ہماری نادانیاں

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ مغربی ممالک کی خواہش کے مطابق لڑی تھی


عثمان دموہی June 04, 2017
[email protected]

چین میں پاکستان کو ''ون بیلٹ ون روڈ'' کے عظیم منصوبے کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس میں جو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی تھی، ظاہر ہے اس سے استعماری طاقتیں بری طرح جل بھن گئی تھیں، چنانچہ ریاض کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ہماری حکومت کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اس کا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی۔

ریاض کانفرنس کا انعقاد چونکہ اسلامی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیا گیا تھا، چنانچہ اس میں کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں کہ اسے امریکا کے ایما پر نہ بلایا گیا ہو۔ دراصل ٹرمپ اسلامی ممالک کو براہ راست تنبیہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ ایران کا ساتھ چھوڑ دیں اور نافرمان اسلامی ممالک پر حملوں میں وہ بھرپور طریقے سے امریکا کا ساتھ دیں۔اس کانفرنس کے دعوت نامے ضرور سعودی حکومت نے تقسیم کے تھے مگر اس کا پورا ایجنڈا لگتا ہے امریکی محکمہ خارجہ نے ترتیب دیا تھا۔

اس کانفرنس کی ساری کارروائی حتیٰ کہ کسے تقریرکرنے دی جائے اورکسے نہیں، یہ بھی پہلے سے طے کردیا گیا تھا۔ چنانچہ میاں نواز شریف کو اگر تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو اس کی وجہ صاف ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف نہیں ہے اور بھارت کا سب سے بڑا مخالف ہے ۔چنانچہ واضح ہے کہ نواز شریف اپنی تقریر میں بھارت کے خلاف بولتے اور کشمیریوں کی آواز بلند کرتے جب کہ امریکی حکومت اس قسم کی کوئی بات اپنے حلیف بھارت کے خلاف سننے کی روا دار نہیں تھی۔

یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو فنا کرکے سب سے بڑی غلطی کی تھی۔ کیا دنیا کا کوئی ملک دوسروں کی خاطر اپنے ہزاروں فوجیوں اور لاکھوں شہریوں کی لاشیں اٹھانے اوراپنی معیشت کا دھڑن تختہ کرانے کی ہمت کرسکتا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ مغربی ممالک کی خواہش کے مطابق لڑی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا مغرب پاکستان کی اس بے مثال کارگزاری اور قربانی پر ہمیشہ احسان مند رہتا اور پاکستان کے کشمیر سمیت تمام مسائل کو آگے بڑھ کر حل کراتا مگر اس کے برعکس اس نے تو کھلی احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی بے حسی کی ایک جھلک سعودی عرب میں منعقدہ حالیہ سربراہی کانفرنس میں دیکھنے میں آئی۔

اس اسلامی کانفرنس کے مہمان خصوصی مسلمان دشمن ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ جنھوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران کھل کر اسلام بیزار تقاریر کی تھیں اور اپنی جیت کی صورت میں مسلمانوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور پھر الیکشن جیت کر ان پابندیوں پر عمل بھی کیا۔ موصوف کا صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلا حکم نامہ مسلمان ممالک سے امریکا میں داخل ہونے والے مسلمان خاندانوں پر پابندی سے متعلق تھا۔ وہ تو بھلا ہو وہاں کے عوام اور عدالتوں کا جو ابھی بھی احترام انسانیت کا ادراک رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے صدر کے اس مسلمان دشمن حکم نامے کو ماننے سے انکار کردیا اور اسے التوا میں ڈال دیا ہے ۔

ٹرمپ کے صدارتی الیکشن جیتنے پر متعصب امریکیوں نے خوب جشن منایا تھا مگر لاکھوں امریکی ان کے خلاف کئی ماہ تک سخت احتجاج کرتے رہے تھے۔ ریاض سربراہی کانفرنس اگر سعودی حکومت نے بلائی تھی تو پھر جانتے بوجھتے مسلمان دشمن امریکی صدر کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنا کیا معنی رکھتا تھا۔ اس اسلامی سربراہ کانفرنس میں ٹرمپ کی شرکت نے کئی سوال کھڑے کردیے ہیں۔ کیا سعودی حکومت تمام مسلمانوں کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔

ہر مسلم ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہے کوئی مغرب کے متعصبانہ اور خودغرضانہ رویے سے بیزار ہے اور وہ امریکا کے ساتھ نہیں چلنا چاہتا تو کیا سب کو ایک لکڑی سے ہانکا جاسکتا ہے اور امریکا کے آگے جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ اس کانفرنس کا مقصد دنیا کو دہشت گردی کے عذاب سے محفوظ بنانا تھا، مگر اس نے تو یہ تاثر چھوڑا ہے کہ یہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجائے مزید بڑھانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ ابھی تک داعش کا قلع قمع نہیں کیا جاسکا حالانکہ اسے ختم کرنا مغرب کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر وہ مسلمانوں کے اوپر مسلط کیے گئے اپنے عذاب کو بھلا کیسے جلد ختم کرکے مسلمانوں کو سکون مہیا کرسکتے ہیں۔

مسلمان ممالک میں ابھی تک شیعہ سنی کی تفریق سفارتی سطح پر موجود نہیں ہے۔ کچھ اسلامی ممالک آپس میں محاذ آرائی ضرور کر رہے ہیں مگر اس محاذ آرائی کی وجہ کو مذہبی فرقہ پسندی سے نہیں جوڑا جاتا، تاہم ریاض کانفرنس کے اعلامیے نے تو باقاعدہ یہ تاثر چھوڑا ہے کہ سنی ممالک شیعہ ممالک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ایران جو دہشت گردی کا اصل منبع ہے اسے تنہا کردیا جائے یعنی کہ سنی اور شیعہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوکر خود کو تباہ کرلیں تاکہ دشمنوں کے سازشی منصوبے کو وہ خود ہی کامیابی سے ہمکنارکردیں۔ دونوں مسلمان فرقوں کو باہم لڑانے کا اصل مقصد اسرائیل کو دائمی تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

محض اسرائیل کی سلامتی کی خاطر عراق، لیبیا اور شام کو پہلے ہی تباہ کردیا گیا ہے اب ایران کی باری ہے اور اس کے بعد شاید پاکستان کی۔ کیا مسلمان ممالک اتنے نادان ہوگئے ہیں کہ وہ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھنے سے ہی قاصر ہوگئے ہیں لیکن کہنا پڑے گا کہ کچھ ممالک تنگ نظری میں یا خوش فہمی میں دشمنوں کو اپنا دوست سمجھنے لگے ہیں اور ہماری یہی غلطی ہمیں ہمیشہ دشمنوں کے مقابلے میں شکست سے دوچار کرتی رہی ہے۔

ہمیں اپنی بقا کی خاطر دشمنوں کے نت نئے سازشی منصوبوں سے باخبر رہنا ہوگا۔ وہ ہماری غربت اور جہالت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں امداد کے چند سکوں میں پھانس کر ہم سے ہماری غیرت اور یکجہتی کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ گوکہ ہم مسلمان ہونے کے ناتے کسی سے بغض رکھنے کے روادار نہیں ہیں مگر ہمارے دشمن اپنے تاریخی بغض کو اب تک اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اب تو صلیبی جنگوں کو گزرے کئی صدیاں ہوچکی ہیں۔

ہم سب کچھ بھول چکے ہیں ہم نے انھیں اپنا دوست بنا لیا ہے مگر وہ اپنے وار سے کبھی نہیں چوکتے۔ کاش کہ ہم نے اپنی مقدس کتاب کے پیغام کو ہمیشہ مدنظر رکھا ہوتا تو شاید ہم اتنے مصائب میں نہ گھرتے۔ اس وقت مغرب کی یہودیوں سے بے مثال دوستی قائم ہے انھوں نے انھیں ایک ملک بھی بناکر دے دیا ہے مگر اپنی نہیں مسلمانوں کی سرزمین پر۔ فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک سے بے دخل ہونا پڑا ہے اور وہ آج در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ انھیں ایک ملک دینے کا وعدہ کیا گیا ہے مگر نہیں لگتا کہ اسلام دشمنی اسے کبھی پورا ہونے دے گی حالانکہ اب یہ بہت آسان ہے کیونکہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اردن اور شام کے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے ان پر ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے میں کیا قباحت ہے مگر مغرب کا یہ اصول ہے کہ مسلمانوں کو کبھی ان کا حق نہ دو انھیں ترساؤ اور تشدد پر ابھارو تاکہ ان پر عالمی دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا کر ذلیل و خوار کیا جائے۔

اگر مسلمانوں کے مسائل حل ہوجاتے تو مظلوم اور محکوم مسلمان کبھی کسی کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہ ہوتے۔ لگتا ہے مغربی ممالک نے اسرائیل اور بھارت کو یقین دلادیا ہے کہ فلسطینی اور کشمیری کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ پیش کردیں وہ ان کو آزادی دینے کے لیے انھیں مجبور نہیں کریں گے اور جو بھی ملک ان کے حق میں آواز اٹھائے گا اسے مل کر تباہ کردیا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے عراق لیبیا اور شام کو محض فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے پر تباہ کردیا گیا اورکشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان کو بھارتی دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ کیا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں