اور غیر سماجی سمجھنا ایک ایسی ہی عینیت پسندی ہے، آزاد خیال جس کا بہت آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کو اس کے ان تضادات کی روشنی میں دیکھنا ہوگا جن کی تحلیل کی احتیاج ہی جنگوں اور دہشت کی وجہ بن جاتی ہے۔اس نظام کے لبرل نظریہ سازوں کا یہ وصف ضرور ہے کہ وہ لوگوں کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ اصل مسائل اس نظام میں موجود ان تضادات سے جنم نہیں لے رہے جن کی تحلیل کی اس نظام میں صلاحیت نہیں ہے، بلکہ وہ سارا ملبہ مذہب سمیت دیگر نظریات پر ڈال دیتے ہیں اور جو لوگ اس نظام کی تفہیم سے قاصر ہیں وہ عینیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے دلائل کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سرمائے کی حرکت مقامی نہیں ، یونیورسل ہے۔
دہشت اور جنگیں اسی یونیورسل گردش کا شاخسانہ ہیں۔سماجی سطح پرتخلیق و تخریب کا عمل سرمائے کی اسی آفاقی گردش کے نتیجے میں ہی طے پاتا ہے۔ ایک سچا اور حقیقی دانشور وہی ہوتا ہے جوظاہر سے پرے کسی بھی نظام کے جوہر تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ جوہر سطح پر دکھائی نہیں دیتا، اسے دلائل کی منطقی حرکت میں تلاش کرنے کے لیے نظام کے اندر اترنا پڑتا ہے۔ غور کریں کہ جب روسو نے عدم مساوات پر اپنا مقالہ لکھا تو مقالے کی داخلی حرکت اسے اس جانب لے گئی کہ جہاں اختتام سوشلزم پر ہی ہوتا ہے۔
فرانسیسی روشن خیال و لبرل مفکر اپنے عہد کے انقلابی تھے، دیسی لبرل اپنے عہد کے قدامت پسند ہیں۔ فرانسیسی مفکروں نے محض ظاہر کو نہ دیکھا، وہ جوہر تک گئے، دیسی لبرلز 'جوہر' کے مفاہیم سے ہی آگاہ نہیں ہیں۔ یہ ان تضادات کو دیکھنے سے ہی قاصر ہیں، جن کی تحلیل سے نظام کاانہدام لازمی ہے۔ فرانسیسی مفکر ابھرتی ہوئی بورژوازی کے نمایندہ تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی تحریروں میںغالب بورژوا فکر کے برعکس فکر بھی بہت نمایاں طور پر ملتی ہے۔
اگر فرانسیسی روشن خیال مفکر آج کے عہد میں ہوتے تو آج کے لبرل اور مذہب پسند ان کا واضح ہدف ہوتے۔ بورژوازی کی آئیڈیالوجی کے طور پرلبرل ازم اپنے تضادات کو دیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔بیسویں صدی کی جنگوں اور دہشت کے تسلسل نے سرمایہ داری نظام کے اندر جس شگاف کو عیاں کیا ہے، وہی شگاف مابعد جدید مفکروں نے لبرل ازم کے فلسفیانہ تعقلات میں دیکھا ہے۔ لبرل ازم کی مابعد جدید تنقید کے بعد ان ہی لبرل ترجیحات پر اڑے رہنا کسی کی ذاتی خواہش تو ہوسکتی ہے، لیکن کسی منطقی تجزیے کا نتیجہ نہیں۔