سب سے بڑی جنگ
ملک بھر کی صحافی برداری کے حقوق کے لیے لڑنے والے ہمارے اکابرین اور رہنماوں پر اس وقت کیا گزری
MAIDUGURI:
روایت ہے کہ ایک دن ہارون الررشید بادشاہ اپنے محل کی کھڑی سے شہرکا نظارا دیکھ رہاتھا کہ ان کی نظریں ایک راہ چلتے ہوئے نوجوان پر پڑیں،جس کے کندھے پر ایک قیمتی چادر تھی اور پاوں میں پرانے جوتے تھے مگر اس نے اپنے کندھے سے اپنی قیمتی چادر اتار کر اس سے اپنے جوتے صاف کیے، ہارون الررشید نے جب یہ نظارا دیکھا تو فوراً اپنے محافظوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس نوجوان کو دربار میں حاضر کرو،محافظوں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نوجوان کو پکڑکربادشاہ کے سامنے لاکھڑا کردیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاو کہ اتنی قیمتی چادر سے آپ نے اپنے یہ پرانے اور ارزاں قسم کے جوتے کیوں صاف کیے، کہ چادر تو اس سے کئی گناہ زیادہ قیمتی لگتی ہے۔
کچھ دیر تو وہ نوجوان خاموش رہا مگر مجبور بول اٹھا کہ حضور یہ چادر مجھے اپنے باپ کی میراث میں ملی ہے جب کہ جوتے میں نے اپنی کمائی کے پیسوں سے خریدے ہیں، سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ مذکورہ روایت کا اصل مقصد اور مفہوم یہ کہ جو چیز کسی کو مفت یعنی بقول غالب مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے''والی بات بن جاتی ہے جس طرح کسی کو اپنے باپ دادا کی مال دولت، جائیداد گھر اور دیگراشیاء میراث میں مل جاتی ہیں تو ان چیزوں کی نہ تو دیکھ بھال کا وہ پورا خیال رکھتاہے اور نہ ہی ان کے پاس ان چیزوں کی کوئی خاص وقعت اور قدر وقیمت ہوتی ہے،لہذا یہی حال ہمارے ملک میں موجودہ صحافتی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کا بھی ہے عام لوگوں سے کیا گلہ یا شکایت کہ ہماری اپنی برادری یعنی صحافیوں نے بھی آج تک اس بارے میں اپنی صحافتی تاریخ کی پوری طرح ورق گردانی نہیں کی کہ یہ جو موجودہ اظہاررائے کی آزادی یا کچھ حقوق ہمیں حاصل ہیں۔
یہ ہمیں کیسے، کیوں کر اور کن سرفروش اور مجاہد قلم کاروں نے حاصل کیے ہیں،بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری برادری کی اکثریت پوری دنیا کی سیاست،تحریکوں اور رہنماوں کی جدوجہد سے تو واقفیت رکھتی ہے مگر اپنے ملک کی صحافتی تاریخ،تحریک اور اپنے ان رہنماوں کو جانتی تک نہیں جنھوں نے ہر بڑھتے ہوئے موج،آندھی اور طوفان میں آزادی صٖحافت کا دیا جلائے رکھا اور اپنی برداری کے حقوق کے لیے کسی بھی جانی ومالی قربانی سے دریغ نہیں کیا،ان ہی ہی قلم کاروں اور آزادی کے پروانوں میں ایک بہت بڑا نام ہمارے سینئر صحافی،کالم نگار،شاعر ادیب اورافسانہ نگار احفاظ الرحمان صاحب ہیں،اور ہمیں یہ اعزاز اور شرف بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف ہمارے ''ایکسپریس میگزین سیکشن کے انچارج ہیں بلکہ ان کی رہنمائی، تجربات اور مشورے بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
گوکہ آج تک ہمیں ان سے ملاقات تک کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے مگر پھر بھی ان سے ہمارا ایک ایسا نظریاتی،ادبی،صحافتی اور روحانی رشتہ استوار ہو چکاہے کہ ان دیکھے بھی ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور یہ ملاقاتیں ان کی تحریروں،کالموں،شاعری اور کتابوں کے ذریعے ہورہی ہیں،ادب میں شخصیت کے مسئلے سے واقف لوگ ہمارے اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ تحریرکو کسی طور پرآپ شخصیت سے الگ نہیں کرسکتے کہ وہ ایک قسم کا اس شخصیت کاعکاس اور ترجمان بھی ہوتی ہے جس میں خارجیت سمیت ان کی داخلیت بھی نظرآتی ہے،جس کا بین ثبوت ہمارے محسن اور محترم احفاظ الرحمان صاحب کی لکھی ہوئی نئی کتاب''سب سے بڑی جنگ'' ہے،جس میں نہ صرف ہمیں صاحب کتاب نظرآتے ہیں بلکہ اس دور کے پورے حالات اور آزادی صحافت کی تحریک کی پوری تاریخ بھی محفوظ کی گئی ہے وہ تاریخ اور تحریک جس نے صحافت کی عظمت اور لفظ کی حرمت کی خاطر وقت کے بڑے بڑے آمروں کی نیند حرام کررکھی تھیں۔
ملک بھر کی صحافی برداری کے حقوق کے لیے لڑنے والے ہمارے اکابرین اور رہنماوں پر اس وقت کیا گزری، ان کے ساتھ کیسا سلوک اور برتاو کیاگیا ان پر عرصہ حیات کیوں تنگ کیاگیا، ملک کے جابرحکمرانوں کے اشاروں پران کے گماشتہ اداروں اور انتظامیہ کے مقاصد کیا تھے اور اس وقت کے پاکستان فیڈرل یونین جرنلسٹ اور اپیپنک کیاچاہتی تھی؟ اس تحریک،جنگ اور تاریخ سے اپنے آپ کو باخبر اور باعلم رکھنے کے لیے ہمیں اپنی برادری کی''سب سے بڑی جنگ''کا مطالعہ بڑے انہماک اور سنجیدگی سے کرنا ہوگا،بقول اقبال خورشید کہ ''یہ فقط کتاب نہیں۔یہ توجدوجہد کی کہانی ہے۔امید کی زمین پر لڑی جانے والی ایک عظیم جنگ ایک نثری رزمیہ... احفاظ الرحمان صاحب کے تجربات، مشاہدات اور احساسات ایک امانت تھے جو اب کتابی صورت میں اگلی نسل تک پہنچ رہے ہیں،ان پریس ورکرز کے لیے جو اس تحریک کا حصہ رہے،یہ کتاب یادوں، خوابوں اور جہدمسلسل کا رزمیہ ہے۔
مگرموجودہ نسل کے لیے وہ بنیادہے جس پروہ اپنا صحافتی مستقبل تعمیرکریں گے'' حقیقت بھی یہی ہے کہ ''سب سے بڑی جنگ'' ملک کی تاریخ میں آزادی اظہار،قلم کے تقدس،لفظ کی عظمت اور حرف کی حرمت کے لیے لڑی جانے والی ایک ایسی جنگ تھی جس نے ان قوتوں کو مات دی جو انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی،جمہوریت،روشن خیالی اورعوام کی ترجمانی کا گلا ہمیشہ کے لیے دبانا چاہتی تھیں،مگر آفرین اور شاباس اس تحریک کے پروانوں پر جن پر طرح طرح کا تشدد کیا گیا،ذہنی و جسمانی اذیتیں دی گئیں، انھیں کوڑے مارے گئے،جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے،قیدوبند کی صعوبتیں دی گئیں،مگر وہ ہرحال میں اپنی برادری کے حقوق کے مستقیم پیکر اور ملک کے پسے ہوئے طبقات کے ترجمان اور آواز ٹھہرے۔اور یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں بس فرصت کے لمحات میں تھوڑا سا وقت''سب سے بڑی جنگ''کو دینا ہوگا۔ جو 592صحفات پرمشتمل ایک تاریخی دستاویز اور نئی نسل کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔
لفظ تاثیر سے زندہ ہے تلفظ سے نہیں
اہل دل آج بھی ہیں اہل زباں سے آگے