اتحادوں کی سیاست
پاکستان کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ نہ حکمرانی صحیح ہے، نہ سیاست میں کوئی اصول وضابطہ ہے۔
اونٹ کی کون سی کل سیدھی کے مصداق پاکستان کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ نہ حکمرانی صحیح ہے، نہ سیاست میں کوئی اصول وضابطہ ہے۔جب خود رہبر ہی راہ سے بھٹکے ہوئے ہوں، تو ان سے راہبری کی توقع چہ معنی دارد ۔جمہوریت کی خواہش اپنی جگہ، مگرجمہوری مزاج کے بغیر جمہوریت کہاں سے آئے گی۔اسٹبلشمنٹ نے جو کچھ کیا برا کیا مگر سیاست دان کونسا اچھا کر رہے ہیں۔جب اہل دانش مفادات کی گرداب میں پھنسے ہوں، تو ان سے علم وآگہی کی گتھیاں سلجھانے کی توقع کیسی۔ یہ کیسا عالم ہے کہ جوکچھ خود کریں، وہ جائز، مگردوسرا کرے تو ناجائز۔جس کی مثال مسلم لیگ(ن) کا پارلیمان کے گھیرائوکا اعلان ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ ابھی چند روز قبل ہی اس جماعت نے علامہ طاہر القادری کے دھرنے کو غیر آئینی قرار دے کر ردکیا تھا۔
حالات جس نہج پر چل رہے ہیں، معاملات جس ڈگرپرجا رہے ہیں اورجس انداز میں سیاسی تقطیب (Polarization)ہو رہی ہے ۔انھیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان ایک ایسے سیاسی ٹکرائو کی جانب بڑھ رہا ہے،جس کی کوئی واضح سمت نہیں ہے۔اس لیے ایک طرف انتخابات کا بروقت انعقاد مشکل نظر آ رہا ہے۔دوسری طرف ریاستی ڈھانچے کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جوسیاسی اتحاد وجود میںآ رہے ہیں،وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر نظریات کے بجائے سیاسی مفادات کی بنیاد پر بن رہے ہیں۔یہی سبب ہے کہ جس طرح ان اتحادوں کے ماضی میں کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے،اب بھی یہی خطرہ ہے کہ متعین کردہ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔بلکہ بعض حلقے تواس خدشہ کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ نئے اتحادجس اندازمیں قائم ہورہے ہیں،اس کے نتیجے میں سیاسی تقطیب کے پرتشددہونے کی صورت میںسیاسی انتشار میںمزید اضافہ کا امکان ہے۔جس کے براہ راست اثرات ملک کی مجموعی سیاسی اور انتظامی صورتحال پر مرتب ہوسکتے ہیں۔اس صورتحال کا فائدہ ان قوتوں کو پہنچے گا،جوانتخابات کو کئی برس کے لیے ملتوی کرانے کی خواہش رکھتی ہیں۔
اب جہاں تک سیاسی اتحادوں کا تعلق ہے،تو دنیا بھر میںقائم ہونے والے اتحادوںکے پس پشت کوئی نہ کوئی نظریہ یا اصول کارفرماء ہوتا ہے۔پڑوسی ملک بھارت میں سیاسی اتحاد سیکیولرازم کے تحفظ یا ہندوتوا کے فروغ کے لیے قائم ہوتے ہیں۔مگر پاکستان میں سیاسی اتحادوں کی تشکیل میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں پایاجاتا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے ،تو سب سے پہلا سیاسی اتحاد سابقہ مشرقی پاکستان میں قائم ہونے والا جگتو فرنٹ تھا۔ جس نے 1954ء میںہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں381کے ایوان میں243نشستیںحاصل کرکے فقید المثال کامیابی حاصل کی ۔ مگراس اتحاد کی حکومت کو صرف دوماہ بعد ہی گورنر جنرل ملک غلام محمد نے برطرف کردیا اور مشرقی پاکستان کے گورنرچوہدری خلیق الزماں کی جگہ وزیرخزانہ جنرل اسکندرمرزاکو نیا گورنر مقررکرکے جگتوفرنٹ کی اصلاحات کو کالعدم قراردے دیا،یوں اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ اس کے بعد جو سیاسی اتحاد قائم ہوئے ان میں زیادہ تر فوجی آمریتوں کے خاتمے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر قائم ہوئے ۔دوسرے اتحاد سیاسی ادوار میں سیاسی حکومتوں کے خلاف قائم ہوئے۔اگر ان اتحادوں کا جائزہ لیا جائے تو انھوں نے بے شک کچھ کامیابیاں تو ضرور حاصل کیں،مگرمنطقی انجام اچھا نہیں ہوا۔ ایوب خان کے خلاف کئی اتحاد قائم ہوئے، مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔
پاکستان کی تاریخ کاایک اہم سیاسی اتحاد پاکستان نیشنل الائنس(PNA) تھا۔اس اتحاد میں مختلف الخیال سیاسی جماعتیں بھٹو حکومت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوئیں۔مگریہ اتحاد جمہوریت کو مستحکم کرنے کے بجائے اسے پٹری سے ہٹانے (Derail) کا سبب بنا۔اس اتحاد کی وجہ سے قوم کو گیارہ برس تک جنرل ضیاء کی آمریت کو بھگتنا پڑا۔دوسراقابل ذکر سیاسی اتحاد تحریک برائے بحالی جمہوریت (MRD) تھا۔ اس اتحاد کا مقصد جنرل ضیاء الحق کو جمہوریت اورسیاسی عمل بحال کرنے پر مجبورکرنا تھا۔اس میں بھی مختلف نظریات کی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔اس اتحاد کا انجام بھی ہم سب کے سامنے ہے۔یعنی جنرل ضیاء کے فضائی حادثے میں انتقال کے بعد یہ اتحاد ہوا میں تحلیل ہوگیا۔پھرپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں کے خلاف بھی اتحاد قائم ہوتے رہے، مگر ان اتحادوں نے حکومتوںکو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے فارغ کرنے کے علاوہ کوئی خدمت سرانجام نہیں دی۔اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلافARDقائم کی گئی ۔مگر اس کا انجام بھیMRDسے مختلف نہیں ہوا۔ایک طرف ملک کی دوبڑی جماعتیں اس اتحاد کے بینرتلے میثاق جمہوریت پر دستخط کررہی تھیں، وہیںدوسری طرف NROبھی ہورہاتھا۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس قسم کے غیر فطری اتحاد ملکی مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنتے رہے ہیں۔
اب2008ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب آتے ہیں۔پیپلزپارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی۔ یہ تینوںجماعتیں لبرل ہونے کی دعویدار ہیں۔ توقع تھی کہ یہ تینوں جماعتیں مذہبی شدت پسندی کے خلاف مشترک لائحہ عمل تیار کریں گی۔ملکی اور علاقائی امور کے حوالے سے حقیقت پسندانہ روش اختیار کریں گی۔لیکن گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یہ جماعتیں ایشوز کی ترجیحات کا تعین کرنے میںمکمل ناکام ہیں۔انھوں نے نظریاتی بنیادوں پرتقویت دینے کے بجائے ایک دوسرے کی سیاست کو زک پہنچانے اور زچ کرنے میں وقت ضایع کیا۔اس کے علاوہ مسلم لیگ(ق)کی حکومت میں شمولیت سے ان تینوں جماعتوں کے لبرل اورسیکیولر ہونے کا دعویٰ بھی مشکوک ہوگیاہے۔لہٰذا پاکستان میں لبرل اور سیکیولر خیالات کے حامی حلقوں کے لیے ان میں سے کسی جماعت کا انتخاب مشکل ہوگیاہے۔جس کے نتیجے میں بائیں بازو کا ووٹر فکری انتشار اور تقسیم کا شکار ہوگیا ہے۔
دوسری طرفRight to Centre رجحان رکھنے والی جماعتوں میں مسلم لیگ(ن) اورتحریک انصاف نمایاں ہیں۔یہ دونوں جماعتیں شخصی اختلافات اوراقتدار کی رسہ کشی کا شکار ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے بہت بڑاچیلنج بن چکی ہیں۔ان کی سیاسی ترجیحات اور نظریات بھی غیر واضح اور مبہم ہیں۔ مذہبی شدت پسندی، خطے کے ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات اور معاشی نمو کی حکمت عملیوں کے بارے میںتحریک انصاف کسی قسم کا کوئی واضح موقف اختیار نہیں کرسکی ہے، بلکہ جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ محض رومانیت سے زیادہ کچھ نہیں۔جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ(ن)ہے، جو اندرون ملک اسٹبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں واضح موقف رکھنے کے باوجود مذہبی شدت پسندوں کے بارے میں غیر واضح موقف رکھتی ہے۔ ان جماعتوں کااختلاف اور دشمنی دائیں بازو کے سیاسی ایجنڈے کونقصان پہنچانے کے علاوہ ووٹ کو تقسیم کرنے کابھی سبب بن رہا ہے۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے،تو انھیں مذہبی سے زیادہ مسلکی جماعتیں کہنا زیادہ بہتر ہوگا،کیونکہ ان کی ترجیحات وسیع تر مذہبی بنیادوں کے بجائے مسلکی مفادات تک محدود ہے۔یہ جماعتیں بھی قومی اور علاقائی مسائل پرغیر واضع اور مبہم رویوں کی حامل ہیں۔ افغان جنگ کے مضمرات ، بھارت کے ساتھ تعلقات اور پاکستان میں انتظامی اصلاحات کے بارے میں بھی یہ جماعتیں کوئی ٹھوس اور واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام ہیں۔ان کے درمیان اتحاد ان کی سیاسی بصیرت اور نیک نیتی کے بجائے پس پردہ قوتوں کاکارنامہ رہاہے۔اس لیے ان جماعتوں یا ان کے اتحاد سے کسی قسم کی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اب مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ایک نیا اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے،اس سے بھی انھی بنیادوں پر بہترنتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ اس میںایک طرف سندھی قوم پرست جماعتیں، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی جیسی سیکیولر مزاج کی جماعتیں ہیں،جب کہ دوسری طرف جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی بنیاد پرست جماعتیں شامل ہیں ۔یہ اتحاد ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو آیندہ انتخابات میں نقصان پہنچائے، مگر بہت سے اہم قومی اور علاقائی ایشوز پر ان کے مختلف نقطہ نظرکی وجہ سے اہم قومی امور پر ٹھوس پالیسی کی تشکیل میں رکاوٹ بنے گا۔مثال کے طور پر افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد کی صورتحال، بھارت کے ساتھ تعلقات اور قومی پالیسیوں کی تشکیل میں اتحاد میں شامل جماعتوں کے اختلافات کھل کر سامنے آسکتے ہیں۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ جب لبرل رجحانات رکھنے والی تین جماعتیں پیپلز پارٹی، ANPاورMQMان امور پر واضح پالیسی سازی نہیں کرسکیں،تو مختلف الخیال جماعتوں کے اتحادسے ان امور پر یکساں موقف اختیار کرنے کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔
اس لیے یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اس قسم کے اتحاد وقتی فوائد کا سبب تو ضرور بنتے ہیں، لیکن قومی سطح پر عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔موجودہ سیاسی منظر نامے میں جس انداز میں سیاسی تقطیب ہورہی ہے اور جس طرح سیاسی بنیادوں پر دشمنیاں جنم لے رہی ہیں،اس سے سیاسی عمل کو نقصان پہنچنے اور ان قوتوں کو فائدہ پہنچنے کا قوی امکان ہے، جو انتخابات کو طویل عرصہ کے لیے ملتوی کرنے کی خواہش رکھتی ہیں، جس کا خدشہ گزشتہ دنوں سینیٹررضا ربانی نے بھی کیا ہے۔