ووٹرز کی ذمے داریاں
ہم ایک دوسرے سے معاشرے کی برائیوں کا ذکر کر کے یہ نہیں سوچتے کہ ’’معاشرے میں خود ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟‘‘
SUKKUR:
ووٹ کی اہمیت و افادیت مسلم ہے۔ ووٹ کے درست استعمال سے ملک و قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے جیسا کہ غلط استعمال و جذباتی فیصلے سے بگڑ بھی سکتی ہے لہٰذا ووٹرز کو اپنی قیمتی رائے دینے سے قبل تمام پہلوؤں کا بہ غور جائزہ لینے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے تا کہ ملک امن و آشتی، ترقی و خوشحالی کی نظیر ہو۔ ووٹ صرف بیلٹ پیپرز پر مہر ثبت کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک قسم کی شہادت ہے کہ جس امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا جا رہا ہے وہ شخص راسخ العقیدہ، اسلام اور ملک و قوم کا سچا وفادار و مخلص ہے اور جس عہدے، رتبے و منصب کے لیے وہ امیدوار ہے، اس کی وہ اہلیت رکھتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ گواہی دینے والا بروز قیامت جوابدہ ہے کہ جو گواہی دی گئی تھی وہ سچی تھی یا جھوٹی؟ جب ہمیں ایسا مرحلہ درپیش آئے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ ووٹ کسے دیا جائے؟ مد مقابل امیدوار حقیقی معیار کے مطابق نہیں ہیں تو ایسی صورت حال میں موازنے کا عمل اختیار کیا جائے۔ جو سب سے زیادہ مناسب امیدوار ہو اسے ووٹ کاسٹ کیا جائے تا کہ کم سے کم نقصان کا اندیشہ رہے۔ووٹ قیمتی بلکہ امانت ہے جو امیدوار کا حق ہے۔ اسے ہر حال میں استعمال کرنا چاہیے۔ آپ کا ایک ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے سے اچھے اور برے نمائندے کا انتخاب ہو سکتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس امیدوار کو ووٹ دے کر منتخب کیا جاتا ہے اگر وہ اپنے ووٹرز سے کیے گئے وعدوں سے منحرف ہو جائے، ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کے برعکس کام کرنے لگے۔ غلط کاموں میں مصروف ہو جائے یا غلط فیصلے اور ظلم و ستم کرنے لگے تو اس قومی جرم میں ووٹرز کا بھی حصہ ہوتا ہے اس لیے ووٹ استعمال کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرنا چاہیے اور ذاتی پسند و ناپسند اور شخصیت پرستی سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ووٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہیے۔ ہر پاکستانی شہری مرد ہو یا عورت جس کی عمر 18 سال یا اس سے زائد ہو، آزادانہ طور پر اپنا ووٹ استعمال کرنے کا آئینی و قانونی حق محفوظ رکھتا ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، حوصلہ افزا نہیں ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ معاشرہ اچھے لوگوں سے خالی ہے۔ وطن عزیز میں اچھے اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو دل و جان سے اپنے اپنے شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور وہ عوامی نمائندگی کے ذریعے اپنی خدمات کو وسیع کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ محب وطن، نیک، صالح، ایماندار، بے لوث، مخلص اور خوف خدا رکھنے والے لوگ ہی اس اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں۔ یہی چراغ جل اٹھیں تو روشنی ہو گی اور یہ چراغ معاشرے کی مثبت سوچ و فکر اور درست فیصلے سے روشن ہو سکتے ہیں۔ ایسے مخلص اور بے لوث کام کرنے والوں کے انتخاب سے یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ختم ہو سکتا ہے۔
ہمارے یہاں امیدوار کی تعلیم، اس کے کردار اور صلاحیت کو زیادہ فوقیت نہیں دی جاتی بلکہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے جب کہ کسی امیدوار کا اثر و رسوخ، رعب و دبدبہ اور دولت کی ریل پیل کو اعلیٰ معیار جانا جاتا ہے۔ اس کا منفی نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ معاشرے میں بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت ہے، ہر طرف انتشار اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ لوگوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں۔ ہمیشہ ہر آنے والے نے سبز باغ دکھائے ہیں اور جانے والے نے اپنے گناہ و کرتوت آنے والے کے سر تھوپ دیے ہیں۔ جب تک قوم میں یہ شعور و آگہی نہ آ جائے کہ وہ ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ ووٹ کی اہمیت و افادیت کتنی ہے؟
کس طرح اپنے منتخب کردہ نمائندے سے کام لیا جا سکتا ہے اور اگر وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا نہ کرے تو کس طرح اس کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ووٹرز ایسے امیدواروں کو منتخب کریں جو حقیقی معنوں میں نمائندگی کی اہلیت رکھتے ہوں، جن کی کارکردگی سے ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔بلاشبہ پاکستان کی خود مختاری، سلامتی، ترقی و خوشحالی، ملک میں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی میں مضمر ہے کہ اسی سے اختیارات و وسائل کی منصفانہ تقسیم اور تعصب و عناد سے پاک معاشرے کا قیام ممکن ہو گا جو قومی یکجہتی اور مضبوط معیشت کی بنیاد ہے۔
مضبوط معیشت ہی دراصل وطن کے مضبوط دفاع کے مترادف ہے۔ پاکستان کی حفاظت کرنا ہر پاکستانی مرد و زن کی قومی ذمے داری ہے کہ وہ ہر سطح پر ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنا کردار ادا کریں اور خود احتسابی کا عمل اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں نہ ہو۔میں مانتا ہوں ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، امید کی کرن دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے، جو نظام بدلنے کی باتیں کرتے تھے وہ خود اس فرسودہ نظام کا حصہ بنتے رہے ہیں، ہر ایک نے قوم کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے اور اونچے محلات روشن کیے ہیں اور قوم کو کھلے آسمان تلے تنہا چھوڑ دیا ہے لیکن اب ایک مرتبہ پھر قوم کو عام انتخابات کی صورت میں اپنا فیصلہ سنانے کا موقع میسر آ رہا ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی کے ذریعے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کریں جو خدا کی زمین پر زمینی خدا بن بیٹھے ہیں، جنہوں نے قوم کو تمام مصائب میں مبتلا کر کے قوم کی خدمت کا نعرہ لگا کر قوم سے وہ سب کچھ چھین لیا ہے جو ایک ریاست اپنی رعایا کو فراہم کرنے کی ذمے دار ہوتی ہے۔
اس صورت حال کے ذمے دار ووٹرز خود ہیں اور اس میں تبدیلی لانا بھی ووٹرز کی ہی ذمے داری ہے۔ہم ایک دوسرے سے معاشرے کی برائیوں کا ذکر کر کے یہ نہیں سوچتے کہ ''معاشرے میں خود ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟'' خود احتسابی کا عمل ایک ایسا آسان طریقہ ہے جس پر عمل کر کے ہم ایک مثبت معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں! معاشرہ فرد سے وابستہ ہے نہ کہ فرد معاشرے سے۔ ہم سب فرداً فرداً مل کر معاشرہ کہلاتے ہیں۔ ہم اچھے ہوں گے تو معاشرہ اچھا ہو گا، معاشرہ بہتر ہو گا تو ہمارا ملک بھی اچھا کہلائے گا یعنی خوشحال ہو گا لیکن اس خوشحالی کے لیے دیانت داری اولین تقاضا ہے اور دیانت داری ڈنڈے کے زور پر نہیں بلکہ خود احتسابی کے عمل سے فروغ پاتی ہے۔ آئیے! ہم سب خود احتسابی کا عمل اپناتے ہوئے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں اور 2013ء کے عام انتخابات میں اچھے امیدواروں کو منتخب کر کے اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔