مشرق وسطیٰ کی صورتحال
اب صورت حال یہ ہے کہ قذافی سمیت تمام اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
DOHA:
ایران نے کہا ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں دہشتگردوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کو محض ایک شو قرار دیا اور ریاض کانفرنس کے بارے میں کہا کہ اس کی کسی بھی قسم کی عملی اور سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا عرب ممالک کو اسلحہ بیچنے کے لیے ایران فوبیا میں مبتلا کر رہا ہے۔
صدر روحانی کے مطابق اس وقت امریکا اور ایران کے تعلقات ایک مشکل راستے پر ہیں۔ ایرانی صدر نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا علاقائی استحکام ایران کے بغیر بحال نہیں ہو سکتا اور نہ خطے میں امن ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران یہ جاننے کا منتظر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ آخر چاہتی کیا ہے۔
ادھرعمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو غیر جانبدار ہوکر مسلم دنیا میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں نائن الیون سے سبق سیکھ کر کسی کے خلاف فریق نہیں بننا چاہیے۔ نواز شریف سعودی عرب میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ملک کی نمایندگی کررہے تھے۔ انھیں کہنا چاہیے تھا کہ پاکستان یہ نہیں چاہتا کہ ایران کو تنہا کیا جائے اور اگر کچھ کہنا نہیں تھا تو گئے کیوں؟
سعودی عرب میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ اسی حکمت عملی کا تسلسل ہے جس کا آغاز 1979ء میں ایران میں شاہ ایران کے اقتدار کے خاتمے سے ہوتا ہے ۔ تقریباً چالیس سال گزرنے کے باوجود ایران کو محدود کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔ امریکا اور یورپ نے سب جتن کیے کہ ایران گھٹنے ٹیک دے۔ یہاں تک کہ عراقی صدر صدام کے ذریعے ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کی گئی جس میں دونوں طرف لاکھوں لوگ کام آئے اور کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس جنگ کے باوجود ایران مضبوطی سے اپنے قدموں پر کھڑا رہا۔پھر جب صدام حسین نے کویت پر چڑھائی کی تو امریکی سرپرستی میں 19 ملکی عرب اتحاد بنا جس نے نہ صرف صدام حکومت کا خاتمہ کردیا بلکہ صدام حسین اور ان کے ساتھیوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔
مشرق وسطیٰ میں اس وقت کھیل کیا کھیلا جارہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کے پچھلے چالیس سال میں وہ تمام قیادتیں جو اسرائیل دشمن اور فلسطینیوں کی مددگار تھیں ان کا نہ صرف خاتمہ بلکہ عبرتناک انجام سے دوچار کردیا گیا کیونکہ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی پشت پناہی کررہی تھیں۔ اب امریکا اور اسرائیل کا آخری ہدف شام کا بشارالاسد، لبنان کی حزب اللہ اور ایران ہیں۔
ہیلری کلنٹن جو سابق امریکی صدر اوباما کی پہلی مدت صدارت میں امریکی وزیر خارجہ تھیں نے ایک بار کہا تھا کہ اب بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہماری پہلی ترجیح ہے اس کے بعد اسرائیل مشرق وسطیٰ میں محفوظ ہوجائے گا۔ جب سے اسرائیل کا وجود عمل میں آیا ہے امریکی سامراج کی ایک ہی پالیسی ہے کہ ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈا استعمال کرکے مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی بادشاہت یقینی بنائی جائے اور اس کی مخالف قوتوں کا خاتمہ کردیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب بہار نے مشرق وسطیٰ میں کئی آمریتوں کا خاتمہ تو کیا لیکن عرب بادشاہتوں پر آنچ نہ آئی۔ مشرق وسطیٰ میں آمریتوں اور بادشاہتوں کے سوا کچھ نہیں ۔چنانچہ بشارالاسد آمریت کو بھی ختم کرنے کے لیے امریکا اسرائیل اور اس کے عرب اتحادیوں نے شام میں باغی اور جنگجو عناصر جمع کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ہر طرح کا اسلحہ ٹریننگ اور مالی مدد مہیا کی گئی لیکن 6 سال گزرنے کے باوجود بشار حکومت قائم ہے۔ صرف اس لیے کہ روس اور ایران اپنے مفادات کے لیے میدان میں آگئے۔
امریکی پالیسی تو شام میں اس درجہ ناکام ہوئی کہ امریکا نے اوباما دور میں خود روس سے درخواست کی کہ وہ شام کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے آگے آئے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو القاعدہ اور داعش کا شام پر قبضہ ہوجاتا کیونکہ وہ باغی جو امریکا نے بشار حکومت کے خاتمے کے لیے کھڑے کیے تھے وہ ناکاکام ہوگئے تھے۔ ایران نے اس لیے شامی حکومت کی مدد کی کہ امریکا سمیت دیگر ایران مخالف قوتوں کے شام پر قبضے کی صورت میں ایران کے گرد گھیرا باآسانی ڈالا جا سکتا تھا۔ اس طرح حماس اور حزب اللہ کی بھی قوت کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ قذافی سمیت تمام اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے، سوائے بشار حکومت کے۔ شامی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا کا وہ ایجنڈا مکمل ہوجائے گا جس کے لیے وہ 70 سال سے جدوجہد کررہا ہے۔ امریکا عرب اسلامی کانفرنس اسی آخری ٹارگٹ کے حصول کے لیے منعقد کی گئی۔ جس کے بعد مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کا خطہ مکمل طور پر امریکی پالیسی کے تحت آجائے گا۔ اس مقصد کا حصول 39 ملکی فوجی اتحاد کے ذریعے کیاجائے گا۔
سعودی عرب اور پاکستان مشرق وسطیٰ کی امریکن پالیسی میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسٹرٹیجک فیصلے امریکا کی مرضی کے بغیر طے نہیں پاسکتے۔ 39 ملکی اسلامی فوجی اتحادکے پیچھے بھی امریکا تھا جس کی تصدیق حالیہ امریکا عرب اسلامی کانفرنس میں ہوگئی ہے۔ اس سال کے شروع میں میں نے اپنے انھی خدشات کا اظہار کیا تھا اور دعا کی تھی کہ اللہ کرے میرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں۔
امریکا عرب اسلامی کانفرنس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ابھی لمبے عرصے تک کنٹرولڈ ڈیموکریسی پاکستان کا مقدر ہے کیونکہ امریکا اور عرب بادشاہتوں کا مفاد اسی میں ہے۔ 70 سال ہوگئے ہیں پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں آئی نہ ہی مستقبل میں آنے کی کوئی امید ہے۔اس لیے پاکستان میں نہ سرداری نظام ختم ہوگا اور نہ ہی جاگیردارانہ نظام۔ پاکستان میں مذہبی جنونیت، شدت پسندی کو مزید بڑھاوا ملے گا ۔
...ریاض کانفرنس کے نتائج جون کے آخر سے ستمبر کے درمیان آنے شروع ہوجائیں گے۔