ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ

قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے روشن ہیں۔


ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو حضورؐ سے نہ صرف محبت تھی بل کہ شغف و عشق تھا۔ فوٹو: فائل

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ وہ خوش قسمت ترین خاتون ہیں کہ جنھیں حضورؐ کی زوجہ محترمہ اور ام المومنین ہونے کا شرف اور ازواج مطہراتؓ میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپؓ کے فضائل و مناقب سے روشن ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالی کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز تک نہیں سنی، چناں چہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔ (بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہؓ کے کاشانۂ نبوتؐ میں حرم نبویؐ کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا۔ آپؓ کو کم و بیش دس سال حضورؐ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ خود صاحبِ قرآن ﷺ سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا، اس کا مفہوم سمجھ لیتیں۔ آپؓ نے کلامِ الہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالتؐ کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم کی بھی ماہر تھیں۔ اللہ رب العزت نے آپؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سات سال کی عمر میں حضورؐ سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں، وہ کوئی عالی شان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبویؐ کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کُھلتا تھا، گھر یا حجرے کا صحن ہی مسجد نبوی کا صحن تھا۔ حضورؐ اسی دروازہ سے مسجد میں تشریف لے جاتے، جب آپؐ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے، حضرت عائشہؓ اسی جگہ سے بالوں کو کنگھا کردیتیں۔ (صحیح بخاری بہ حوالہ سیدہ عائشہؓ)

حجرے کی وسعت چھے، سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجور کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کے لیے دو برتن تھے۔ پانی کے لیے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لیے ایک پیالہ تھا۔ کبھی کبھی رات کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ (از مسند طیالسی)

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو حضورؐ سے نہ صرف محبت تھی بل کہ شغف و عشق تھا۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ حضورؐ کی اطاعت و فرماں برداری اور آپؐ کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں۔ اگر ذرا بھی آپؐ کے چہرے پر حزن و ملال کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہوجاتیں۔ حضورؐ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتی تھیں۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس ﷺ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ آپؓ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں، اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں۔ آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کی پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الہی میں اکثر مصروف رہا کرتی تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ نماز تہجد کا بھی اہتمام کیا کرتی تھیں۔ حضور ﷺ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریبا ہر سال حج کے لیے تشریف لے جاتیں۔
(بخاری شریف)

حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، جب حضورؐ اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ ان کی تقریبا ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقر و فاقہ میں گزر گئی۔ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تو ہم کھا لیتے۔
(بخاری شریف)

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اسی طرح غزوۂ ذات الرقالح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمّم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک توسط سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرامؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور آپؐ کی قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیں، ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے۔ حضرت عائشہؓ سے حضورؐ کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔

حضرت ابوموسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسول ﷺ کو کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آئی جس کو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہمیں نہ ملی ہوں۔

امام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالمہ تھیں، بڑے بڑے صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے۔

58ھ میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی عمر67 سال کی ہوچکی تھی۔ اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علیل رہیں اور17 رمضان المبارک کی رات، رحمت دو عالم ﷺ کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر رخصت ہوگئیں۔ سیدنا حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں