نگران سیٹ اپ مگر کس کا
آج سیاست دان جس انداز میں ملک چلا رہے ہیں‘ اس نے عوام کو حقیقی معنوں میں نانی یاد دلا دی ہے۔
KARACHI:
چند ماہ پہلے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وفاقی حکومت نگران سیٹ اپ کے قیام کے لیے طاہر القادری سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ سب کچھ ایسے طوفانی انداز میں ہوا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ آئین میں لکھا ہے کہ نگران وزیر اعظم کا فیصلہ قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف باہم مشورے سے کریں گے۔ سب کو پتہ تھا کہ آئین میں جو کچھ لکھا ہے، وہ اپنی جگہ، نگران وزیر اعظم کا فیصلہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف کریں گے لیکن اب پیپلز پارٹی طاہر القادری سے مذاکرات میں مصروف ہے تو مسلم لیگ ن الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کے لیے دھرنا دے رہی ہے۔ جے یو آئی' جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اس کی حمایت کر رہی ہیں۔
چند ماہ پہلے تک ایسا ناممکن نظر آتا تھا، اسے ہی سیاست کاری کہتے ہیں۔ ادھر اقتدار کے آخری دن گننے والی حکومت کے تشکیل کردہ پارلیمانی کمیشن نے پنجاب میں ایک نئے صوبے کی تجویز اور آئین میں ترامیم کی سفارشات تیار کر لی ہیں'ایسے عجوبے بھی دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں ہوئے ہوں گے۔ نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن پر گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ چند ماہ پہلے تک تو یہ سب کچھ ڈرائنگ روموں تک محدود تھا لیکن اب حقیقت سے پردہ اٹھ رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں کامیابی کے لیے نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن میں اپنے اپنے بندے فٹ کرانے کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ نگران سیٹ اپ ان کی مرضی کا ہو' چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اقتدار میں حصے دار چھوٹے اسٹیک ہولڈر اپنے شیئرز کی ضمانت چاہتے ہیں' اس لیے وہ الیکشن کمیشن کے ارکان پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ جناب فخر الدین جی ابراہیم اس بڑھاپے میں شاطر سیاستدانوں میں فٹ بال بنے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ کے ایشو پر مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کا فکر مند ہونا قدرتی امر ہے' اگر وہ نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن میں اپنے بندے فٹ نہ کرا سکیں تو پھر اگلے حکومتی سیٹ اپ میں ق لیک کی چھٹی سمجھیے اور ایم کیو ایم بھی خسارے میں رہے گی۔
کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا کھیل اسی لیے کھیلا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ق لیگ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ اے این پی کا پتا تو حال ہی میں آنے والے آئی آر آئی کے سروے میں ہی صاف ہو گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں حضرت مولانا دھمال ڈالتے نظر آ رہے ہیں' ممکن ہے عمران خان صاحب کے ہاتھ بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی آ جائے۔ ن لیگ اپنے گھوڑے پر ہزارہ صوبے کی کاٹھی ڈال کر سوار ہو چکی ہے لیکن شاید اب دیر ہو گئی ہے۔ اس کا ہزارہ کارڈ چلنے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔
بعض راز دانوں کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے بجائے کسی ریٹائرڈ جسٹس پر رضا مند ہو جائیں گے لیکن چھوٹے اسٹیک ہولڈر اور ان کے پشت پناہ کچھ اور نام بھی سامنے لانا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری اور حکومت کے درمیان جب مذاکرات چل رہے تھے تو کسی نے سابق آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کے نام کی سرگوشی بھی کی تھی۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں میاں نواز شریف بھی اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں اور صدر آصف علی زرداری بھی۔ اب یہ ہوائیاں کون لوگ اڑا رہے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں' انھیں جاننا اور سمجھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرنے والا ہے لیکن جمہوری اسٹیک ہولڈرز نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن پر دست وگریبان ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے نئے اور پیچیدہ ایشوز اٹھائے جا رہے ہیں' کسی کے پاس معاشی پروگرام ہے نہ دہشت گردی پر قابو پانے کا عزم اور لائحہ عمل۔ ان سب کے پاس صرف جوڑ توڑ کی گیدڑ سنگھی ہے جو اپنے عروج پر ہے۔ کوئی راجہ صاحب ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہا ہے تو کوئی ممتاز بھٹو ن لیگ کی پناہ میں آ رہا ہے۔ کسی نے سوچا کہ ایک ایسی حکومت جو اپنی مدت پوری کر چکی ہے، اسے نئے صوبے بنانے کے لیے کوئی کمیشن قائم کرنا چاہیے؟ اس قسم کے کمیشن کی کیا اوقات ہو سکتی ہے۔
اب محترم رضا ربانی صاحب نے فرما دیا کہ غیر آئینی سیٹ اپ مسلط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام حیرانی سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اردو کا محاورہ ہے جوتیوں میں دال بٹنا، پاکستان کی سیاست پر یہی منظر چھایا ہوا ہے۔ کیا اقتدار کی ملکیت کے اصل دعوے دار یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟ کیا انھیں یہ احساس نہیں کہ خون وہ دیں اور اقتدار کے مزے سیاستدان لیں۔ وہ بھی ایسے سیاست دان جو ایک نگران سیٹ اپ پر باہم دست و گریبان ہوتے نظر آرہے ہیں۔
کہا جاتا ہے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے جس خطے میں پاکستان قائم ہونے جا رہا ہے' یہاں کی اشرافیہ ذہنی پسماندگی کا شکار ہے' وہ امور مملکت چلانے کے لیے درکار قابلیت' زیرکی اور معاملہ فہمی سے محروم ہے' میرا دل تو نہیں چاہتا کہ گورے کی پیش گوئی نما سچی بات کو تسلیم کر لوں لیکن سیاست کے میدان میں جو غدر مچا ہوا ہے اور جو عاجلانہ فیصلے ہو رہے ہیں' انھیں دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انگریز سچے تھے' آج سیاست دان جس انداز میں ملک چلا رہے ہیں' اس نے عوام کو حقیقی معنوں میں نانی یاد دلا دی ہے۔ نگران سیٹ اپ بن بھی گیا تو کیا گارنٹی ہے کہ اس کے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں جو نئی حکومت آئے گی وہ اس ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کی اہل ہو گی۔ یہ سوال میرے اور آپ کے لیے شاید زیادہ اہم نہ ہو مگر ''ان'' کے لیے انتہائی اہم ہے جو ساری صورتحال پر نظریں جمائے ہوئے ہیںاور ''اپنے'' نگران سیٹ اپ کی تیاری کیے بیٹھے ہیں۔