پاکستان کھپے

اس طرح کے حالات کیوں بنائے جا رہے ہیں اور کون سی وہ طاقتیں باقی رہ گئی ہیں


Abdul Qadir Hassan June 13, 2017
[email protected]

حکومت اپنی معین مدت میں سے پانچ سے چار سال پورے کرچکی ہے اور موجودہ پارلیما ن اپنے آخری سال میں داخل ہو چکی ہے جس کو سادہ زبان میں الیکشن کا سال بھی کہا جاتا ہے کیونکہ حکومت وقت نے اپنے دور اقتدار میں جو بویا ہوتا ہے اس کے کاٹنے کا وقت قریب آجاتا ہے اور آخری سال میں عوام کو ایک بار پھر نئے منصوبوں کے سہانے خواب دکھا کر ان کو اگلے الیکشن میں اپنا گرویدہ بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔اب یہ عوام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی پچھلی کارکردگی کی بنا پر آنے والے انتخابات میںاس کے ساتھ کیاسلوک کرتے ہیں۔

ریاست کی عملداری کو بحال اور رواں رکھنے کے لیے ریاست کے اداروں کا آپس میں تعاون اور ہم آہنگی کسی بھی ریاست کے پنہپنے میں کلیدی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر یہی ادارے آپس میں تعاون نہ کریں اور ٹکراؤ کی صورتحال بن جائے تو ریاستی امور درہم برہم ہو جاتے ہیں اور ریاست کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے جس کے نتائج نہایت بھیانک ہوتے ہیں اور ہم تو اس ملک کے باسی ہیں جو اس قسم کے حالات سے پہلے بھی گزر چکے ہیں اور اپنے ملک کا ایک حصہ گنوا کر آدھے ملک پر بھی حکمرانی کے مزے لوٹ لینے کے باوجود اسی آدھے حصے کو کاٹنے پر بھی تیار بیٹھے ہیں یعنی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے کے درپے ہیں بلکہ کسی حد تک اس کا آغازکر بھی چکے ہیں۔ ملکی اداروں کے ٹکراؤ کی صورتحال میں حکومتی امور رکنے کے ساتھ ساتھ عوام بھی بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں عوام چونکہ اقتدار سے بہت دور ہوتے ہیں اس لیے ان کو سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ غیر یقینی کی صورتحال انھیں کہاں لے جائے گی۔

اس قسم کی باتیں ملک میں اس وقت شروع ہوتی ہیں جب حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کے مابین غلط فہمیاں اس سطح تک پہنچ جائیں کہ دونوں طرف واضح تفریق نظر آنے لگے اور کچھ ایسے ہی حالات و واقعات آج کل رونما ہو رہے ہیں جنہوںنے اس ملک کے رہنے والوں کو پریشان کر رکھا ہے اور وہ اس کیفیت میں ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کو واضح فیصلہ چاہیے جو کہ قانون و انصاف کے تما م تقاضوں کو پورا کرے۔ وہ کسی اجنبی نظریہ ضروت کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوں گے اور اگر خدانخواستہ کہیں سے ایک بار پھر نظریہ ضرورت بیچ میں آگیا تو ہو سکتا ہے کہ حالات انتشار کی اس نہج پر پہنچ جائیں جو کہ پھر کسی کے اختیار میں نہ رہیں ۔

اس طرح کے حالات کیوں بنائے جا رہے ہیں اور کون سی وہ طاقتیں باقی رہ گئی ہیں جو کہ حکومت اور اس کے اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرا کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ اخباروں اور ذرایع ابلاغ کی خبریں تو حالات کی سنگینی کی طرف ہی اشارہ کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہی قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ موجودہ حالات میاں نواز شریف کو کہا ں لے جائیں گے۔ ایک مکتبہ فکر جس میںحکومت کے حامی شامل ہیں وہ یقین کی حد تک پُر امید ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے ستے خیراں ہیں اور کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا اور اگلی حکومت بھی وہی بنائیں گے۔

اس کی بنیاد وہ ملک میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کو قراردیتے ہیں اور یہ بات کسی صورت میں ماننے کو تیار نہیں کہ نواز شریف شدید مشکلات کا شکار ہیں اور شاید یہی وہ آنکھیں اور کان ہیں جو حکمرانوں کو ہمیشہ سے پسند رہے ہیں کیونکہ وہ ان سے اپنے مطلب کی بات سننا اور دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں جس سے ان کو ہر طرف ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے اور انھی کانوں اور آنکھوں سے ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے ان کو پتا تب چلتا ہے جب چڑیاں کھیت چگ کر اُڑ چکی ہوتی ہیں۔دوسرا مکتبہ فکر ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا شمار حکومت وقت کے سخت قسم کے ناقدین میں ہوتا ہے اور وہ حکومت کی جانب سے سب اچھا کی باتوں کو بے پَر کی اڑانا کہتے ہیں ان کے خیال میں نواز شریف اپنی اہل خانہ سمیت اپنی تیسری حکومت کو انتہائی مشکل میں ڈال چکے ہیں اور ان کی نااہلی ان کو نوشتہ دیوار نظر آرہی ہے۔

انھی حالات میں ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو اس کا تجزیہ حالات و واقعات کے مطابق کر تا ہے اس طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اپنے اقتدار کی تیسری سیڑھی سے نیچے کھسکتے نظر آرہے ہیں اور اگر اس ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو اس بار اشرافیہ کے ساتھ بھی انصاف ہونے جا رہا ہے لیکن یہی طبقہ ایک اور خدشے کا بھی اظہار کرتا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے نظریہ ضرورت کے تحت کوئی ایسا فیصلہ صادر کیا گیا جس سے گو مگو کی کیفیت برقرار رہی تو یہ نہ صرف اس ملک سے عدل و انصاف کا جنازہ نکال دے گا بلکہ عوام میں مایوسی کو انتہائی حد تک لے جانے میںبھی اس کا اہم کردار ہو گا اور جب عوام ہی انصاف فراہم کرنے والوں اداروں سے مایوس ہو جائیں گے تو پھر ریاست کا یہ اہم ستون ریاست کے ڈھانچے میں دراڑیں ڈال دے گا۔

اس تیسرے طبقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اقتدار اور اس کے تما م تر اختیارات میاں نواز شریف کی جھولی میں ہیں اور یہ اپنے اقتدار کو نہایت کامیابی سے استعمال بھی کر رہے ہیںاوراداروں کو بالواسطہ یہ پیغام بھی دیے جا رہے ہیں کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف اگر کوئی ناپسندیدہ فیصلہ آیا تو اس کے بعد ملکی حالات میں انتشار کی تما م تر ذمے داری متعلقہ فریق پر ہو گی اور یہ خطرناک پیغام رسانی ذرایع ابلاغ کے ذریعے کی جا رہی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اس وقت خطے کے حالات کسی مہم جوئی کے لیے ساز گار نہیں ہیں لہذا نواز شریف کو اپنی مدت اقتدار پوری کر کے عوام کے پاس جانے دینا چاہیے اور ان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔

یہ تو ان لوگوں کی رائے ہے جو کہ پہلے تو اس ملک کے عوام ہیں اور اس کے بعد وہ کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہیں یا پھر غیر جانبدار ہیں لیکن ان کو ملکی مفاد اور ملکی اداروں کی بالادستی کی فکر ہے ۔ ان طبقات کی سوچ کو ہم تبدیل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ کر اس ملک کو آگے کرنا ہو گا کیونکہ حالات تب ہی بدلیں گے جب اس ملک میں انصاف کی فراہمی اشرافیہ اور عوام الناس کے لیے ایک ہی ہو گی لیکن اس کے لیے کسی نہ کسی کو مثال بننا پڑے گا اور اپنی ذات کی نفی کر کے پاکستان کھپے کا نعرہ لگانا پڑے گا جو کہ ہمارے ملکی وجود کی بقا ء کے لیے ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں