نوادر کتب خانہ خاص
بطور خاص کوشش تو بہت کی جا رہی ہے کہ نئی نسل درست اردو بولنے پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہی نہ رہے
WASHINGTON:
گزشتہ ماہ مئی کے آخری ہفتے میں دو متضاد صورتحال (یا واقعات نے) مل کر ایک فکر انگیز صورتحال کو جنم دیا۔ اگرچہ ان میں سے ایک کتاب ہے جو ہمیں 20 مئی کو ملی، جب کہ دوسری ایک تعلیمی نمائش، جس کا مشاہدہ ہم نے 21 مئی کو کیا۔ ان دو مختلف چیزوں کے درمیان جب تعلق پیدا کیا جائے تو یا تو یہ تضاد نہیں رہتیں یا پھر دونوں کا مال ایک تیسرے انداز فکر کے وجود کا سبب بنتا ہے۔
جہاں تک کتاب کا تعلق ہے وہ نوجوان محقق ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کی مرتب کردہ ''نوادرِ انجمن'' ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے حال ہی میں ابلاغ عامہ (ابلاغیات) میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ وہ جامعہ کراچی کے اسی شعبے سے بطور استاد منسلک بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالے کی تیاری کے دوران انجمن ترقی اردو کے کتب خانے میں جو وقت گزارا اس میں مواد کی تلاش میں اور بھی کئی موضوعات پر نایاب کتب، مخطوطات، قدیم تاریخی و ادبی نوادرات (کتب) پر ان کی نظر پڑی۔ انجمن کے کتب خانۂ خاص میں ایسی نادر کتب موجود ہیں جن کا علم بڑی بڑی علمی شخصیات کو بھی شاید نہ تھا۔ نامور محقق، مترجم، شاعر و ادیب اور استاد ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم نے جولائی 1985 کو انجمن کے مشیر علمی و ادبی کی ذمے داری سنبھالی، جس کا سلسلہ تقریباً نو سال جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی کاوش سے اس دوران انجمن کے زیر اہتمام تقریباً 70 کتب شایع ہوئیں۔
اپنی اس ذمے داری کے دوران کی محققانہ نگاہ کتب خانہ خاص کے اس نایاب و نادر علمی و ادبی سرمایہ پر پڑی جو تاریخی، موضوعاتی اور اہمیت کے اعتبار سے ''خاصے کی چیز'' ہونے کے باعث نہ صرف بے حد اہم بلکہ طالبان علم اور تحقیقی ذوق کے حامل افراد کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔ اگر کوئی اردو کی ترقی، ترویج اور مختلف ادوار میں اس سلسلے میں ہونے والی مخلصانہ کوششوں کا ادراک کرنا چاہے تو اس کتب خانے سے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ملک میں اردو کے نفاذ کے ذمے داران کو بھی شاید اس کا شعور نہیں کہ یہ زبان زمانۂ جدید میں کتنی اہمیت اور ملکی ضروریات کے لیے اس کا کیا مقام ہے۔ وہ اگر اس کتب خانے سے استفادہ کریں تو ملک میں نفاذ اردو میں ذرا تاخیر نہ کریں۔
ڈاکٹر صاحب نے انجمن کے ماہنامے ''قومی زبان'' کے ہر شمارے میں ان نوادراتِ خاص پر مسلسل تین برس تعارفی مضامین تحریر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان تعارفی مضامین کی تعداد 36 ہے۔ ڈاکٹر صاحب (اسلم فرخی) نے ان نظروں سے اوجھل سرمایہ کو علم دوست افراد کے لیے ازسر نو تازہ کردیا۔ قومی زبان کے تین برس کے شماروں میں بکھرے ہوئے ان تمام اہم مضامین کو ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے یکجا کرکے کتابی شکل میں مرتب کرکے محقق کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ اس کتاب کو انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام شایع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب (مرحوم) نے جو گراں قدر کاوش کی ڈاکٹر یاسمین نے اس کو یکجا کرکے آیندہ تحقیق کرنے والوں کو تین سال کے رسالوں کی ورق گردانی سے بچا کر صرف ایک کتاب سے استفادہ کا موقع فراہم کردیا، بہ شرط آیندہ نسلیں اپنے اجداد کے اس سرمائے سے استفادہ پر مائل ہوں۔
ویسے بطور خاص کوشش تو بہت کی جا رہی ہے کہ نئی نسل درست اردو بولنے پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہی نہ رہے، اور یہ بیش بہا سرمایہ انجمن کے کتب خانے میں ہی بطور نمونہ عبرت رکھا رہے، اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ انگریزوں نے ہماری نسبت اردو کی ترقی و ترویج کے لیے کس قدر کوشش اور تحقیق سے کام لیا اور کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے۔ چاہے یہ سب انھوں نے اپنی غرض اور استحکام حکومت ہی کے لیے کیوں نہ کیا ہو۔ مگر اب جب کہ ہماری اپنی حکومت ہے ہمارا اپنا آزاد و خودمختار ملک ہے تو کیا ایسی ہی کوشش کرنا اتنی ہی عرق ریزی اپنی قومی زبان کے لیے ہماری حکومتوں کی ذمے داری نہیں؟
ان 36 تعارفی مضامین میں انگریز اردو داں شعرا کے کلام ہی نہیں بلکہ دیوان کا بھی ذکر ہے، انگریزوں کی لکھی ہوئی تواریخ، علم طب پر ترجمہ شدہ کتب جن میں ادویات، سرجری کے علاوہ تحقیق امراض اور علاج کے مختلف مدارج پر بھی کتب کا وافر ذخیرہ ہے، ان کتب کو موجود سلیس اردو میں منتقل کرکے آج بھی سائنسی مضامین کو باآسانی اردو میں پڑھانے کا بندوبست ہوسکتا ہے، اگر ایسا کرنے کی نیت ہو اور اب تو تقریباً ہر زبان سے اردو میں ترجمہ کرنے والے افراد خاصی تعداد میں موجود ہیں جو اردو ادب کو دیگر زبانوں اور دوسری زبانوں کے ادب کو اردو میں ترجمہ کر رہے ہیں تو کیا درسی کتب کے لیے مترجمین کی خدمات حاصل نہیں کی جاسکتیں؟ ولی دکنی کا وہ دیوان جو 1833 میں فرانسیسی زبان کے مقدمے اور حواشی کے ساتھ پیرس سے شایع ہوا بھی موجود ہے۔
یہ کارنامہ اردو کے فرانسیسی عاشق اور استاد پروفیسر گارساں دتاسی نے انجام دیا۔ دیوان ولی کا اردو سرورق بھی قابل توجہ ہے جس پر یہ عبارت درج ہے۔ دیوان ولی۔ چھاپا ہوا اہتمام سے۔ غرسین دی تاسی۔ شہر پارینہ کے۔ پادشہی چھاپے خانے میں۔ 1833 عیسوی۔ مطابق 1229 ھ (جہاں جہاں ڈیش دیے گئے ہیں ان کو ایک سطر شمار کیا جائے تو یہ عبارت اوپر تلے پورے سرورق پر آجائے گی)۔ گارساں نے خود کو غرسین دی تاسی اور پیرس کو شہر پارینہ تحریر کیا ہے۔ اس دیوان کا 20 صفحات پر محیط دیباچہ فرانسیسی زبان میں اور 64 صفحات پر حواشی کے علاوہ بحروں تفصیل اور غلط نامہ بھی موجود ہے۔ بقول ڈاکٹر صاحب اس دیباچے اور حواشی کا بھی اردو ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ دتاسی کی تحقیق و جستجو کا درست ادراک ہوسکے۔ فی زمانہ فرنچ سمجھنے والے اردو دانوں کی کمی بھی نہیں بلکہ ہمارا خاصا ادب ان زبانوں میں منتقل ہوچکا ہے اور ان کا اردو میں۔
طب کے علاوہ مختلف آلات کے استعمال اور اہمیت پر بھی انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ مضامین موجود ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عملی اور سائنسی زبان بنانے پر قبل از تقسیم نہیں بلکہ ڈیڑھ دو صدی قبل کس قدر گراں مایہ کام ہوا۔ مگر افسوس اس کوشش اور اختیار کو یک لخت موقوف کردیا گیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم قرار دینا ممکن نہیں۔ ہماری قومی زبان اردو میں جدید علوم کو منتقل کرنے کے کام کو جاری رکھنے کے بجائے جو کچھ سرمایہ پہلے سے موجود ہے اس سے بھی مکمل استفادہ نہیں کیا جا رہا، حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ اور اب تک اس پر کسی نے حکومت وقت پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی درج نہ کرایا۔ ایک مخصوص طبقے کو ملک کی کروڑوں کی آبادی پر مسلسل مسلط رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے بلا سوچے سمجھے کہ جو قوم اپنی تاریخ، ثقافت، رسم و رواج بطور خاص زبان کو فراموش کردیتی ہے وہ خود بہت جلد بے شمار قوموں کے درمیان قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔
ہم نے کالم کے آغاز میں دو صورتحال کے ارتکاز کا ذکر کیا تھا مگر بات خاصی طویل ہوجانے پر اس پر اگلے ہفتے روشنی ڈالیں گے، اس وقت معذرت۔