ہم فطرتاً شوریدہ صفت واقع ہوئے ہیں
نہال ہاشمی کے پاس پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا تھا
مسلم لیگ (ن) کے پر جوش جیالے کارکن نہال ہاشمی مسلم لیگ (ن) کے اُن چند وفادار کارکنوں میں سے ہیں جنہوں نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی پارٹی اور اپنے لیڈر کا ساتھ نہیں چھوڑا۔جنرل مشرف کے دور میں بھی وہ مردانہ واراپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کی حمایت میں جتے رہے۔ ڈکٹیٹر کی تمام صعوبتیں اور مصیبتیں برداشت کرتے رہے۔ تعلق کراچی سے ہونے کی وجہ سے وہ صوبہ سندھ میں کوئی خاطر خواہ انتخابی کامیابی تو حاصل نہ کرسکے کیونکہ یہاں صرف دو پارٹیوں کا ایک لمبے عرصے سے راج رہا ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا یہ علاقہ بہت بڑا گڑھ رہا ہے۔اِن دونوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی اور سیاسی پارٹی دو چار سیٹوں سے زیادہ مینڈیٹ حاصل ہی نہیں کرپاتی۔
ایسے میں نہال ہاشمی کے پاس پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ پنجاب سے سینیٹر منتخب ہوکر قوم کی خدمت کریں۔لہذاکراچی شہر سے تعلق رکھنے والے نہال ہاشمی اور مشاہداللہ خان دونوں یہ آسان راستہ اختیارکرکے سینیٹ میں پہنچ گئے۔ میاں نواز شریف اپنے چاہنے والوں کو نوازنے میں بہت مشہور ہیں۔جن جن لوگوں نے اُن کے لیے قربانیاں دی ہیں یامشکل اورکٹھن وقت میں ثابت قدمی سے ساتھ نبھایا ہے وہ اُنہیں جب جب موقعہ میسر آتا،نوازنے میں لمحے بھر کی دیر نہیں کرتے۔ ممنون حسین بھی آج اگر ایوانِ صدر میں براجمان ہیں تو اِسی محبت کے نتیجے میں۔ اِسی طرح سابق جسٹس سعیدالزمان صدیقی بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اگر گورنر سندھ کے عہدے سے متمتع ہوتے رہے تو وہ بھی میاں صاحب کی ایسی ہی نگاہ کرم کی وجہ سے ممکن ہوپایا۔اگر یہ کہا جائے کہ سابق صد رفیق تارڑ بھی میاں صاحب کی محبت ہی کی بدولت ایوان صدر کی زینت بن پائے تھے تو غلط نہ ہوگا۔
میاں صاحب سے محبت کرنے والے ویسے تو بے شمار ہیں لیکن اُن میں سے کچھ لوگ اُن سے اظہار محبت میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ وہ خود میاں صاحب کے لیے خفت و پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب سے پاناما کیس منظرِ عام پر آیا ہے میاں صاحب کی یہ مدح سرا اورجانثار روزانہ کی بنیاد پر اُن کی قصیدہ خوانی کا فرض سرانجام دے رہے ہیں۔ اِن میں محمد حنیف عباسی، مریم اورنگ زیب، دانیال عزیز، طلال چوہدری، سعد رفیق، پرویز رشید اور مشاہداللہ خان بہت نمایاں ہیں۔ یہ تمام لوگ جوش جذبات میں کبھی کبھار کچھ غیر ذمے دارانہ باتیں بھی کہہ جاتے ہیں، لیکن ابھی حال ہی میں نہال ہاشمی یوم تکبیرکے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں جوکچھ کہہ گئے وہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اُنہیں اگر جے آئی ٹی کے کچھ ارکان سے شکایات بھی تھی تو بھی اُنہیں شائستگی اور بردباری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ اُنہیں شاید قطعی احساس نہیں کہ اُن کی اِس حرکت سے اُن کی پارٹی اور خود اُنہیں کس قدر نقصان اُٹھانا پڑا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو بالواسطہ طور پر ہدف تنقید بناتے ہوئے وہ انتہائی گر جدار اور آقایانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے نجانے کیا کیا اول فول بول گئے۔ ناملائم اور درشت انداز میں بے دریغ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے وہ تمام آئینی اور قانونی حدوں کو پارکرگئے۔ تھوڑی دیر کے لیے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا لائق اورسمجھدارشخص ایسی باتیں بھی کہہ سکتا ہے۔
اُن کی یہ تقریر دیکھ کر ہمیں آصف علی زرداری کی وہ تقریر یاد آگئی جس کے بعد انھیں فوراً دبئی روانہ ہونا پڑا تھا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو آج جس طرح دھمکا اور ڈرایا گیا بالکل اُسی طرح آصف علی زرداری نے بھی سابق آرمی چیف راحیل شریف کو اپنی شعلہ بیانی سے خوب ہدف ِ تنقید بنایا تھا۔اُن کے وہ الفاظ آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ''ہمیں نہ چھیڑو، تمہیں تو تین سال رہنا ہے ، ہمیشہ کے لیے ہمیں رہنا ہے، ہم تمھاری اینٹ سے اینٹ بجادینگے۔'' اگر دیکھا جائے تو آصف علی زرداری اور نہال ہاشمی دونوں کی تقریروں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف الفاظ کہنے والے اور سننے والے کا۔ زرداری صاحب ہمارے انتہائی معتبر اور مقدس ادارے کے سربراہ کو براہ راست کھری کھری سنا رہے تھے جب کہ نہال ہاشمی جے آئی ٹی کے اُن سویلین افسروں کو ڈرا اور دھمکا رہے تھے جن کی غیر جانبداری پر اُنہیں تحفظات تھے۔زرداری صاحب بالآخر ایک بڑی حیثیت اور جاندار شخصیت کے مالک ہیں اور وہ اِس ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اِس لیے اُن کی باتوں کو کسی نے برا نہیں مانا اور وہ تقریبا ایک سال سے زاید کا عرصہ دبئی میں گزار کر بخیرت وسلامت واپس بھی آگئے، مگر نہال ہاشمی کو تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے سارے اینکروں نے خوب لگے ہاتھوں لیا۔خود میاں صاحب بھی وقت کی نزاکت کو بروقت بھانپتے ہوئے مجبوراً اُن سے سینیٹ کی سیٹ سے استعفیٰ لینے اور پارٹی کی رکنیت کی معطلی کا فیصلہ کر بیٹھے۔خود مسلم لیگ (ن) کے دیگر عہدیداروں نے بھی نہال ہاشمی کی اِس اشتعال انگیز تقریر کو نامناسب اور لائقِ مذمت قرار دیا۔ جب کہ آصف علی زرداری کی اُس تقریر پر اُن کی پارٹی کے کسی رکن نے اعتراض نہیں اُٹھایا بلکہ اپنے دلائل اور توجیحات سے اُن کے ارشادات کا بھرپور دفاع کرتے رہے۔
سیاست میں صالحیت داخل کرنے اور اصلاح احوال کی باتیں تو سبھی لوگ کیا کرتے ہیں۔ لیکن بحیثیت ایک قوم ہم صالحیت کی بجائے غیر شعوری طور پر اشتعال انگیزی، عدم برداشت اور شوریدہ سری کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی شخصیات کے ارادت مندوں میں شامل ہوکرقصیدہ خوانوں پر مشتمل ایک ایسا ٹولہ ترتیب دے رہے ہوتے ہیں جسے اپنے سوا ہر کوئی غلط کار، سازشی اور ہزیمت خوردہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ جس دماغ میںیہ کبر سماجائے وہ اپنے آپ کو عقل کل اور باقی انسانوں کو حشرات الارض تصورکرنے لگتا ہے۔ خودستائی اور خود نمائی کا یہ مرض جب گہراہو جاتا ہے تو وہ جارہانہ اور مزاحمتی اسلوب اختیار کر کے ریاستی اداروں کو بے توقیرکرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔اُسے شاید یہ نہیں معلوم کہ عدالت کے باہر کھڑے ہوکر اوربڑھکیں مارکراور جذباتی تقریرکرنے سے شاید اپنے زخموں کی مرہم کاری تو ہوسکتی ہے لیکن اِس طرح عدالتی و قانونی احتساب سے نہیں بچا جاسکتا۔
وہ نہیں جانتے کہ ریاستی اداروں سے الجھنے کا نتیجہ صرف گھر پھونک تماشے کی صورت میںنکلتا ہے۔ماضی میں بھی ہم نے اپنے لیڈروں کی جانب سے ایسے ہی تباہ کن رویوں اور غیر شائستہ اسلوب اظہار دیکھا ہے۔ معزرعدلیہ کو کینگرو کورٹس،اُس کے ججوں کو لفافوں کی طعنہ زنی اور اُس کے فیصلوں کو چمک والے فیصلے کہہ کر ہم نے اپنے اداروں کو بدنام اور رسوا کرنے اور اُنہیں غیر معتبر بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سابق رکن فیصل رضا عابدی نے عدالت عظمیٰ پر کیسی کیسی تہمتیں لگائیں۔حواس باختگی اور سراسیمگی کی حالت میں نجانے اُنہوں نے میڈیا پر بیٹھ کرکیسی کیسی ہرزہ سرائی نہیں کی، لیکن نہ عدلیہ نے اور نہ حکمرانوں نے اُن کے خلاف کوئی ایکشن لیا۔نتیجتاً ایسے لوگ مزید دلیراورنڈر ہوتے چلے گئے اور ہم سب احساسِ زیاں سے بے نیا ز ہوکر اجتماعی خودسوزی اورخودکشی کرنے میں مصروف ہونے لگے۔