بھارت کا اصل چہرہ
ممبئی حملہ بھی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کوتاہی کا نتیجہ تھا یہ انکشافات بھارتی میڈیا کی رپورٹوں میں کیےگئے تھے
لاہور:
پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال تعلقات کی بحالی، امن کی تلاش اور خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے ثقافتی، تجارتی اور عوامی مفاد عامہ کے حوالے سے جو اقدامات کیے گئے تھے تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سیاسی و حکومتی سطح پر بھی کشیدگی ختم اور خوشگوار دوستانہ مراسم کی بنیادیں مستحکم ہوں گی اور دونوں ملک دفاع کے نام پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے اب یہ رقم اپنے غریب و پسماندہ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کریں گے اور یوں خطے میں جنگ و جدل کے بادل چھٹ جائیں گے اور خطے میں امن کا پرچم لہرانے لگے گا تمام متنازعہ معاملات بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کی راہیں ہموار ہوں گی اور جامع مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا مطلوبہ اور قابل قبول حل تلاش کر لیا جائے گا اس حوالے سے پاکستانی فوج کے ''ڈاکٹرائن'' میں تبدیلی کی خبروں کو بھی خاص اہمیت دی جا رہی تھی کہ جس کے مطابق دہشت گردی کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دونوں ممالک کے امن پسند حلقوں کے خواب پھر سے بکھرنے لگے ہیں اور ان کی ساری امیدیں نقش برآب ثابت ہوئیں۔ کیونکہ بھارت نے طویل خاموشی کے بعد لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں شروع کر کے نہ صرف سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوششیں کیں بلکہ امن کے قیام اور دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے کیے گئے حالیہ اقدامات کو بھی سبوتاژ کر دیا ہے جن کے باعث پاک بھارت کشیدگی میں دوبارہ اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔بھارت کے متعصب میڈیا اور انتہا پسند حلقوں نے اپنی روایتی تنگ نظری اور پاکستان دشمنی کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی ہاکی ٹیم اور بھارتی دورے پر گئے ادبی وفود کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ ہندوستان کی انتہا پسند تنظیمیں، گروپ، تنگ نظر لیڈر اور سیاسی جماعتیں بالخصوص بی جے پی مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ خاص دشمنی رکھتے ہیں اور بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہتی ہیں۔
بھارت کے متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور انتہا پسند حلقوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہندوستان کے کسی شہر یا گاؤں میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو اس کی کڑیاں فوراً پاکستان سے جوڑ دی جاتی ہیں اور پھر دہشتگردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کر کے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لیے پورا ہندوستان یک زبان ہو جاتا ہے لیکن مقام اطمینان ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے جے پور میں کانگریس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمال جرأت اور حق گوئی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے زمینی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے انتہا پسندوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کے لیے ملک بھر میں کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔
ان کی ضد تھی کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے بسوں یا مکہ مسجد اور مالیگاؤں میں بموں کے حملے یہ سب ہندو شدت پسندوں نے کیے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ اقلیتوں سے غیر منصفانہ سلوک اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے رپورٹ حکومت کو موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق بی جے پی اور آر ایس ایس کے تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی سرگرمیاں جا ری ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حیدر آباد کی مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں حملوں کی ذمے داری بھارت نے مسلمانوں پر ڈالی تھی اور پاکستان کو بدنام کرنے کا ڈھول پیٹ رہا تھا لیکن اب بھارت کے وزیر داخلہ نے ڈھول کا پول کھول دیا ہے اور پاکستان کے وزارت داخلہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کر کے اصل حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کی روشنی میں بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ بھارت خطے میں ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرے۔ ہندوستان کے اس دہرے معیار سے پوری دنیا واقف ہے کہ بھارتی حکمراں و سیاسی لیڈر پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کرتے ہیں حالانکہ خود بھارت کے اندر انتہا پسند اور علیحدگی پسند تنظیموں کا جال پھیلا ہوا ہے جو بھارت کو اندر ہی اندر کمزور کر رہا ہے۔ بھارت میں اس وقت 60 سے زائد چھوٹی بڑی علیحدگی پسندی کی تنظیمیں قائم ہیں جنہوں نے اپنی تحریکوں کو منظم کرنے، اپنے دائرہ اثر کو بڑھانے کے لیے دہشتگردی کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
صرف آسام میں 30 سے زائد علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں ڈیڑھ سو سے زائد اضلاع میں انتہا پسندوں کو غلبہ حاصل ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے دہشتگردی کے تربیتی کیمپ ختم کرنے اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ٹھوس، جامع اور قابل ذکر اقدامات نہیں کیے۔ بھارت میں اس وقت نکسل باڑی تحریک نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ مغربی بنگال، بہار اور آندھرا پردیش اس تحریک سے بری طرح متاثر ہے وہاں یہ تحریک پوری طرح عروج پر ہے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آسام میں 34 دہشتگرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگر فورس، آرم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگو کھاٹا، مگر فورس اور پیپلز لبریشن فرنٹ شامل ہیں جب کہ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگرفورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس سرگرم ہیں۔ اسی طرح ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل اور تری پور میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری بورہ آرمڈ ٹرائیل والنٹیئرز فورس، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ شامل ہیں۔
پنجاب میں بھی کئی علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم عمل ہیں جن میں ببرخالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈوز فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ اور خالصتان نیشنل آرمی نمایاں اور قابل ذکر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں لشکر عمر، البرق، الجہاد اور تحریک جہاد اسلامی کا نام شامل ہے۔ ان کے علاوہ بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے از خود وزرائے اعلیٰ کی ایک کانفرنس میں ماؤ کے حامیوں کی تحریک کو بھارت کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔
نہ صرف انتہا پسند اور علیحدگی پسند تحریکوں بلکہ بھارت کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں آئی پی، را اور ایم آئی کے درمیان موجود چپقلش و حریفانہ طرز عمل کے باعث بھارتی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور ممبئی حملہ بھی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کوتاہی کا نتیجہ تھا یہ انکشافات بھارتی میڈیا میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں کیے گئے تھے اور اب بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار کے ''اعتراف جرم'' کے بعد تو بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اور عالمی امن کے ضامنوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور امن و امان کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ آیندہ بھارتی حکمراں اور میڈیا ہندوستان میں رونما دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان پر الزامات عائد کرنے اور اسے واقعے میں ملوث کرنے سے گریز کریں۔