الزامات تحفظات اور خدشات
اُن سے جواب طلب کرتی اور خود اپنے طور پر تحقیقات کرتے ہوئے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی
پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے بننے والی جے آئی ٹی آج کل الزامات، شکایات اورخدشات کی زد میں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پہلے دن ہی سے اُس کی تشکیل اور کارکردگی سے متعلق کچھ شکایات رہی ہیں۔اکتوبر 2016ء میں ہماری سپریم کورٹ نے اِس کیس کی شنوائی شروع کی اور تقریباً چھ ماہ کاعرصہ لیا اور تحقیقات پھر بھی مکمل نہ ہو پائیں۔تقریباً ڈیڑھ ماہ تک ''فیصلہ'' محفوظ رکھنے کے بعد یہ کام جے آئی ٹی کے سپرد کردیا گیا۔ جسے اِس کام کے لیے محض دوماہ کا قلیل وقت دیا گیا اورغیر جانبداری برقرار رکھنے کی غرض سے اُس کے افسروں کاانتخاب بھی بظاہر اِسی سپریم کورٹ نے خود اپنے ذمے لے لیا۔عدالت نے اپنی دانست میں ایسے افراد چنے جن کے دامن پرکرپشن، یا کسی غلط کام کے داغ نہیں لگے ہوئے تھے۔
وہ بظاہر ہیروں جیسے صاف شفاف صفات کے حامل جیسے لوگ تھے۔اُن کے انتخاب کے لیے کیا ترجیحات ملحوظ خاطر رکھی گئی اور کس طرح صرف ایک دن میں اُن سب کاانتخاب عمل میں لایا گیا یہ کسی کو بھی نہیں معلوم۔ اِسی دوران واٹس اپ کالز والے انکشاف نے اِس ضمن میں عدالت کے اِس انتخاب پر بہت سے سوالوں کو جنم دے ڈالا ۔ عدالت کے روبرو یہ مسئلہ بڑی شدت کی ساتھ اُٹھایاگیا لیکن عدالت نے اِس جانب کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ جے آئی ٹی کو اپنا کام جاری رکھنے کا حکم دے ڈالا۔دو ماہ کی مقررہ مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقات کا عمل انتہائی جلد بازی میں شروع ہوگیا۔ابتدا میں ایک گواہ طارق شفیع جو میاں نواز شریف کے کزن ہیں کی جانب سے جے آئی ٹی کے کچھ ارکان کے دباؤکی شکایات کی گئیں۔ اُنہوں نے باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وہ اِس معاملے کو دیکھے۔مبینہ طور پر جے آئی ٹی کے کچھ لوگوں نے طارق شفیع سے اپنا ایک سابقہ حلفیہ بیان واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا۔کس نے اُنہیں تنبیہ کی اور دھمکیاں دیں یہ تحقیق کی جانی چاہیے تھی۔
اِسی طرح ایک اور گواہ نیشنل بینک کے صدر سعیداحمد نے بھی سپریم کورٹ کو ایک تحریر ی شکایت میں اپنے ساتھ ہونے والے کچھ اِسی طرح کے تضحیک آمیز برتاؤ کا ذکر کیا ہے۔جے آئی ٹی کے کچھ ارکان واضح طور پر میاں نواز شریف کو ملوث کرنے کی غرض سے کس کس طرح سے اُن پر دباؤ ڈال رہے ہیںاور اُنہیں وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں ایسی خبریں مختلف ذرایع سے عوام کو ملتی رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کو پاناما کیس کی شفاف تحقیقات کی بجائے میاں نواز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ حاصل کرنے سے غرض لاحق ہے۔ قطری شہزادے کی جانب سے اپنے خط کے مندراجات کی من وعن تصدیق کے بعد شاید اُس کے پاس صرف یہی ایک راستہ رہ گیا ہے کہ کسی طرح میاں نواز شریف کے خلاف کوئی وعدہ معاف گواہ تیارکرلے اورکچھ قوتوں کی خواہشوں کے عین مطابق رپورٹ پیش کردے۔ نتیجتاً جے آئی ٹی کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اُٹھنے لگے اور وہ ایک متنازع شکل اختیارکرگیا۔
دوسری جانب سے یعنی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی کچھ لوگ روزانہ کی بنیاد جے آئی ٹی پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے۔اُنہیں معلوم ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان ہمارے سویلین محکموں سے لیے گئے عام لوگ ہیں۔ لہذا اِسی لیے وہ اُس پر تنقید اوراعتراض کرنے میں کسی پس وپیش سے کام بھی نہیں لے رہے۔بلکہ جارحانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے اُن کے خلاف اب دھمکیوں پر بھی اتر آئے ہیں۔جیسے جیسے کارروائی آگے بڑھتی جارہی ہے، معاملہ اور بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ ہماری وہ سپریم کورٹ ابھی تک خاموش ہے جس کے حکم پر یہ جے آئی ٹی بنائی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے افسروں کے خلاف مخالف فریق کی جانب سے اُٹھائے گئے اعتراضات کو لائق اعتناء گردانتے ہوئے اُن کی ماہیت اور حقائق پر غوروفکرکرتی۔جن لوگوں پر اعتراضات اورسوالات اُٹھائے گئے تھے۔ اُن سے جواب طلب کرتی اور خود اپنے طور پر تحقیقات کرتے ہوئے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی۔واٹس اپ کالز پر منتخب کیے گئے ارکان کے بارے میں معلومات حاصل کرتی۔ جن گواہوں پر ناجائز دباؤ ڈالا جارہا ہے یاایسے الزامات سامنے آرہے ہیں تو اِس بارے میں بھی جے آئی ٹی کے دیگر ارکان سے مد د لی جاتی۔
مگر نجانے عدلیہ نے ابھی تک ایسا کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھا۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے الزامات اور جوابی الزامات کاسلسلہ بڑھتا جارہاہے اور صورتحال خلفشار کی جانب بڑھتی جارہی ہے۔ ادھر تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اب دھمکی دے دی ہے کہ اگر جے آئی ٹی پر کوئی حملہ ہوا تو وہ اپنے کارکنوں کو ردعمل کے طور پر سڑکوں پر لے آئیں گے۔ ایسی صورتحال میں حالات کے بے قابو ہو جانے کا ذمے دار ی کس پر ہوگی۔ عدلیہ اگر یونہی خاموش تماشائی بنی رہی تو پھر یقینا تیسری قوت کو مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ اُس قوت کو جس کے آگے کوئی کچھ نہیں بولتا۔
ہمیں یاد ہے پرویز مشرف نے ہماری عدالت عظمیٰ حاضر سروس چیف جسٹس کو اپنے درپہ بلاکر کس طرح ڈرایادھمکایا تھا اور انکار پر معزول کرکے نظر بند کردیا تھا۔پھر نہ کوئی توہین عدالت کا مقدمہ بن سکا اور نہ کسی قسم کی جواب طلبی ہوپائی۔ چیف جسٹس کے جانے سے جوخلاء پیدا ہوگیاتھا اُس کو پر کرنے کے لیے بھی کچھ لوگ فوراً اُسی عدالتی ادارے میں سے نکل کر خدما ت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوگئے۔اور اُس وقت تک کام کرتے رہے جب تک میاں نواز شریف عدلیہ بحالی کی تحریک کے کارواں کو لے کرگوجرانوالہ تک نہیں پہنچ گئے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگایہ میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں 2008ء کے اپنے تمام منتخب ارکان پارلیمنٹ سے یہ عہد لیا تھاکہ جب تک عدلیہ کو بحال نہیں کروائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
یہ وہی پرویزمشرف تھا جواپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی اتناطاقتور اور بااثر تھا کہ عدالت کے روبرو اپنی کسی پیشی پر پیش نہیں ہوا۔آئین سے بغاوت کے جرم میں اپنے خلاف کسی مقدمے کو وہ خیال خاطر میں نہ لایا۔اُس کاجب تک بس چلا تمام مراعات کے ساتھ مزے کرتا رہا اور جب جی چاہا خرابی صحت کا بہانہ بناکر ترک وطن کرگیا۔اپنے نو سالہ دورِ اقتدار میں اس کے اکاؤنٹس میں بھی کچھ عرب شہزادوں کی جانب سے اربوں ڈالرز شامل کیے گئے، لیکن وہ پاکستان کی کسی عدالت کو بھی اُس کی تفصیل بتانے کا روادار نہیں تھا۔ ہماری کوئی عدالت اِس بارے میں اُن سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتی۔ وہ اُنہیں اُن کی مرضی ومنشاء کے خلاف طلب بھی نہیں کرسکتی۔ای سی ایل میں نام شامل ہونے کے باوجود وہ جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں اور جب چاہیں یہاں سے جاسکتے ہیں۔ کوئی اُنہیں روک نہیںسکتا۔حکومت عدالت سے پوچھتی اورعدالت یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتی کہ ای سی ایل سے نام خارج کرنا ہماری ذمے داری نہیں۔ کوئی عمران خان اور کوئی مائی کالال اُن کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
جے آئی ٹی سے اگر ہمارے کچھ لوگوں کو تحفظات ہیں توخود جے آئی ٹی کے ممبران کو بھی ہمارے کچھ سیاستدانوں کی جانب سے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی شکایات ہیں۔ اُنہوں نے بھی عدالت عالیہ کے روبرو ایک درخواست جمع کروادی ہے کہ کس طرح اُنہیں ایک قومی فریضے کی ادائیگی سے روکا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتِ دونوں فریقوں کی شکایت سنکر کیا ایکشن لیتی ہے۔جوڈیشل اکیڈمی کے اندر سے حسین نواز کی تصویر کااجراء اورایمبولینس کا طلب کیا جانا ایسے سارے معاملات تحقیق کے متقاضی ہیں۔ اُنہیں یوں حالات اور وقت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جوبھی فریق اِس میں ملوث پایا جائے اُسے قرارواقعی سزادی جائے۔