اپوزیشن اور بے مقصد تصادم

قوم کے لیے تو اپوزیشن اور برسر اقتدار لوگ ایک نہیں ہوتے


م ش خ June 05, 2017

عوام اس ملک میں رہنے والے افسروں اور عوامی نمایندوں کی قابلیت اور صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے قبلے کا تعین کرلیا ہے۔ سویلین افسران اور وہ نمایندے جنھیں آپ کندھوں پر بٹھا کر اسمبلی کا دلہا بناتے ہیں، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مصلحت کی چادر اوڑھ کر مفادات کی لکیریں گن رہے ہیں، اور قوم یہ سوچ رہی ہے کہ خواہشات کی رسی کتنی دراز ہوگی؟

اپوزیشن کے پاس شور مچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے اور وہ اپنے ووٹر کو یہ باور کراتی ہے کہ تمہارے مفادات کے لیے ہم نے جان کی بازی لگا دی ہے۔ جو برسر اقتدار ہیں وہ سوچتے ہیں کہ جب ہم اپوزیشن میں آئیں گے تو گن گن کر بدلے لیں گے، فی الحال تو موج کرو۔ اپوزیشن عوام کی طرف سے بے مقصد تصادم کرکے اپنا اظہار رائے کرتی رہتی ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ الیکشن کے زمانے میں یہ کس منہ سے ووٹر کے پاس جائے گی۔

اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا فقدان ہے، ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے گاؤں اور دیہاتوں میں تعلیمی ڈھانچے کو تہس نہس کرکے رکھا، جس کی وجہ سے وہاں کے عوام تعلیمی شعور سے ناآشنا رہے اور ان معصوم لوگوں کی وجہ سے وہاں رہنے والوں کے ووٹوں کی مقناطیسی کشش کے تحت یہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں، شہر میں جو لوگ ہیں وہ یا تو ووٹ نہیں ڈالتے یا ڈالتے ہیں تو سیاسی فہم و فراست کے تحت، جن کی زندہ مثال کراچی کی ہے۔

2013ء کے الیکشن میں یہاں کے لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیے، 25 سال کے بعد ایک تبدیلی آئی کہ اس شہر سے پی ٹی آئی کے امیدوار اسمبلیوں میں پہنچ گئے، مگر عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے لوگوں کی آواز موثر طریقے سے اسمبلی میں نہ اٹھا سکے اور نہ اچھی اپوزیشن کرسکے۔ پھر جب وہ بلدیاتی الیکشن کا رخ کرنے پاکستان کے شہروں کی طرف آئے اور کراچی سرفہرست تھا تو تعلیم یافتہ اکثریت نے انھیں 2013ء والے ووٹ نہیں ڈالے۔ مدمقابل امیدوار بھی کوئی بہت بھاری اکثریت سے نہ جیت سکے اور وہ تعلیم یافتہ طبقہ ووٹ ڈالنے گیا ہی نہیں۔ یہ جو کچھ عذاب اس قوم پر آرہا ہے، وہ صرف اور صرف اس لیے کہ معصوم اور سادہ عوام جو دیہاتوں میں رہتے ہیں، ان کی وجہ سے یہ پھر اسمبلیوں میں پہنچ کر شادیانے بجاتے ہیں، اور پھر مسائل اپنی جگہ رہتے ہیں۔

قوم کے لیے تو اپوزیشن اور برسر اقتدار لوگ ایک نہیں ہوتے، ہاں سیاست کرنے کے لیے اپوزیشن اپنا کردار برابر ادا کرتی ہے، جو مصنوعی ہوتا ہے۔ جب اسمبلی ممبران کی مراعات کی بات ہوتی ہے تو یہ عوامی مفادات پس پشت ڈال کر ایک ہوجاتے ہیں۔ یہاں تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے ان کی قلعی کھل جاتی ہے کہ چاچا، ماما ایک ہوئے۔ کسی اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی مراعات کے حوالے سے کبھی یہ نہیں کہا کہ اتنی مراعات پر ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگی۔ آج کل اپوزیشن کے پاس کوئی موضوع نہیں تھا کہ بجٹ کا اعلان ہوگیا اور ان سب کی لاٹری نکل آئی کہ شکر ہے ایک ماہ کا راشن تو مل گیا، کیونکہ پاناما لیکس کا معاملہ برف ہوا۔

بجٹ میں کچھ اہم نکات ہیں، اس پر نظر ڈالیں۔ دودھ مہنگا کردیا گیا، یہ دودھ چھ ماہ کے بچے سے لے کر عمر رسیدہ فرد تک کے لیے زندگی میں بہت ضروری ہے، اور اب دودھ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی، جس کے سدباب کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوگا۔ پولٹری اور اسمارٹ فون سستے کردیے گئے، مرغی اب بھی مہنگی فروخت ہوگی، کچھ دن کی بات ہے پھر یہ گائے کے گوشت کی قیمت میں فروخت ہوگی۔ اسمارٹ فون کا غریب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

روزمرہ کی اشیا پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 3.5 سے کم کرکے 2.5 کردیا گیا ہے، جب کہ وزیر خزانہ عام آدمی سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٹیکس ہر شہری کو دینا چاہیے، یہ حب الوطنی کی نشانی ہے، مگر عوام کو ریلیف بھی دیا جائے۔ قانون اپنی موت مر چکا، ہر جگہ لاقانونیت کے بادلوں نے بسیرا کر رکھا ہے، جو ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں دیتے وہ بھی لاقانونیت کے تحت زندہ ہیں۔

850 سی سی گاڑیوں پر عائد ٹیکس 10 ہزار سے کم کرکے 7500 روپے، 1000 سی سی کی گاڑیوں پر عائد شرح 20 ہزار سے کم کرکے 15 ہزار روپے کردی گئی۔ 1300 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح 30 ہزار سے کم کرکے 25 ہزار روپے کردی۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں غریب کا ان ٹیکسوں سے کیا واسطہ؟ مراعات یافتہ طبقے کو اور مراعات دے دی گئیں۔ پولٹری کی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کرکے 7 فیصد کردیا۔ بتائیے 10 فیصد کی چھوٹ سے ہمارے کرتا دھرتا سمجھتے ہیں کہ مرغی کی صنعت پر بہت بڑا انقلاب آئے گا۔ یاد رکھیں مرغی کی قیمتیں پھر بھی کم نہیں ہوں گی، کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کرنے والے ادارے اپنی مستی میں مست ہیں۔

حکومت کچھ بھی کرلے چیک اینڈ بیلنس کا نظام تباہی کے کنارے لگ چکا ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر 14 کروڑ روپے کی اضافی گرانٹ مانگی گئی ہے، جس میں صدر پاکستان شامل ہیں، جو وزیراعظم اور غیر ملکی سربراہوں کے لیے استعمال کی جائے گی۔ یہاں اس ملک میں 3 ہزار کے موبائل کے لیے گھروں کے چراغ بجھا دیے جاتے ہیں، قاتل پھر بھی گرفتار نہیں ہوتے، عوام کی سیکیورٹی ان کو نظر نہیں آرہی، لوگ روز مرتے اور زخمی ہوتے ہیں۔

پنشن کی مد میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو شخص 5 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا اس کی تنخواہ میں 10 فیصد کی کیا حیثیت ہے۔ ایک عمر رسیدہ صاحب نے مجھے بتایا کہ مجھے 14000 ہزار پنشن ملتی ہے، اب اس دس فیصد کے اضافے سے انھیں 1400 روپے بڑھ کر ملیں گے۔ مہنگائی کا جن غربت کے مارے عوام کی رگوں میں رچ بس گیا ہے یعنی اب ان کو 15,400 روپے ملیں گے۔ وزیر خزانہ بتائیں کہ آپ اس رقم میں کیسے گھر چلا سکتے ہیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

کچھ دن بجٹ کا شور ہوگا، اپوزیشن انتظار میں ہے کہ کب نیا شوشہ میدان میں آئے تاکہ قوم کے لیے پھر اس پروجیکٹ پر کام کیا جائے کیونکہ 2018ء کے الیکشن سر پر ہیں، جتنے بھی صبر کے نسخے ہیں وہ ان عمر رسیدہ لوگوں پر آزمائے جاتے ہیں۔ یہ عمر رسیدہ لوگ ایک خاموش اور صبر کرنے والا طبقہ ہے، یہ صرف آبدیدہ ہوکر اس کھوکھلے معاشرے کی خدمت کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے لیے ایک بجٹ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیا، مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کا شمار شاید پاکستانی عوام میں نہیں ہوتا یا پھر وہ اس اہمیت کے قابل نہیں تھے۔ EOBI پنشنرز اس بجٹ میں ایسے رہے، جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے۔

یہ عمر رسیدہ افراد (پنشنرز) اس اضافے سے محروم رہے۔ شاید اس بجٹ کے بعد مہنگائی کو بریک لگ جائے گا یا لگام دے دی جائے گی۔ بھلا بتائیے 5,250 روپے لینے والوں کو شاید وزیر خزانہ نے حقیقی امیر یا پھر مفلس سمجھ کر نظرانداز کردیا۔ ای او بی آئی ممبران نے ساری عمر اپنی تنخواہ سے ایک خطیر رقم حکومت پاکستان کو دی ہے اور اس بجٹ میں انھیں نظرانداز کیا گیا تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ٹیکس اس ملک میں غریب دیتا ہے اور عیاشی بیورو کریٹ، سیاستدان اس مد میں کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں