اسٹیج گلوکاری سے نعتوں کی محفلوں تک

کراچی ٹی وی سینٹر پر میرے کئی کالج فیلو بلکہ کلاس فیلوز بھی ٹی وی پروڈیوسر بن چکے تھے


یونس ہمدم June 10, 2017
[email protected]

KARACHI: میں کچھ دن پہلے جے۔ایف کے ایئرپورٹ پر پاکستان جانے کے لیے ترکش ایئرلائنزکے کاؤنٹر پر کھڑا تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرے کندھے کو تھپتھپایا میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ایک باریش شخص مجھے پیار بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا میں نے اس شخص کو بالکل نہیں پہچانا نہ ہی اس حلیے کا میرا ایسا عمر رسیدہ بے تکلف کوئی دوست تھا جس کے سر پہ ٹوپی، چہرے پر داڑھی اور کاندھوں پر مفلر ہو، ابھی میں اس گتھی کو سلجھانے میں لگا ہوا تھا کہ یہ شخص کون ہے؟ وہ بولا نہیں پہچانا مجھے؟ میں نے برملا کہا۔ ہاں۔ وہ پھر بولا بڑی ملاقاتیں رہی ہیں آپ سے، کبھی میں کراچی کے اسٹیج کا مشہور گلوکار ہوا کرتا تھا۔ میرا نام امجد حسین ہے۔

میں نے پھر اس کے خد وخال کو غور سے دیکھا تو پہچان کر کہا یار امجد! تم تو بہت بدل گئے ہو، تم نے اب کیا گانا وانا سب چھوڑ دیا، تم اتنی جلدی بزرگ بھی ہوگئے اور بدل بھی گئے۔ امجد حسین نے کہا یونس ہمدم بھائی! مجھے تو اس بات کا شدت سے احساس اور ندامت ہے کہ میں نے خود کو بدلنے میں بہت دیرکردی اب میری شناخت ایک گلوکار نہیں بلکہ ایک نعت خواں اور ایک ادنیٰ عاشق رسولؐ کی ہے۔ اب نعت خوانی ہی میری پہچان اور میری زندگی ہے۔ عشق رسولؐ ہی اب میری زندگی کا نصب العین ہے۔ اسی دوران سامنے سے آتے ہوئے اس کی نظر ایک اور بزرگ پر پڑی تو امجد حسین نے جلدی سے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ اچھا یونس بھائی! اب میں چلتا ہوں، پھر ملیں گے میرے پیر طریقت شیخ صاحب آج پاکستان جا رہے ہیں۔

وہ آگئے ہیں، میں آج انھی کو رخصت کرنے کے لیے ایئرپورٹ آیا ہوں۔ یہ کہہ کر امجد حسین لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا تیزی سے اپنے پیر صاحب کی طرف یہ کہتا ہوا چلا گیا زندگی رہی تو پھر ملاقات رہے گی۔ پھر جب میں جہاز میں بیٹھا تو مجھے پھر ماضی کا گلوکار امجد حسین یاد آگیا جو کراچی اسٹیج پر اپنی آواز کا خوب جادو جگایا کرتا تھا۔ اور اس سے وہ پہلی ملاقات بھی یاد آگئی جب میں نے بارہ سال لاہور کی فلمی دنیا میں رہنے کے بعد کراچی آکر ''محفل سنگیتا'' کے نام سے ایک شاندار شوکراچی کشمیر روڈ کے اسپورٹس کمپلیکس میں کیا تھا اور اس شو میں پہلی بار لاہور سے کسی شو میں شرکت کرنے کے لیے اداکارہ سنگیتا، کویتا، ہیرو کمال اور گلوکارہ ناہید اختر نے شرکت کی تھی۔ اسپورٹس کمپلیکس کے منیجر ان دنوں میجر جلال تھے جو اداکار کمال کے بڑے بھائی تھے اور انھی کی وجہ سے وہ جگہ مجھے اس شو کے لیے مل گئی تھی۔

اس شو کے لیے مقامی اخبار کے فلمی صفحے کے انچارج سلیم باسط اور میرے ایک اداکار دوست شاہ نواز گھمن نے امجد حسین سے یہ کہہ کر تعارف کرایا تھا۔ یونس بھائی! آپ نے اپنے اس شو میں اس نوجوان گلوکار کو ہر حال میں گوانا ہے یہ اپنی آواز سے آپ کے شو کا حسن بڑھا دے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ناہید اختر کے بعد سب سے زیادہ پذیرائی امجد حسین کے گیتوں کو ملی تھی۔ پھر اس شو کے بعد امجد حسین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ کراچی کے میوزیکل فنکشنوں کے ساتھ امجد حسین کراچی ٹیلی وژن پر بھی ریکارڈنگ کے لیے آتا تھا تو اس سے ملاقاتیں رہتی تھیں اس نے ٹیلی وژن کے لیے بھی بہت سے خوبصورت قومی گیت گائے تھے۔ اس کے گھنگریالے سیاہ بال بہت خوبصورت تھے، اس کی آواز کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ بڑے اونچے سروں میں گاتا تھا۔ اور گلوکار محمد رفیع کے شاگرد محمد افراہیم کے بعد امجد حسین کی آواز کو بھی کراچی میں بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ اور دونوں ہی گلوکاروں نے قومی نغمات گا کر اپنی آواز کی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ یہ لوک گیت بھی خوب ڈوب کر اور شوکت علی کی طرح بڑی پاٹ دار آواز میں گایا کرتا تھا۔

کراچی کے فنکشنوں میں ایک اور جس نوجوان گلوکار کی بڑی دھوم تھی وہ جنید جمشید تھا جوگٹار کے ساتھ جب اسٹیج پر آتا تھا تو ایک سماں سا باندھ دیتا تھا۔ خوبصورت شخصیت کے ساتھ خوبصورت آواز کا مالک جنید جمشید میوزک فنکشنوں کا شہزادہ سمجھا جاتا تھا۔ ان دنوں وہ اسٹیج پر وائٹل سائن میوزیکل بینڈ کے ساتھ گایا کرتا تھا پھر اس کی شہرت بڑھی تو اس نے اپنا میوزیکل بینڈ بھی بنا لیا تھا۔ جنید جمشید سے فنکشنوں کے علاوہ کراچی ٹیلی وژن اسٹیشن پر بھی اکثر ملاقات رہا کرتی تھی۔ کیونکہ جنید جمشید قومی گیتوں کی ریکارڈنگ کے لیے ٹی وی آیا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ میرا بھی ٹی وی اسٹیشن جانا اس طرح ہوتا تھا کہ جیسے ٹی وی اسٹیشن میرا دوسرا گھر ہے۔

کراچی ٹی وی سینٹر پر میرے کئی کالج فیلو بلکہ کلاس فیلوز بھی ٹی وی پروڈیوسر بن چکے تھے۔ جن میں ایم ظہیر خان، آفتاب عظیم، غزالہ یاسمین کا ایک ہی کالج سے تعلق تھا پھر میرا دیرینہ دوست قاسم جلالی اور پروڈیوسر اے۔ سلام بھی بہت پہلے سے میرا دوست تھا۔ اس طرح میرے شب و روز بھی کراچی ٹی وی اسٹیشن پر گزرتے رہے ہیں، میری ٹی وی پر پروڈیوسر شعیب منصور سے بھی انھی دنوں ملاقاتیں رہی تھیں وہ بہت ہی منفرد ، سلجھا ہوا اور ذہین پروڈیوسر تھا۔ جنید جمشید کی شعیب منصور سے بڑی بے تکلفی تھی، شعیب منصور ایک اچھا رائٹر اور شاعر بھی تھا، شعیب منصور نے ان دنوں جنید جمشید کے لیے ایک قومی نغمہ لکھا تھا اور کراچی ٹی وی کے لیے اس کی ریکارڈنگ کی۔ نغمے کے بول تھے:

دل دل پاکستان ' جاں جاں پاکستان

اور جب یہ قومی نغمہ جنید جمشید کی آواز میں منظر عام پر آیا تو اس نغمے نے دھوم مچا دی تھی۔ اس نغمے کو بھی اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ یہ سارے پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر آگیا تھا اور اس ملی نغمے کو بھی قومی نغمے کی سی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اور اسٹیج پر جنید جمشید سے فلمی اور دیگر گیتوں کے علاوہ دل دل پاکستان کی پرزور فرمائش ہر فنکشن میں ہوا کرتی تھی۔ وہ دور جنید جمشید کی شہرت کی بلندی کا دور تھا۔ اس کے کئی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن میں ایک گیت جس کے بول تھے:

تم مل گئے توکیا ہوا' ویرانیاں کم نہ ہوئیں
تنہا تھا میں تنہا ہی رہا
یا پھر اس گیت نے ان دنوں بڑا ادھم مچایا تھا، جس کے بول تھے:
گورے رنگ کا زمانہ' کبھی ہوگا نہ پرانا
جنید جمشید کا یہ وہ دور تھا جب وہ دنیائے رنگ و بو میں ڈوبا ہوا تھا۔ کراچی کا سب سے مہنگا گلوکار کہا جاتا تھا۔

اب میں آتا ہوں امجد حسین کی طرف جب میں کراچی سے امریکا آیا اپنی فیملی کو ایک اجنبی ملک میں سیٹ کرنے کی غرض سے میں یہ بھول گیا تھا کہ میں فلمی دنیا کا نامور رائٹر اور شاعر رہا ہوں، میں نے نیو جرسی میں دس سال تک خود کو گمنام رکھا اور ہم فیملی کے سارے افراد مل کر پردیس کی کٹھنائیوں سے خود کو نکالنے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے تھے، گزشتہ 5 سال سے میں آہستہ آہستہ دوبارہ سے خود کو یونس ہمدم کی حیثیت سے منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوا ہوں اور صحافتی اور ادبی حلقوں سے آشنائی کا آغاز کیا ہے۔ شروع سے نیو جرسی میں رہتا ہوں، گزشتہ دنوں امجد حسین کے بارے میں پتا چلا تھا کہ وہ بھی نیویارک میں ہے اور گلوکاری ترک کرکے نعت خوانی کی محفلوں میں شرکت کرتا ہے۔ مگر میری اس سے کوئی ملاقات ہوئی نہیں تھی۔ اسی طرح امریکا آنے کے بعد ایک دن میں پاکستان کے ایک مشہور ٹی وی چینل پر جنید جمشید کا پہلی بار بدلا ہوا روپ دیکھا۔ چہرے پر بڑی سی نورانی داڑھی جنید جمشید آنکھیں بند کیے ہوئے بہت ہی ڈوب کر نعت پڑھ رہا تھا۔ نعت کے بول اس کی بدلی ہوئی کیفیت کی مکمل عکاسی کر رہے تھے:

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے
بدل دے میرے دل کی دنیا بدل دے
سنوں میں ترا نام دھڑکنوں میں
میرا دل بدل میرا رستہ بدل دے

اور پھر آسمان والے نے ماضی کے چھیل چھبیلے گلوکار جنید جمشید کی دعا سن لی تھی اور واقعی اس کی دنیا اور اس کا دل بدل گیا تھا۔ اب اس کے لبوں پہ شب و روز نعتیں ہی نعتیں ہوتی تھیں، ایک اور نعت جو اس کی آواز میں بڑی مقبول ہوئی اس کے بول تھے:

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجزوندامت لے کر آیا ہوں

جنید جمشید زیادہ تر اپنی نعتیں خود ہی لکھتا تھا۔ ایک اور نعت کو بڑی پذیرائی ملی تھی جس کے بول ہیں:

میں تو امتی ہوں اے شاہِ امم
کردے میرے آقا اب نذرِ کرم

جنید جمشید نے باقاعدہ تبلیغی جماعت کو اپنالیا تھا اور شب و روز تبلیغی کاموں میں مصروف رہتا تھا اور پھر ایک دن خبر آئی کہ جنید جمشید تبلیغ کی غرض سے چترال سے واپس آتے ہوئے ہوائی حادثے میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اللہ جنید جمشید کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کے درجات بلند کرے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں