عقیدت کی خوشبو 5
سکھ حضرات کی خوبیوں میں چند کا ہر شخص شاہد ہو گا کہ وہ امن پسند لوگ ہیں
پاکستان کے تین قریب ترین پڑوسی ملک بھارت، ایران اور افغانستان ہیں۔ پاکستان کے اس وقت ان تینوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں ۔ ان تینوں میں دو اسلامی ملک ہیں جب کہ تیسرے میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان کے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کی فارن پالیسی کے بارے میں کیا کمنٹس دیے جانے چاہئیں۔ چند ہفتے قبل پاکستانی طلباء کا ایک گروپ تاریخی مقامات کی سیر کرنے انڈیا پہنچا، وہاں کے انتہا پسندوں نے احتجاج کیا جس پر طلباء کے گروپ کو واپس آنا پڑا۔ آج کل سکھ یاتریوں کا ایک گروپ اپنے مقدس مقامات کا دورہ کرنے انڈیا سے پاکستان آیا ہوا ہے' انھیں خوش آمدید کہنے اور گھمانے پھرانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سکھ مذہب کے ماننے والے امن پسند اور مسلمانوں کے اچھے دوست ہیں۔
آج سے پچیس سال قبل جب میں ضلعی افسر تھا تو سکھ یاتریوں کا ایک وفد اپنے مقدس مقامات کی زیارتوں کی غرض سے واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان آیا۔ میں نے اپنے ہمراہ پروفیسر ڈاکٹر نذیر احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج حیات احمد خاں چیئرمین انڈوپاک میوزک کانفرنس اور میاں صلاح الدین صلی کو لے کر وفد کا استقبال کیا اور آمد پر چائے وغیرہ سے تواضع کے بعد انھیں کئی روز تک ان کے مقدس مقامات گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب' گوردوارہ سچا سودا فاروق آباد اور ننکانہ صاحب کا دورہ کروایا۔
سکھ حضرات کی خوبیوں میں چند کا ہر شخص شاہد ہو گا کہ وہ امن پسند لوگ ہیں۔ بے حد مہمان نواز ہیں،کوئی سکھ بھیک مانگتا نہیں ملے گا۔ یہی بات ترکوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ سکھ تمباکو پینے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ اور اب مجھے یاد آ رہے ہیں دہلی کے سابق ڈپٹی کمشنر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ جن سے میری ملاقات ہوئی تھی جناب قتیلؔؔ شفائی کے گھر کھانے پر۔ مسلمان اکثر لطیفوں میں سکھوں کا ذکر کر کے مزہ لیتے ہیں، میرے علم میں آیا ہے کہ یہ معاملہ دونوں طرف Reciprocal بنیادوں پر چل رہا ہے۔ لیکن اس وقت مجھے کنور صاحب کی وہ نعت یاد آ رہی ہے جو ان ہی کی زبانی سنی۔
اس سے قبل میرے چار کالم ''عقیدت کی خوشبو'' کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں جن میں غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام میں سے اشعار منتخب کر کے قارئین کی نذر کیے گئے تھے، آج مہندر سنگھ بیدی کے اشعار درج کرنے کے بعد بڑی کوشش سے تلاش کیے ہوئے چند مزید سکھ مذہب کے شعرا کے کلام میں سے ان کے نعتیہ اشعار پیش کیے جائیں گے۔ مہندر سنگھ بیدی نے جو شعر قتیل صاحب کے گھر سنائے یوں تھے ؎
نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمدؐ مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارا تو نہیں
میری نظروں میں تو اسلام محبت کا ہے نام
امن کا آشتی کا مہر و محبت کا ہے نام
امر سنگھ عارجؔ روپڑی کا کلام ہے
نظر میں عرش کے جلوے ہیں' دل منور ہے
مری زبان پہ وصفِ رخ پیغمبرؐ ہے
قدم قدم پہ جلے تیری رہبری کے چراغ
نفس نفس تری تطہیر سے معطر ہے
نہیں ہے غم ہمیں خورشید حشر کا ہرگز
ہمارے سر پہ تری رحمتوں کی چادر ہے
نگاہ حسن جہاں پر نہیں مری عارجؔ
کہ دل اسیر ادائے رخ پیغمبرؐ ہے
سردار بشن سنگھ بیکلؔؔ کی مسدس ملاحظہ ہو
اے رسولؐ پاک! اے پیغمبرؐ عالی وقار
چشم باطن بیں نے دیکھی تجھ میں شان کردگار
تیرے دم سے گُل نظر آئے ہیں وہ عرفاں کے خار
خوبیوں کا ہو تری کیوں کر بھلا ہم میں شمار
نور سے تیرے' اندھیرے میں درخشانی ہوئی
تیرے آگے آبرو کفار کی پانی ہوئی
اک جہالت کی گھٹا تھی چار سو چھائی ہوئی
ہر طرف خلق خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی
شاخ دینداری کی تھی بے طرح مرجھائی ہوئی
لہلہا اٹھی' تری جب جلوہ آرائی ہوئی
تیرے دم سے ہو گئیں تاریکیاں سب منتشر
پا گئی راحت ترے آنے سے چشم منتظر
کرپال سنگھ بیدارؔ کی نعتیہ مثنوی ہے
اے کہ تجھ سے صبح عالم کو درخشانی ملی
ساغر خورشید کو صہبائے نورانی ملی
اے کہ انوار حقیقت سے بنا پیکر ترا
حیرتِ آئینہِ تخلیق ہے جوہر ترا
اے کہ تیری ذات سے پیدا نشان زندگی
اے کہ تیری زندگی سر نہان زندگی
اے کہ تجھ پر آشکارا راز ہائے کائنات
تیری ہستی ابتدا و انتہائے کائنات
اے کہ ترے رخ کی تابش سے فضا پر نور ہے
تیری خاک پا کا ہر ذرہ حریف طور ہے
حاکم و محکوم کو تونے برابر کر دیا
ذرہ ناچیز کو ہمدوش اختر کر دیا
آسمانی عظمت و تقدیس کا مظہر ہے تو
مختصر یہ ہے خدا کا خاص پیغمبرؐ ہے تو