لندن میں حالیہ دہشت گردی

لندن میں انتہائی مختصرعرصے میں یہ ہولناک دہشت گردی کی دوسری واردات ہے


راؤ منظر حیات June 05, 2017
[email protected]

لندن دنیا کا خوبصورت ترین شہرہے۔ تاریخ کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ایک ایسا شہر جہاں ہرگلی اورمحلے میں صدیوں کے قصے آنکھ موندے سورہے ہیں۔ہرسال کروڑوں لوگ ذاتی،سرکاری کام یاچھٹیاں گزارنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ یہ شہرپورا برس سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے۔ تمام عجائب گھر، لائبریریاں، کیفے، آرٹ گھر، پب اور سڑکیں دنیا کے ہرملک کے باشندوں کوخوش آمدیدکہتے ہیں۔

لندن خوبصورت ترین شہراس لیے نہیں ہے کہ وہاں دنیا کی بہترین عمارتیں اورباغات ہیں۔ اس کی اصل خوبصورتی وہ نظام ہے جس کے تحت یہ شہریا پورا برطانیہ سانس لے رہا ہے۔اگردنیامیں حقیقی طورپرکہیں جمہوری رویے ہیں تویہی ملک ہے۔کہیں، غیرمتعصب طریقے سے ترقی کرنے کے مواقع ہیں،تووہ یہی شہرہے۔برطانیہ مکمل طورپرایک فلاحی ریاست ہے جہاں وزیراعظم اورعام آدمی کے حقوق میں کسی قسم کاکوئی فرق نہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ وہاں اپنی نوعیت کے مسائل اورجرائم موجود ہیں۔ مگرمجموعی طورپریہ ایک پُرامن شہرہے۔ فکری،سماجی اورمذہبی آزادی کوریاستی امورکاحصہ بنانے میں برطانیہ تمام قوموں سے آگے ہے۔ یہ نہیں کہ ان جیسے ممالک نے دنیا کے کمزورقوموں پرظلم یا زیادتیاں نہیں کیں، بالکل کی ہیں۔مگرپچھلے دوسوسال میں برطانیہ اورچندمغربی ممالک نے اپنے نظام کوانسانی نفسیات کومطمئن کرنے کے بنیادپرتشکیل دیاہے۔آپ جو مرضی کرنا چاہیں، کسی کونقصان پہنچائے بغیرکرسکتے ہیں۔ جب تک آپ کی وجہ سے کسی کوکوئی مسئلہ نہیں،آپ آزاد ہیں۔

مقصد لندن کے لیے کوئی قصیدہ لکھنا نہیں ہے۔ مقصد بالکل سادہ ساہے۔ایک دن پہلے لندن برج پرتین دہشت گردوں نے اپنی ویگن سے متعدد لوگ کچل ڈالے۔پل سے اُترکرعام لوگوں پرچاقوؤں سے حملہ کردیا۔چھ بندے بے موت مارے گئے۔ ٹھیک آٹھ منٹ میں پولیس نے ان تینوں کوکیفرکردارپرپہنچادیا۔جس وقت میں کالم ضبط تحریر کر رہاہوں،لندن پولیس نے اعلان نہیں کیاکہ تینوں دہشت گرد کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں ۔دعاہے کہ ان کاتعلق کسی بھی طریقے سے ہمارے خطے سے نہ ہو۔ تمناہے کہ ان کا تعلق کسی بھی مسلمان ملک سے نہ ہو۔مانچسٹرکی طرح یہ لیبیا نژاد نوجوان بھی نہ ہو۔

لندن میں انتہائی مختصرعرصے میں یہ ہولناک دہشت گردی کی دوسری واردات ہے۔ چندہفتے قبل،مانچسٹرمیں ایک میوزک کنسرٹ کے دوران ایک دھماکا ہوا۔درجنوں لوگ مارے گئے۔سیکڑوں زخمی ہوگئے۔اوراب لندن برج پریہ حادثہ ہواہے۔اس سے پہلے فرانس،ہالینڈاورکئی یورپی ملکوں میں دہشت گردی کے متعددواقعات ہوچکے ہیں۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان میں مسلمان نوجوان ملوث نکلے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے اوراب شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایساکیوں ہورہاہے ۔ایک کالم میں موضوع کو سمیٹناناممکن ہے مگرچندسنجیدہ نکات پیش کیے جاسکتے ہیں۔

سائنس اورجدیدعلوم سے مسلمانوں کاگہراربط تھا۔ گیارہ سے بارہ صدیاں پہلے مسلمان معاشرے وہ سماج تھے جہاں نئی چیزسوچنے پرکسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ سائنسدان،محقق،تاریخ دان،علماء اورہرموضوع پراہل فکراور اہل نظرصرف اورصرف ہم لوگوں میں ہی تھے۔ وجہ وہ فکری آزادی تھی جوصرف اورصرف مسلمان ریاستوں میں میسر تھی۔یہ صورتحال سات سوقبل تک جاری وساری رہی۔اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ دنیاکے دیگرممالک اس زمانے میں ذہنی آزادی کے مکمل طورپرخلاف تھے۔یہی وہ وقت تھا جب وہاں پوپ کے حکم سے بادشاہ بنتے تھے۔

پادری کے حکم سے نیلی آنکھوں والی خواتین کوجادوگرنی قراردے کرزندہ جلادیا جاتا تھا۔ یعنی اس وقت مغرب میں کسی قسم کی کوئی مذہبی یافکری آزادی کاتصورموجودنہیں تھا۔یہ سلسلہ سات آٹھ سوسال پہلے ختم ہوگیا۔مسلمان معاشروں میں تقلید، قدامت پسندی اورجدیدعلوم سے لاتعلقی کارجحان پیدا ہوگیا۔ نتیجہ میں تمام مسلمان ریاستیں کسی نہ کسی طرح مغلوب ہوگئیں۔ وہی جہالت جو مغرب کاطرہِ امتیازتھی،تیزی سے مسلم معاشروں میں سرایت کرگئی۔جدیدعلوم سے کافی حد تک کنارہ کشی آج بھی مسلمان معاشروں میں کسی نہ کسی صورت میں موجودہے۔

اس اثناء میں یورپ میںRenaissanceشروع ہوگئی۔اس فکری انقلاب نے صنعتی انقلاب کوجنم دیا۔یورپ ایجادات،رویوں اورعلمی تحقیق میں اسی ڈگرپرچل پڑا،جس راستے پرمسلم معاشرے چل رہے تھے۔فکری،علمی اور سائنسی بالادستی نے مغرب کوپوری دنیاکی حکومت عطا کر دی۔یعنی وہ حیثیت جوپہلے مسلمانوں کوحاصل تھی،بعینہ وہی کلیدی حیثیت یورپ کوحاصل ہوگئی۔مسلم ریاستیں اس بالادستی کوذہنی طورپرقبول نہ کرپائیں۔ غلام یانیم غلام مسلم معاشروں میں مغرب سے نفرت کی ذہنی جہت آگے بڑھنے لگی۔اس کو مہمیزہمارے اس دینی طبقہ نے دی جومسلمانوں کے عروج میں اس اہمیت کامالک نہیں تھا،جواسے مغلوب ریاستوں میں ایک دم حاصل ہوگیا۔

یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔برصغیرمیں اسی ذہنی جمودنے مسلمانوں کومکمل طورپرتباہ کردیا۔بادشاہت توخیرچلی ہی گئی۔مگرمستقبل میں کیاکرناچاہیے اس پرجدیدرائے دینے والاکوئی نہ تھا۔ سر سید وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے جمود کو توڑنے کی علمی جدوجہدکی۔برصغیرمیں وہ ایک علمی انقلاب کے بانی بنے۔ انھیں ہمارے قدامت پسندحلقوں نے بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا۔مگرعلی گڑھ کالج اوریونیورسٹی وہ پہلی درسگاہ تھی جس میں برصغیرکے مسلمانوں لڑکے اورلڑکیوں کوجدید مغربی علوم سیکھنے کاموقعہ ملا۔اس سے پہلے تعلیم بہت محدود نوعیت کی تھی اوراس پرایک خاص چھاپ موجودتھی۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ اگرعلی گڑھ کاعظیم تعلیمی ادارہ نہ ہوتا، تو پاکستان جیساعظیم ملک وجودمیں نہیں آسکتا تھا۔ اس کا ایک اورفائدہ یہ ہوا،کہ برصغیرکے مسلمانوں میں جدید اور قدیم رائے والے لوگوں نے توازن کے ساتھ زندہ رہناسیکھ لیا۔ شروع کاپاکستان اسی توازن کی بہترین مثال تھا۔لیکن تمام مسلم معاشرے ہمارے ماضی جیسے خوش قسمت نہیں تھے۔ جب دنیاکی مقتدرطاقتوں نے محسوس کیاکہ پاکستان عالم اسلام کے لیے جدیدفکری رہنمائی کرسکتاہے توایک خاص طریقے سے ملک کوخانہ جنگی،افغان جہاداورفکری زوال میں مبتلاکردیاگیا۔یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔

بھول جائیے کہ ہمارے معاشرے کوکس نے برباد کیا۔مگرحقیقت تواپنی جگہ قائم ہے کہ ہم اپنی مرضی سے بربادی اورتقلیدکے اس راستے پرگامزن ہوگئے جس میں نئی بات کہنے کوجرم قراردیدیاگیا۔ہمارے خطے میں مجاہدین، جہادی، طالبان اورالقائدہ کے بیج بوئے گئے جوآج پوری دنیامیں پھیل چکے ہیں۔کسی حدتک ملایشیا، متحدہ عرب امارات،مراکش اورگنتی کے چندمسلم ممالک میں جہاں دین اوردنیامیں توازن پیداکرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔

اکثریت مسلم ریاستیں سنجیدگی سے مسئلہ کاادراک ہی نہ کر پائیں۔ان کے نوجوان طبقے میں ناانصافی، بیروزگاری، جہالت اورغربت کی وجہ سے آج دہشت گردی کی فصل پوری دنیامیں پھل پھول رہی ہے۔مغرب ابھی تک معاملہ کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا۔یاشائدچندمجبوریوں کی بدولت وہاں کی حکومتیں کھل کربات نہیں کررہیں ۔مگرایک نیامغربی استدلال جنم لے رہاہے۔یہ استدلال انتہائی سادہ سا لگتا ہے۔

مغربی اہل فکرسوال پوچھ رہے ہیں کہ اگراسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے،توتمام دہشت گرد صرف مسلمان ہی کیوں ہیں۔نتیجہ یہ کہ مغربی ممالک میں سخت گیرقوم پرست تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ابھی تک تمام مسلمان دنیا اس بات کاادراک ہی نہیں کہ فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، ڈنمارک اوراس جیسے کئی ممالک میں قومی حالات کس قدرسخت گیر ہوچکے ہیں۔وہاں رہنے والے مسلمان اندرونی خوف کاشکارہیں۔جیسے ہی دہشت گردی کی کوئی نئی واردات ہوتی ہے، ان کا خوف مزید جڑپکڑ جاتاہے۔

اب صورتحال مزیدمشکل ہوتی جارہی ہے۔مسلمان دنیاکے نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کومغربی ممالک کے ویزے ملنے مشکل ہوچکے ہیں۔تکلیف دہ اَمر یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمان کسی طریقے سے بھی مقامی معاشروں میں توازن سے ضم نہیں ہوپائے۔پچاس برس پہلے امریکا، لندن،آسٹریلیااورمغربی ممالک میں جانے والے لوگ کسی اورسوچ کے حامل تھے۔مگروہاں آج کی نوجوان نسل ایک شدیدذہنی تشنج کاشکارہوچکی ہے۔گھرآتے ہیں تومعاملات اور ہیں۔ باہرجاتے ہیں توسماجی رویے بالکل متضاد ہیں۔ اس ذہنی کشمکش کاشکارنوجوان تعلیم سے بھی دورہوتے جا رہے ہیں اوربڑی آسانی سے شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جوانھیں دہشتگردی کی طرف مائل کرلیتے ہیں۔

لندن اورمانچسٹرکے حالیہ واقعات کے بعد صورت حال تیزی سے تبدیل ہوگی۔مسلمان مخالف جذبات شدت سے ابھریںگے۔وہ تمام ملک جن میں ترقی کرنے کے برابرمواقع موجودہیں،آہستہ آہستہ مسلمان نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے لیے دروازے بند کرتے چلے جائینگے۔امریکا اوربرطانیہ میں ہمارے مزدورگئے تھے۔محنت،مشقت بلکہ ریاضت سے انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں کوترقی کے راستے دکھائے۔جواب دیجیے،کیالندن کامیئرصادق خان، ہمارے جیسے ملکوں میں کوئی بااثرعہدہ حاصل کر سکتا ہے۔کیا بیرنس سیدہ وارثی اپنی محنت سے پاکستان میں اتنی ترقی کرسکتی تھی۔دلیل پرجواب نفی میں ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں توغریب یامتوسط طبقے کاکوئی انسان مثالی ترقی کرہی نہیں سکتا۔مغرب میں مسلمانوں کے لیے ترقی کے دروازے بندہوتے نظر آرہے ہیں۔اس کے ذمے دارکون لوگ ہیں،اسکاجواب ہمیں اپنے اندرتلاش کرناچاہیے۔شائدہم سچ تک پہنچ پائیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں