قرب کے فیصلے دوری کے فیصلوں سے بہتر ہیں کیونکہ

سچ لازوال ہے۔ قرب کے فیصلے دوری کے فیصلوں سے بہتر ہوتے ہیں اور ویسے بھی بندہ اللہ سے دور جائے ہی کیوں؟


جب اللہ قریب آجائے تو فیصلے بدل جاتے ہیں، آدمی درگزر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ و الزام کی کوئی نہ کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

دوری و نزدیکی اور بُعد و قرب کا ہماری زندگی میں کیے جانے والے فیصلوں پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ دور سے کوئی چیز کچھ نظر آتی ہے تو قریب سے کچھ۔ بُعد و قرب کے فرق سے خبر بدل جاتی ہے۔ دور سے دِکھائی دینے والا سیاہ رنگ قریب پہنچ کر جامنی یا بنفشی نظر آتا ہے۔ دور سے نظر آنے والی موٹر سائیکل قریب پہنچ کر گاڑی معلوم ہوتی ہے اور دور سے نظر آنے والا ایک بے ہنگم ہیولا قریب آنے پر ایک مکمل گھر نکلتا ہے۔

قوت مشاہدہ وہ طاقت ہے جو آپ کو کسی شے کی معلومات پہنچاتی ہے اور اُس کی پہنچ حواس خمسہ کی مرہون منت ہے۔ آپ سُن سکتے ہیں مگر کتنے دور تک؟ کتنا اونچا یا کتنا آہستہ؟ آپ دیکھ سکتے ہیں مگر کتنی دور تک؟ آپ چکھ سکتے ہیں مگر کتنے ذائقے؟ اور چکھ لینے کے بعد بھی کون سا آپ ہر ذائقے کی تعریف کر پائیں گے؟ آپ محسوس کرسکتے ہیں ٹھنڈا گرم، ہوا و حبس مگر اِس کی بھی حد ہے، اور آپ سونگھ سکتے ہیں مگر کتنی خوشبوئیں؟ کتنا کچھ پہچان پائیں گے؟ ہمارے حواس خمسہ ایک محدود دائرے میں رہتے ہوئے ہمیں مشاہدے کی طاقت دیتے ہیں۔ یہ مشاہدات خیالات کو جنم دیتے ہیں اور اِن خیالات کی پرکھ عقل کی کسوٹی پر کرکے ہم کوئی نتیجہ نکال پاتے ہیں۔

عشق وہ حِس ہے جو بعد سے قُرب کا سفر طے کرتی ہے اور یہ سفر سارے ماحول کو بدل دیتا ہے۔ چیزوں کے معنیٰ، اجسام کی حیثیت، خواہشوں کی حقیقیت، لطف و کرم کا حساب، بندگی کا ادراک اور خدائے برتر کی بزرگی سب سمجھ آنے لگتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ دوری میں کیے گئے فیصلے، قرب میں کیے گئے فیصلوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ آپ کا محبوب آپ سے دور ہو، آپ کو کبھی کبھار یاد آتی ہو تو ایسے میں کوئی کام نکل آئے تو آپ اُسے دیکھ لیں گے۔ مگر اب یہی محبوب آپ کے پہلو میں بیٹھا ہو تو؟ اب ایک فون کال، ایک ایس ایم ایس بھی طبیعت پر گراں گزرے گا کہ کوئی تنگ نہ کرے۔ ایک دنیا کو آگ لگ جائے، آپ کو کیا پروا۔

بالکل اسی طرح زندگی میں ہزارہا فیصلے ہم ایسے کرتے ہیں کہ جب اللہ سے دوری پر ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کچھ نظر آتا ہے ایک خیال کی طرح، حواسِ خمسہ کے شکنجے کے اسیر۔ نہ اُس کی محبت کا یقین ہوتا ہے نہ ہی قدرت کا اِدراک، نہ ہی ستاروں کا مشاہدہ اور نہ ہی کبریائی کا علم۔ ایسے میں بندہ بہت سے فیصلے سرِدست موجود عوامل کو دیکھتے ہوئے کرتا ہے۔ مثلاََ اَنا تو سامنے کی چیز ہے۔ اب وہ بدلہ لیتا ہے، تڑی لگاتا ہے، حکم دیتا ہے اور اُس کی فوراََ تعمیل چاہتا ہے۔ اپنے نفس، شہوت اور غصّے کا غلام ہوجاتا ہے۔ حتٰی کہ یہ من مانیاں اور نفسانی وارداتیں اُس کے شعور کو گِھس گِھس کر ختم کردیتی ہیں، اور بغیر شعور کے اِنسان کی حیثیت بالکل وہی ہے جو پانی کی بغیر نمی کی یا آگ کی بغیر حدّت و تپش کی، یعنٰی کہ بے کار۔

شعور مٹ جائے تو روح پر فالج گرجاتا ہے، معرفت اپاہج ہوجاتی ہے، فراست اندھی ہوجاتی ہے، اِس بے کسی و لاچاری کا علاج عشق ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو بعد و قرب کا فرق مٹاتی ہے۔ یہ آنسوؤں کا وہ غسل ہے جس سے ہر قسم کا فالج جاتا رہتا ہے۔

جب اللہ قریب آجائے تو فیصلے بدل جاتے ہیں، آدمی معاف کرنا، درگزر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ سچائی کے آگے سرنگوں کردیتا ہے۔ سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ و الزام کی کوئی نہ کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔ سچ لازوال ہے۔ قرب کے فیصلے دوری کے فیصلوں سے بہتر ہوتے ہیں اور ویسے بھی بندہ اللہ سے دور جائے ہی کیوں؟

اے اللہ! معاف کردے، پچھلی زندگی دوری کے فیصلوں میں گزر گئی، اپنے قرب سے آشنا کر۔ مجھے تو محبت کا چسکہ چڑھا ہوا ہے، میں تو عادی گناہگار ہوں۔ میں تو ایک دنیا کی محبت تیاگ کر تجھ تک پہنچا ہوں۔ میرے دل میں تو سوائے تیرے سب کچھ ہے۔ تو اُلٹ دے، تو بازی پھیر دے۔

تو نواز دے معرفت کا رس اُس چشمے سے پلا جو عرش سے بہتا ہو۔ اے روزِ جزا کے مالک بے حساب دے، بے نصاب دے، بے وجہ دے (بے شک تیرا فضل کسی وجہ کا محتاج نہیں)

اے شہ رگ سے قریب اللہ، اے قُرب کے بادشاہ اللہ، تیرے پاس پہنچے بڑی دور ہوکر۔ تو قبول کرلے اُس قرب کے صدقے جو تجھے تیرے حبیب ﷺ سے تھا معراج میں۔ اُس قُرب کے صدقے جس کی دہائی حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں دی تھی۔ اُس قرب کے صدقے جس پر حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کا یقین تھا۔ اُس قرب کے صدقے جو چھری کو حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کی گردن سے تھا اور اُس قرب کے صدقے جو حضرت ایراہیم علیہ السلام کو آگ سے تھا اور اُس قرب کے صدقے جو صدیق رضی اللہ عنہہ کو غارِ ثور میں تیرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔

مجھے مجھ سے آزاد کر کہ میں تجھے تجھ سے سیکھ سکوں۔
آمین یا رب العالمین

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں