نعتیہ کلام اور فلمی گلوکار
رمضان کے مہینے ہی میں ہم اس ریڈیو سے نعتیں، حمدیہ کلام اور تقریر وغیرہ سنا کرتے تھے
NEW DELHI:
ہمارا گھرانہ انتہائی مذہبی گھرانہ تھا۔ جہاں صبح وشام نماز اور روزے کی تلقین ہوا کرتی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک بہت ہی پرانا مرفی ریڈیو تھا جو صرف والد کے حکم پر چلتا تھا اور خبروں کے وقت ہی اس میں جان آتی تھی اور پھر چلی جاتی تھی۔ ہاں البتہ جب رمضان کا مقدس مہینہ آتا تھا تو اس پرانے ریڈیو کے مقدر بھی جاگ جاتے تھے، کیونکہ ہمارے گھر میں موسیقی کے پروگرام سننے کی ممانعت تھی ۔
رمضان کے مہینے ہی میں ہم اس ریڈیو سے نعتیں، حمدیہ کلام اور تقریر وغیرہ سنا کرتے تھے یا کبھی کبھی نعتیہ قوالی بھی سننے کو مل جایا کرتی تھیں۔ یہ میرے بچپن کے دن تھے۔ رمضان کے مہینے میں مشہورگلوکار محمد رفیع کی آواز میں ایک روزہ دار بچے کی کہانی بڑی مقبول تھی اوروہ محمد رفیع کی پرسوز آواز میں ہم بہن بھائی جب بھی سنتے تھے تو ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ وہ کہانی ہی کچھ ایسی تھی کہ جس میں ایک کمسن بچہ ماں باپ کے منع کرنے کے باوجود روزہ رکھ لیتا ہے اور پھر بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے، اﷲ کو پیارا ہواجاتا ہے۔ پہلے میں اس نظم کا کچھ حصہ آپ کی نذر کرتاہوں پھر اپنے کالم کو آگے بڑھاؤںگا۔ وہ نظم آج بھی مجھے میرے بچپن کی یاد دلاتی ہے۔
مشہور مدتوں سے حکایت ہے مومنو
رمضان کے مہینے کی برکت ہے مومنو
اور پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ کمسن بچہ ماں باپ سے چھپ کر سحری کرکے روزہ رکھ لیتا ہے اور پھر صبح ماں باپ سے کہتا ہے کہ آج اس نے بھی روزہ رکھا ہے۔ ماں باپ لاکھ منع کرتے ہیں وہ روزہ نہیں توڑتا ہے اور پھر بھوک پیاس کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ عین روزے سے کچھ دیر پہلے دم توڑ دیتا ہے۔ خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ اسی وقت دروازے پر ایک فقیر صدا لگاتا ہے، ہے کوئی جو مجھ روزہ دار کا روزہ کھلوائے۔
بچے کے غمگین اور آنسو بہاتے ماں باپ فقیرکو اندر گھر میں لاتے ہیں۔ فقیر کو ساری حقیقت بتاتے ہیں، فقیر آسمان کی طرف دیکھتا ہے پھر بچے کی لاش کے پاس کچھ پڑھتا ہے اور اﷲ کے حکم سے زندہ ہوجا جیسے ہی یہ جملے فقیر ادا کرتا ہے بچہ زندہ ہوجاتا ہے پھر فقیر اس بچے کا روزہ کھلواتا ہے، خود بھی روزہ کھولتا ہے اور گھر کے سارے لوگ بھی خوشی خوشی روزہ کھولتے ہیں یہ سارا قصہ ایک خوبصورت نظم کی صورت میں محمد رفیع کی آواز میں اس زمانے میں بڑا مشہور ہوا تھا۔
آج میرا دل چاہ رہا ہے کہ رمضان مقدس کی مناسبت سے ان نعتوں اور حمدیہ کلام کا بھی اپنے کالم میں تذکرہ کروں جو ہندوستان اور پاکستان کے نامورگلوکار اورگلوکاراؤں نے گایا ہے اور جس کلام کو بڑی شہرت حاصل رہی ہے اور سب سے زیادہ ایسا روحانی سرور سے لبریز یہ کلام محمد رفیع نے ہی گایا ہے۔ بڑی خوبصورت نعتیں گائی ہیں جو آج بھی سنیں تو دلوں کو گرماتی ہیں جیسے کہ یہ نعت
اگر کملی والے کی رحمت نہ ہوتی
تو قسمت کے ماروں کا کیا حال ہوتا
رسولِ خدا کا سہارا نہ ملتا
تو ہم بے سہاروں کا کیا حال ہوتا
یا پھر یہ مشہور نعت:
اگر مل گئی مجھ کو راہِ مدینہ
محمدؐ کا نقشِ قدم چوم لوں گا
یا پھر محمد رفیع ہی کی آواز میں یہ خوبصورت کلام:
شاہِ مدینہ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم
تم پہ نچھاور تم پہ فدا ہم صلی اﷲ علیہ وسلم
ایسی بے شمار نعتیں ہیں جو محمد رفیع نے گائی ہیں۔ محمد رفیع کے علاوہ گلوکارہ شمشاد بیگم نے بھی کئی بہت خوبصورت نعتیں گائی ہیں۔ ان میں سے ایک نعت تو آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ ہندوستان، پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار نشر ہوتی رہی ہے جس کے بول ہیں۔
پیغامِ صبا لائی ہے گلزارِ نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے، دربار نبیؐ سے
ہندوستان کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر نے بھی بہت سی نعتیں گائی ہیں اور انھیں بھی بڑی مقبولیت حاصل رہی ہے خاص طور پر یہ نعت ایک زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے بہت نشر ہوتی تھی۔
دل کی کشتی بھنور میں آئی ہے
کملی والے تیری دہائی ہے
اور پھر لتا منگیشکر کی گائی ہوئی وہ لازوال نعت جو اس نے ہدایت کار کے آصف کی فلم مغلِ اعظم کے لیے گائی تھی جسے شاعر شکیل بدایونی نے لکھا اور جس کی سحر انگیز دھن موسیقار نوشاد نے بنائی تھی۔ جس کے بول تھے:
اے میرے مشکل کشا فریاد ہے فریاد ہے
آپ کے ہوتے ہوئے دنیا مری برباد ہے
بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ
گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ
یہ نعمت فلم میں مدھوبالا پر فلمائی گئی تھی۔
بات فلمی نعتیہ کلام کی آگئی ہے تو پاکستانی فلم ''ایاز'' کی ایک نعت کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا ہے حالانکہ پاکستانی کئی فلموں میں نعتوںاور قوالیوں نے بڑی دھوم مچائی ہے، مگر فلم ''ایاز'' کی اس نعمت کا انداز اور رنگ ہی الگ ہے۔ تنویر نقوی نے بھی اپنے روحانی جذبات کو یکجا کرکے کیا اثر انگیز نعت لکھی ہے جس کا ایک ایک مصرعہ دلوں میں اترتا چلا جاتا ہے اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت سے سرشارکردیتا ہے۔ چند اشعار نذرِ قارئین ہیں۔
جو نہ ہوتا تیرا جمالہی
تو جہاں تھا خواب و خیالہی، صلو علیہ وآلہی
ماہ و مہر تیری روشنی
ہوئی ختم تجھ پہ پیمبری
نہیں تجھ سا تیرے سوا کوئی
کرے کون تیری برابری
یہ نہیں کسی کی مجال ہی صلو علیہ وآلہ
نہ فصیل ہے نہ محل سرا
تیرا فرش ہے وہی بوریا
ترے جسمِ پاک پہ اِک قبا
وہ بھی تار تار ہے جا بجا
تیری سادگی ہے کمال ہی۔ صلو علیہ و آلہی
تو خلیل ہے تو کریم ہے
تو رؤف ہے تو رحیم ہے
تو حبیبِ رب کریم ہے
تیری شان سب سے عظیم ہے
نہیں کوئی تیری مثال ہی۔ صلو علیہ و آلہ
اس نعتیہ کلام کو موسیقار خورشید انور نے بھی بڑے کشف اور جذب کے ساتھ خوبصورت دھن سے سنوارا ہے اور دھن کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہوئے صرف عربی ساز دف کا سہارا لیا ہے جس کے دل نشیں ردِھم نے اس نعت کے حسن کو مزید دوبالا کردیا ہے اور پھر گلوکارہ زبیدہ خانم اور ناہید نیازی کی آوازوں نے بھی اپنا جداگانہ سحر طاری کیا ہے، فلم ایاز کی اس نعت میں کئی نامور اداکاراؤں نے عکس بندی میں حصہ لیا تھا جن میں صبیحہ خانم، نیئر سلطانہ، نیلو اور زینت بیگم سرفہرست تھیں۔ یہ نعت اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ آج بھی کل کی طرح تر و تازہ ہے اور ہمیشہ یونہی رہے گی اس نعت کو جب بھی سننے کا موقع ملتا ہے یہ دل کو جگمگاتی ہے اور روح کو منورکردیتی ہے۔