میڈیا بھی خود کو احتساب کیلئے پیش کرے سپریم کورٹ

میڈیا کاموثر اورقابل عمل کوڈآف کنڈکٹ ضروری ہے،فریقین 27اگست تک تحریری جوابات پیش کریں،عدالت عظمیٰ


Sana News/Online August 01, 2012
سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے باعث مشترکہ تفتیشی ٹیم کا دورہ لندن ملتوی۔ فوٹو ایکسپریس

سپریم کورٹ نے سینئر صحافیوں حامد میر اورابصار عالم کی جانب سے میڈیا کااحتساب کمیشن قائم کرنے کیلیے دائر درخواستیں سماعت کیلیے منظور کرلیں، عدالت نے فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے 27اگست تک جواب طلب کر لیا اور قرار دیا ہے کہ میڈیاکو بھی احتساب کیلیے خود کو پیش کرنا چاہیے میڈیا کاموثر اور قابل عمل کوڈ آف کنڈکٹ ضروری ہے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم ایشو ہے ،معاشرے میں میڈیاکا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے عدالت نے درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ آج تک تمام چینلز کے مالکان کی فہرست عدالت میں پیش کر دی جائے تاکہ انھیںنوٹس جاری کیے جا سکیں ،پیمرا بھی ان درخواستوں پر اپنا جواب جمع کرائے ۔ دوران سماعت حامد میر اور ابصار عالم نے عدالت سے استدعا کی کہ ارسلان افتخار کے معاملے میں میڈیا کے کردار پربھی بہت سے سوالات نے جنم لیا اور کچھ صحافیوں کے بارے میں سوشل میڈیا سمیت تمام میڈیا پر پیسے لینے کا الزام لگایا گیا۔

جبکہ بحریہ ٹائون کے لیٹرپیڈ پرکچھ صحافیوں کی فہرست پیش کی گئی جن پرپیسے لینے کا الزام تھا،عدالت اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشن بنائے اور میڈیا مالکان کو بھی طلب کرے ، اس پر عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 27اگست تک ملتوی کر دی ۔ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو مقدمے میں فریق بننے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا کہ مقدمے میں پبلک نوٹس جاری کیا جائیگا تاکہ 18 کروڑ عوام میں سے کوئی کچھ کہنا چاہے تو وہ عدالت میں اپنا موقف تحریری طور پر پیش کر سکے۔

پیمرا کے لیگل ایڈوائزر نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا کے پاس الیکٹرانک میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق موجود ہے جس پر عدالت نے ان سے استفسار کہا کہ پیمرا نے 2ماہ کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں پر کس کس کے خلاف ایکشن لیا تو وہ جواب نہ دے سکے جس پر عدالت نے ان کی سخت سرزنش کی۔حامد میر کا کہنا تھا کہ عدالت ایسا قومی میڈیا کمیشن بنائے جو میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق بھی تیار کرے اور ٹی وی چینلز کے مالکان، اشتہاری ایجنسیوں سمیت اینکر پرسنز کی آمدن کے بارے میں بھی چھان بین کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں