مقدس مہینے کا احترام

ایک اورپہلوپرنظردوڑاناضروری ہے کیا صرف اورصرف رمضان کے مقدس مہینے میں ہی نیکیاں کرنا مقصودہے


راؤ منظر حیات June 12, 2017
[email protected]

ISLAMABAD: انجیلا مرکل جرمنی کی چانسلرہیں۔ انتہائی مضبوط اور طاقتورطریقے سے ملک پرحکومت کرنے والی شخصیت۔ یہ خاتون انتہائی بے باک اورغیرمتعصب ہے۔مرکل یقیناً مسلمان نہیں ہے۔اس کے خاندان میں کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ مگراس نے گزشتہ رمضان سے ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیاہے۔تمام مارکیٹیں اورہوٹل جن کے مالک مسلمان ہیں اورجہاں لوگ سحراورافطارکیلیے جاتے ہیں،ان تمام پرٹیکس ختم کردیا ہے۔ یوں تمام اشیاء ایک دم سستی ہوگئی ہیں۔

جہاں تک معیار کا تعلق ہے، وثوق سے عرض کرسکتاہوں کہ ہمارے ملک میں فروخت ہونے والی زیادہ تر جعلی اشیاء سے وہ تمام کھانے پینے کی چیزیں انتہائی خالص اوربلند معیارکی ہیں۔جرمنی ایک سیکولرملک ہے۔ہمارے اکثریتی علماء کے نزدیک ایک کافر ملک، جسے دارلحرب بھی کہا جا سکتا ہے۔ مگر آپ غیرمتعصب رویے کاتوازن دیکھیے کہ اس ملحد معاشرے میں مسلمان شہریوں کااَزحدخیال کیاجاتا ہے اوران کے مقدس مہینے یعنی رمضان میں ہرسہولت پہنچائی جاتی ہے۔کیا مسلم ممالک میں اس طرح کاطریقہ روا رکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ چانسلرمرکل ہربرس ایک افطاری میں شریک ہوتی ہے۔اس میں تمام دیگرمذاہب کے لوگ بھی آتے ہیں۔ مرکل نے ایک ایسی ہی افطاری میں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ اسلام ایک عظیم مذہب ہے۔مسلمانوں کی واضح اکثریت امن پسنداوربہترین شہری ہیں۔ان کادہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔پچھلے برس افطارپرچانسلرمرکل کی میزپرحجاب میں ملبوس خواتین بڑے آرام اورتسلی سے کھاناکھارہی تھیں۔دوبارہ عرض کروںگا،یہ ایک غیرمسلم ملک کی حقیقی تصویرہے۔

وال مارٹ ایک امریکی اسٹورکی بین الاقوامی کمپنی ہے۔پوری دنیا میں اس کے تیئس لاکھ ملازمین ہیں۔ ہر سال اس کمپنی میں تقریباًپانچ سوارب ڈالرکی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔والٹن خاندان کی ملکیت میں یہ کمپنی ایک تجارتی جن بن چکاہے۔رمضان آنے سے چنددن پہلے اس کمپنی نے اپنے ہراسٹورپرایک خصوصی کارنر بنایا ہے۔ اس میں مقدس مہینے کے اعتبارسے کھانے پینے کی تمام اشیاء رکھی گئی ہیں۔آپ حیران ہوںگے کہ تمام اشیاء کی قیمتوں میں پچیس سے تیس فیصدکمی کردی گئی ہے۔آپ کوہرچیزمعیاری ملے گی۔وہ بہترین معیارجس کاہمارے جیسے ملک میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔

رمضان کے پورے مہینے کھانے پینے کی تمام اشیاء انتہائی کم قیمت پر میسرہیں۔یہی صورت لندن میں مختلف اسٹوروں پر ہے۔ وہاں بھی خوردونوش کی اشیاء کم داموں پردستیاب ہے۔ ان کمپنیوں کے مالکان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں۔ہم ان ملحداورکافرلوگوں کے اس نیک کام کی بالکل تشہیرنہیں کرتے۔ہماری اکثریت توان لوگوں کوجہنمی گردانتی ہے اوردل ہی دل میں ان سے کدورت بھی رکھتی ہے۔

چندبرسوں سے اس مقدس مہینہ میں ہمارے ٹی وی چینلزپرجوکچھ ہورہاہے،اس میں توازن،اعتدال اور تہذیب،کچھ بھی نہیں ہے۔نوحہ نہیں لکھناچاہتا۔اشتہاری مہم میںٹی وی پرافطاری اورسحری کے شوزمیںجوکچھ دکھایا جا رہا ہے، مجھے بہت عجیب لگ رہاہے۔ہوسکتاہے کہ میں غلط ہوں۔مگراس بلاکی اشتہاربازی ہے جس کاکوئی جواز نہیں ہے۔

درست ہے کہ تجارتی اداروں کواپنی اشیاء فروخت کرنی ہیں۔مگررمضان کی آڑمیں جو پروپیگنڈا کیا جارہاہے، وہ رمضان کی روح کے خلاف بھی ہے اور دیکھنے والوں کیلیے باعث آزاربھی۔حیرت یہ ہے کہ مذہب کواپنی چیزیں بیچنے کیلیے استعمال کیاجارہاہے اورکسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔ منافع کی دوڑمیں تمام لوگ آپے سے باہرہوچکے ہیں بلکہ پاگل پن کی حد تک جاچکے ہیں۔ ایک مشروب کا اشتہارغورسے دیکھیے، سمجھانے کے لیے پنجابی گانے کا مکھڑا ایک لفظ کی ترممیم کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

بتی بال کے بنیرے اتے رکھ نی آن
کیتے بھل نہ جاوئے والد میرا

سوال یہ ہے کہ کیا روزہ اورہماری دیگر عبادات کوکمرشل زاویہ سے پیش کرنادرست ہے۔جواب آپ پر چھوڑتاہوں۔بتایاجاتاہے کہ گندے کپڑے فلاں پاؤڈرسے دھونے چاہیے۔سمجھنے سے قاصرہوں کہ ہمارے مذہب کے ایک جزو کو کس طرح اپنی تجارتی مقصد کیلیے استعمال کیا جارہا ہے۔ نیکی، پاؤڈر اور روزہ کوکس طرح استعمال کیاجارہاہے۔ اب آپ گھی، روغنی تیل اور کھانے کی اشیاء کی طرف آئیے۔ افطار سے پہلے ڈائننگ ٹیبل پردرجنوں قسم کے کھانے سجائے جاتے ہیں۔ طرح طرح کی مرغن غذائیں اہتمام سے روزے داروں کو دکھائی جاتی ہیں۔

کیا ہمارے ملک کے ہرگھرمیں واقعی افطارپراتنے کھانے بنائے جاتے ہیں۔کیایہ مبالغہ نہیں۔ اگرچندفیصدامیرلوگ افطار کے وقت درجنوں کھانے بنوا بھی سکتے ہیں تواس میں تشہیرکیوں شامل کی جائے۔ پہلا ردِعمل تویہ،کہ متوسط طبقے کے لوگ اورغریب لوگ،جویہ ساری چیزیں خرید نہیں سکتے،ان کے دل پرکیاگزرتی ہوگی۔

ایک غریب بچہ یابچی جب اشتہارمیں افطار اور سحرکے وقت اَن گنت کھانوں کودیکھتا ہے، تو اس کے دل میں احساس محرومی کے جذبہ کاکون ذمے دارہے۔ہاں ایک انتہائی اہم بات،روزہ توسادگی کاسبق دیتا ہے۔ اتنی پُرتعیش طریقے سے افطار کا جواز کیا ہے۔اس سے سادگی کے عنصرکی کس بے دردی سے نفی ہوتی ہے۔ اس مسئلہ پر علمائے دین کوغورکرناچاہیے۔طالبعلم کی نظرمیں توجوبھی حرکت روزے کے بنیادی مقصدسے توجہ ہٹادیں،اس کو ترک کرناچاہیے۔روزہ تو صبر، شکر،سادگی اورقربانی کا دوسرانام ہے۔معلوم نہیں، کہ درجنوں کھانے دکھاکرہم کس طرح رمضان کوخوش آمدید کررہے ہیں۔

اب ایک نازک مسئلہ کی طرف آتا ہوں۔ ہوسکتا ہے یہ میرے لیے مسئلہ ہواورآپ بالکل مطمئن ہوں۔ مگریہ افطاراورسحرکے وقت ٹی وی ٹاک شوزکے متعلق ہے۔پہلی گزارش تویہ،کہ یہ درست ہے کہ میڈیا پیسوںکے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا۔ مگرروزہ کے اختتام اور آغازمیں اکثراینکرحضرات اورخواتین کامذہبی علم انتہائی محدوددرجے کاہے۔صاف نظر آتا ہے کہ انھیں ہمارے عظیم مذہب کی فکری اساس، قرآن مجیداور احادیث مبارکہ کابھرپورادراک نہیں۔ انھیں دینی معاملات کا قطعاً کوئی علم نہیں۔مگروہ بے دھڑک ان نازک معاملات پربھی ڈٹ کربولتے ہیں۔ جس پر علماء بھی بات کرتے ہوئے بارہاسوچتے ہیں۔

چلیے آپ اس مسئلہ کوبھی نظر انداز کر دیجیے۔ماہِ رمضان سے پہلے کا اشتہار دیکھتے ہیں توخاتون کسی موبائل فون یاکسی اورچیزکے اشتہارمیں رقص فرما رہی ہوتی ہیں۔رمضان آتے ہی ان شوزمیں سرپردوپٹہ لیے،پاکیزگی کا نمونہ بنی پندو نصیحت فرمارہی ہوتی ہیں۔ طالبعلم کے نزدیک شرافت،پاکیزگی اور نیکی کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں،جس میں اداکاری کے جوہر دکھانے چاہییں۔ مگرحقیقت یہی ہے کہ یہ کسی ڈرامے کی اداکاری کی طرح رمضان شو کرنے میں مصروف نظرآتے ہیں۔

قطعاً گناہ یاثواب کے زاویہ سے عرض نہیں کررہا، گناہ گار قراردینے کا اختیارصرف اور صرف خداکوہے۔مگرنیک نظرآنے کیلیے ایک خاص حلیہ بنالینا،پتہ نہیں یہ کیا ہے۔پھرآپ ملبوسات کی طرف آئیے۔ ہزاروں روپے کے بیش قیمت جوڑے بدل بدل کرپہنے جاتے ہیں۔ بھرپور طریقے سے دکھاوا کیاجاتاہے۔معلوم نہیں،اس سب کچھ کوکیا کہا جائے۔مگریہ روزے کے فلسفہِ سادگی اور قناعت کے منافی نظرآتاہے۔کیاہمیں دین ومذہب اب نوٹنکی کرنے والے سکھائیں گے۔ مگرعملی طورپریہی ہو رہا ہے۔یہ سلسلہ کہاں تک جائیگا،سوچتے ہوئے بھی عجیب سااحساس ہوتاہے۔

ایک اورپہلوپرنظردوڑاناضروری ہے۔ کیا صرف اورصرف رمضان کے مقدس مہینے میں ہی نیکیاں کرنا مقصودہے۔کیاباقی گیارہ مہینے کسی اہمیت کے حامل نہیں۔اسلام میں توایک مخصوص رویے کاحکم ہے جو پورا سال جاری رہتا ہے۔ درست ہے کہ اس مقدس مہینے میں خداکی خصوصی رحمت ہوتی ہے۔مگراسلامی طرزِعمل توپوری عمرکیلیے صائب ہے۔ مگرایسے بتایا جا رہا ہے کہ صرف نیکی اسی مہینے کاخاصہ ہے۔یہ عنصربھی کاروباری طریقے سے اُجاگر کیا جارہا ہے۔

ہمارے تاجراوردکاندارحضرات اس مہینے میں لوگوں کومہنگائی کے کوڑے مارتے ہیں۔انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔کوئی ٹوکنے والانھیں۔یہاں کوئی جرمن چانسلرنہیں جوایک مہینے کیلیے کھانے پینے کی چیزوں پرٹیکس ختم کر دے۔ یہاں کوئی وال مارٹ کے مالکان جیسا تاجر نہیں، جوغیرمسلم ہونے کے باوجود، اشیاء خوردونوش میں معیار برقراررکھتے ہوئے قیمت کو حیرت انگیزحدتک کم کر دے۔

یہاں دکھاوے کے طورپراگرقیمت کم کربھی دی جاتی ہے تو معیار تکلیف دہ حدتک گرادیاجاتا ہے۔ ہم لوگ انتہائی منافقت سے اس مقدس مہینے میں ایک دوسرے کی جیبیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔یہ تو نیک، پاک فرشتوں کاملک ہے۔یہ زمینی فرشتے ناجائزمنافع کیلیے اس مقدس مہینے کے احترام تک کوبازارمیں بیچنے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔بتایاگیاہے کہ اس مہینہ میں شیطان بندکردیے جاتے ہیں۔مگرسوال ہے کہ پھر ایساادنیٰ رویہ کیوں ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔