چیختی چلاتی خاموش تصویر
یہی تصویر وزیر اعظم کے مخالفین کے بقول وزیر اعظم نواز شریف کے چاہنے والوں کی ہی سازش ہے
کہتے ہیں کہ تصویریں بولتی ہیں اور صحافتی زبان میں ہر تصویر اپنے اندر ایک مکمل خبر لیے ہوتی ہے جو کہ اپنی چال ڈھال سے اپنے دیکھنے پڑھنے والے کو بولتی نظر آتی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر آج کل صحافتی دنیا میں شایع ہونے والی ایک تصویر کے متعلق دیکھا جا رہا ہے اور اس کے بارے میں تبصروں کی بھر مار ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے اس پر حاشیہ آرائی میں مصروف ہے' کسی چاہنے والے کو یہ تصویر وزیر اعظم پاکستان کے خلاف سازش نظر آتی ہے کیونکہ یہ ان کے بڑے صاحبزادے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیشی کی تصویر ہے جس میں وہ مظلومیت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
یہی تصویر وزیر اعظم کے مخالفین کے بقول وزیر اعظم نواز شریف کے چاہنے والوں کی ہی سازش ہے اور اس سے وہ مشترکہ تفتیشی ٹیم کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس کی غیرجانبداری کو مشکوک کیا جا سکے اور اس کی تفتیش کو جانبدار ثابت کیا جا سکے لیکن وہ نادان دوست شاید حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں کر رہے اور سب اچھا کی رپورٹ دے کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں کیونکہ حالات و قرائن تو وزیر اعظم کے خلاف جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکمران خاندان کے دفاعی کیمپ کی جانب سے روز انہ کی بنیاد پر ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں جن سے اس سارے تفتیشی عمل پر انگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں۔ایک دوسرے پر الزامات کی ایک لہر جاری ہے جو کہ ختم اسی وقت ہی ہو گی جب یہ بیل کہیں منڈھے چڑھ جائے گی۔ یہ اہم ترین کیس ہر روز ایک نیا موڑ لے رہا ہے اور نئی نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔
قربانیوں کی ایک فہرست ہے جو کہ موجودہ نام نہاد جمہوریت کو بچانے کے لیے پیش کی جا رہی ہیںجس میں پیش پیش حکومتی پارٹی کے اہم ترین ارکان ہیں جو اس کیس کے دباؤ میں کمی لانے کے لیے اپنے عہدوں کی قربانیاں دینے پر مجبور بھی کر دئے گئے ہیں اور نا کردہ گناہ اپنے سر لے رہے ہیں۔ تازہ ترین ڈرامہ نہال ہاشمی نے اپنی پارٹی پر فدا ہو کر کیا ہے جس کو اب اپنی ہی حکومت پر فدائی حملہ قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کے اہم ترین افراد نے ان کی جانب سے استعفیٰ واپس لینے کو اپوزیشن کی سازش قرار دیا ہے اور وزیر اعظم کے قریب ترین اور معتمد ساتھی آصف کرمانی نے نہال ہاشمی کو اپوزیشن کے ساتھ مل جانے کا طعنہ بھی دے دیا ہے اور ان کو اپنی سیاست ختم کرنے کا ذمے دار بھی قرار دے دیتے ہوئے ان کی قربانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سیاسی کارکن جذبات میں آکر اپنی پارٹی اور قائدین کے حق میں بے لاگ اور بے موقع تقریریں کرتے رہتے ہیں اور یوں وہ پارٹی سے اپنی وابستگی کو مضبوط کرنے کا سامان کرتے رہتے ہیں لیکن جب ان کے کارکن قسم کے سیاستدانوں پر کوئی اُفتاد آپڑتی ہے تو ان کی اپنی ہی پارٹی ان کے وجود سے ہی منکر ہو جاتی ہے اور ان کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ ایسا ہی نہال ہاشمی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے اور ان کو پارٹی کے سینئر رہنماؤں جن میں پہلے سے قربان ہونے والوں میں مشاہد اﷲ بھی شامل ہیں جنہوں نے نواز شریف کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو نبھاتے ہوئے قربانیوں کی ابتدا ء کی تھی ان کی طرف سے بھی نہال ہاشمی کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے اوران کے استعفیٰ کی واپسی کو حکومت کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ قرار دیا جا رہاہے۔ ابھی تک جن بھی سیاسی کارکنوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیا اور حکومت کے حق میں بیان داغنے کی پاداش میں ان کو اپنے عوامی عہدوں سے دستبردار ہونا پڑا ان کے ساتھ وہی ہوا جو کہ میاں نوازشریف کے بقول جب میں نے قدم بڑھائے تو پیچھے کوئی بھی نہ تھا۔
دنیا کا دستور ہے کہ جب مشکلات آتی ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ کس کی طرف ان کا رخ ہے کہ ان کی آنکھیں نہیں ہوتیں اور اس کا پتہ تب ہی چلتا ہے جب یہ مشکل خود پر پڑے۔ مخالفین پر پڑنے والی اُفتاد کو دور سے دیکھنا تو بڑا خوش کن دکھتا ہے لیکن جب یہی مشکلات اور پریشانیاں اپنے گھر کا رخ کر لیں تو صورت دوسری بن جاتی ہے اور پھر ہمارے حکمران یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمارا کل بھی احتساب ہو اتھا اور آج بھی ہم ہی احتساب کا سامنا کر رہے ہیں لیکن وہ شاید جوش خطابت میں یہ بھول گئے کہ جناب آپ کا احتساب ہوا ہی کب تھا آپ تو جن کے کندھوں پر بیٹھ کر حکمرانی کے لیے آئے تھے اسی بم کو آپ نے امیر المومنین بننے کے چکر میں خود ہی لات مار دی تھی اس وقت کے آپ کے ساتھی آپ کی بے اعتناعی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو بھی آپ نے ایسے ہی بھلا دیا جیسے آج آپ اپنے قریبی ساتھیوں کو اپنے مفادات کے لیے قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے لیکن چونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیںہوتا اس لیے خاص طور پر آج کل کے مفاد پرست معاشرے میں اس طرح کی وضعداری کو ''چہ معنی دارد'' ہی کہا جا سکتا ہے۔
بہر کیف ایک معمول کی تصویر کو وزیر اعظم کے صاحبزادے کی وجہ سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس سے ملک کو کوئی اہم خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کا ازالہ ضروری ہے اس معاملے کوحسین نواز نے عدالت کے سامنے پیش کیا ہے جس نے اس پر متعلقہ لوگوں سے جواب طلب کر لیا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بڑے باپ کے بیٹے نے جو کہ اسلامی ریاست کے ایک گورنر کا بیٹا تھا اس نے اپنے باپ کی حکمرانی میںرعایا کے کسی غریب فرد کے ساتھ زیادتی کی وہ مظلوم اس وقت تو خاموش ہو گیا لیکن جب اگلے سال حج کے موقع پر خلیفہ تشریف لائے تو اس نے اپنا کیس ان کی عدالت میںپیش کر دیا جنہوں نے شہادتوں کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے مدعی سے کہا کہ تم بھی اسی طرح مارو اس بڑے باپ کے بیٹے کو جس طرح اس نے تمہیں پیٹا تھا۔ یہ تو تھا وہ انصاف جو اسلامی ریاست کے ایک گورنر کے بیٹے کے کیس میں کیا گیا اور دوسری طرف ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ پریشانی لاحق ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے بڑے بیٹے کو تفتیش کے لیے بلا کر اس کی کرسی پر اکیلے بیٹھے ہوئے تصویر کہاں سے عوام کے سامنے آگئی جس سے وزیر اعظم کی عزت کو داغ لگ گیا، جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ تصویریں خود بولتی ہیں اور یہ تصویر بھی بول رہی ہے بلکہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جب ملک کے وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا جائے گا تو اس طرح کی تصویریں نظر آتی رہیں گی، ہمارے حکمرانوں کو ان بے زبان تصویروں کو بولتی تصویروں میں تبدیل ہونے سے روکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے اسی میں ان کی بھلائی ہے ورنہ کسی گورنر کو کبھی عمر بِن خطاب جیسا مُنصف مل سکتا ہے اور پھر...؟