کہیں تو اتفاق ہو
چاند کی تصدیق کوئی مذاق نہیں اہم شرعی مسئلہ ہے
کچھ عرصہ قبل ایک ایس ایم ایس آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ نسوارکھانے سے نظر تیز ہوتی ہے اسی لیے کے پی کے میں چاند سب سے پہلے نظر آجاتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ ملک میں عید پر بھی قوم میں اتفاق برداشت کرنے والے مشہور مفتی نے حسب سابق اپنی چار شہادتوں پر یقین کرکے اپنے حامیوں کو چاند نظر آنے کی اطلاع دے کر وہ اتفاق ختم کرا دیا جوکہ وفاقی وزیر حج کی کوشش سے قائم ہوا تھا اور ملک بھر میں ایک ہی روز رمضان المبارک کا آغاز اور عید الفطر بھی ایک ہی روز منائی گئی تھی جس پر ملک بھر میں خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔
کے پی کے میں بعض پیش امام سالوں سے ہی ملک میں ایسا کراتے آرہے ہیں اور انھیں اے این پی کی ہوتی صاحب کی حکومت میں شہرت ملی تھی کہ ان کی مسجد میں ان کی اپنی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں ان کے مخصوص علما کے ساتھ صوبائی وزیر بھی شرکت کرتے تھے اور انھیں اتفاق نہ ہونے سے ملک میں دو عیدوں کے نقصان کا بتانے کی بجائے ان کے من پسند فیصلے کی روشنی میں صوبائی حکومت کی آشیرواد فراہم کرکے باقی صوبوں کے برعکس روزہ رکھواتے اور پہلے عید کرا دیتے تھے۔ اس وقت کے پی کے میں پیپلز پارٹی حکومتی حلیف تھی جو وفاق کے ساتھ سندھ و بلوچستان میں بھی برسر اقتدار تھی مگر سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں کے پی کے میں پہلے روزہ رکھنے اور عید منانے کے اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی اور پانچ سالوں تک اے این پی مسلمانوں میں نااتفاقی پیدا کرنے والوں کی سرپرستی کرتی رہی۔
دنیا گول اور علاقائی صورتحال مختلف ہونے کی وجہ سے چاند کہیں جلد نظر آجاتا ہے کہیں تاخیر سے اور متعدد بار ایسا بھی ہوچکا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہی پاکستان میں رمضان المبارک کا آغاز بھی ہو اور عید بھی ایک ہی روز منائی گئی جس پر عالم اسلام میں بھی ایک خوشگوار احساس پیدا ہوا اور پاکستان کے مسلمانوں میں بھی اتفاق پیدا ہو جو ایک بار پھر مفتی کی من مانی کی نذر ہوگیا۔
ملک میں چاند دیکھنے کے لیے سرکاری طور پر رویت ہلال کمیٹی قائم ہے جس میں ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام اور محکمہ موسمیات کے ذمے داران شامل ہیں جو خاص طور پر رمضان المبارک کے چاند کی اہمیت کے باعث ملک کے دور دراز علاقوں سے چاند نظر آنے کی مستند شہادتیں جمع کرکے خود بھی متفق ہوکر چاند نظر آنے کا اعلان تو کرتے ہیں۔ اب جدید مواصلاتی سہولیات دستیاب ہونے کے مواقعے ہیں مگر شاید ان سے بھرپور استفادہ حاصل نہیں کیا جاتا اور موبائل فونز، واٹس ایپ و دیگر سائنسی سہولیات کے باوجود متفقہ فیصلے میں ہمیشہ ہی تاخیر ہوجاتی ہے اور لوگ مساجد میں تراویح کے انتظار میں رہتے ہیں اور باہر چاند کا انتظار ہوتا رہتا ہے۔
موجودہ جدید دور میں سائنس کے ذریعے کئی روز پہلے میڈیا پر چاند کی صورتحال اور یکم رمضان ہونے کا بتا دیا جاتا ہے مگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپنے شرعی طریقے پر جس طرح عمل کرکے شہادتوں کی منتظر رہتی ہے اس میں تبدیلی لانے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ چاند کی رویت کا اعلان جلد سے جلد کیا جاسکے اور انتظار کرنے والے تراویح پڑھیں یا نہ پڑھنے کے لیے مساجد میں بیٹھے رہتے ہیں اور بعض دفعہ مایوس ہوکر تراویح شروع کرادی جاتی ہیں اور درمیان میں چاند ہو جانے یا نہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو تراویح ختم کرکے وتر پڑھے جاتے ہیں اور عصر کے بعد سے منتظر اعتکاف میں بیٹھے حضرات گھروں کو روانہ ہوتے ہیں۔ کے پی کے مسجد والوں کو جدید حکومتی سہولیات نہ ہونے کے باوجود نہ جانے جلد کیسے شہادتیں مل جاتی ہیں کہ جدید دوربین والوں کو چاند اونچی جگہ سے نظر نہیں آتا مگر نیچے والوں کو نظر آجاتا ہے۔
چاند کی تصدیق کوئی مذاق نہیں اہم شرعی مسئلہ ہے اور آج کے دور میں بعض لوگ نام کے چکر میں انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر جاتے ہیں اور غلط شہادت دے کر ملک میں دو عیدوں کا سبب بنتے ہیں جس سے غیر مسلم دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے اور اپنے اہم مذہبی تہوار پر بھی متفق نہ ہونے پر مسلمانوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔چاند کی رویت کو ہمیشہ رمضان المبارک کے آغاز پر ہی مسئلہ بنایا جاتا ہے اورکسی ماہ کے چاند کو ایشو نہیں بنایا جاتا۔ عیدالاضحی اور محرم الحرام میں یوم عاشور چاند کے دس روز اور ربیع الاول میں عید میلاد النبی بارہ روز بعد ہونے سے دنیا بھر میں عاشورہ ایک ہی روز ہوجاتا ہے اور مسلم اتفاق برقرار رہتا ہے مگر رمضان اور عید کے چاند اپنی الگ اہمیت کے باوجود نااتفاقی کا شکار بنا دیے جاتے ہیں۔
کسی صوبائی حکومت کی بجائے وفاقی حکومت اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ملک بھر میں ایک ہی روز روزہ اور عید منانے کے اس اہم مسئلے پر خاص طور پر غور کرکے کوئی متفقہ فیصلہ کرانا چاہیے جس سے چاند کی رویت کا اعلان جلد ممکن ہوسکے۔ مرکزی اجلاس میں پہلے اعلان کرکے موجود شرکا کے نام بھی بعد میں لیے جاسکتے ہیں۔
روزوں کے سلسلے میں دنیا بھر میں صرف اہل تشیع اپنے حساب سے سحر اور افطار کا وقت طے کرتے ہیں جب کہ دیو بندی، بریلوی، اہل حدیث کا سحر و افطار کا ایک ہی وقت مقرر ہوتا ہے جو میڈیا پر بھی واضح کہا جاتا ہے مگر اکثر اس سلسلے میں بھی ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ رمضان میں سائرن بجانا تقریباً ختم ہوگیا ہے اور بعض مساجد میں سائرن لاؤڈ اسپیکر پر بجائے جاتے ہیں اور سحری شروع اور ختم ہونے کا وقت بھی بتایا جاتا ہے مگر روزہ افطار کے وقت بعض مساجد میں احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور وقت مقررہ پر تمام مساجد میں کسی مقررہ اصول کے تحت اذان نہیں دی جاتی بلکہ مختلف مساجد میں الگ الگ وقت پر اذان دی جاتی ہے اور بعض مساجد میں جب ہر جگہ اذانیں دی جاچکی ہوتی ہیں تو وہاں سحر اور افطار کے لیے اذان شروع ہوتی ہے اور منتظر افراد میں اس وقت نااتفاقی دیکھی جاتی ہے کوئی پہلی اذان پر روزہ افطار کرلیتا ہے تو کوئی کسی اور اذان پر افطار کرتا ہے اور جلد بازی پر تنقید بھی ہوجاتی ہے۔
مساجد میں علمائے کرام رمضان المبارک میں خصوصی درس اور روزے کے معاملے میں احتیاط کرنے، زکوٰۃ اور فطرہ ادا کرنے کے شرعی طریقے بتاتے ہیں جس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ سال میں صرف رمضان میں نماز پڑھنے والے اکثریت میں ہیں اور وہ گیارہ ماہ مسجد سے دور رہ کر مسجد کے آداب تک بھول جاتے ہیں ان کی رہنمائی کے لیے مساجد میں کبھی کبھی کی بجائے مستقل درس خواہ وہ مختصر ہی ہو روزانہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے مسلک پر عمل ہر شخص کا حق ہے مگر دوسرے کے مسلک کا احترام بھی سب سے ضروری ہے مگر بعض علما اس پر بھی توجہ نہیں دیتے اور دین میں بھی سیاست کا ذکر کر ہی دیتے ہیں جس سے مساجد میں بھی نااتفاقی کے واقعات پیش آجاتے ہیں جب کہ علما کا تو مسلمانوں میں ہر صورت اتفاق برقرار رکھنا ضروری ہوچکا ہے۔