ترقی یا تنزلی
امریکی تشخص رکھنے والے انسانوں کے اس قائدانہ کردار کی ادائیگی کے لیے تمام تر سرمایہ اس استعماری قوم کا ہے
اولین ترجیحات: قومی تشخص میں بٹی عالم انسانیت اپنے ارتقاء کے ترقی یافتہ اور بھیانک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ماضی کے انسان نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ جس امریکا کی دریافت میں کرسٹوفرکولمبس کو مہینے لگ گئے تھے، اب اسی امریکا تک پہنچنا تو بس ایک دن کے دورانیے کا محتاج ہے، جب کہ یورپ سمیت دیگر خطوں کے لیے آمد و رفت گھنٹوں کی مسافت جتنی رہ گئی ہے۔
انسان کی اس طرح کی حاصل کردہ تیز رفتار ترقی نے کرہ ارض کی وسعتوں کو سمٹا کے رکھ دیا ہے۔ اسی ترقی کے باعث انسان نے اپنا تمدنی نظام کچھ اس طرح سے ترتیب دیا ہوا ہے کہ آج کا انسان اس کی بدولت کرہ ارض کے مختلف خطوں میں اس''جنت'' سے مشابہہ پرتعیش زندگی کے مزے لوٹتا پھر رہا ہے جو عرصہ قدیم سے انسانوں کے عقائد میں شامل رہا کرتی آئی ہے۔ جس نے انسان کے ارادوںکو اور زیادہ پختگی بخشی ہوئی ہے جن کی بناء پر اب انسان کی اولین ترجیحات میں کرہ ارض کے پچھڑے ہوئے قطعہ زمین (ممالک) میں اسی''جنتی معاشروں'' کے عملی قیام کے ساتھ ساتھ فلک میں انسانی گھر بنانے کو عملی جامہ پہنانا قرار دیا جا چکا ہے۔ جس کے لیے دنیا کے کونے کونے میں جدید ایجاداتی پہلوؤں کو نمایاں کیا جانے لگا ہے تا کہ عالم انسانیت کے منتشر ریوڑ (اقوام) کو مادی لحاظ سے زندگی کے اس بنیادی مقصد پر مرتکزکیا جانا ممکن بن سکے۔
انسانی بقاء اور خطرہ: بلاشبہ انسان کی موجودہ ترقی نے تاریخ کے گزشتہ ارتقائی مراحل کو قصہ پارینہ بنا کے رکھ دیا ہے اور اس نے خود اپنی عقل سے متعین کردہ ترجیحات ہی کو اپنا مقصود حیات بنایا ہوا ہے۔ اس لیے موجودہ انسان کی آنکھیں صرف مستقبل کی جانب اٹھی ہوئی ہیں اور وہ آنے والے وقت کے منصوبوں کی تشکیل میں سرگرداں نظر آنے لگتا ہے۔ اس ضمن میں انسان نے اب تک 1030 سے زیادہ سیاروں کو دریافت کیا ہوا ہے جہاں پانی کی موجودگی کے امکانات پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
گوکہ ابھی تک ان میں سے کسی ایک پر بھی انسانی بسیرا بسائے جانے کے حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا جا سکا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان ہمت ہار بیٹھے اور فلکی اجسام پرگھر بنانے کے صدیوں پرانے خواب سے دست بردار ہو جائے۔ موجودہ ترقی کے سرخیل مغربی انسانوں کی تحقیقاتی ترقی کے ترجمان جیسے سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے بقول ''فلکی اجسام پر انسانی گھر آباد کیے جانے میں غیر معینہ صدیاں درکار ہیں۔'' برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے گزشتہ سال فروری میں ایک کانفرنس سے خطاب میں فلکی تحقیقات کے یہ نتائج بیان کرنے کے بعد کہا تھاکہ ''کرہ ارض پر جوہری جنگ، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور خود تخلیق کردہ وائرس انسانی بقاء کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔''
ذمے داری کا بوجھ: انسان کی تمام تر تگ و دو کے باوجود فی الحال صدیوں تک انسان کا مستقل مسکن کرہ ارض کو قرار دیا جا چکا ہے ۔ جس کی روشنی میں حیات کائنات اور اس کی تاریخ کے طالب علم پر انسانوں کے باہمی تعلقات کے تال میل، ان تعلقات کے حتمی مقاصد اور نتائج کو سامنے رکھنا لازمی بن جاتا ہے۔ چونکہ موجودہ ترقی کوکرہ ارض کے کونے کونے پر رائج کرنے کی ذمے داریاں مغربی انسانوں کے ''مضبوط کندھوں'' پر ہیں۔ چونکہ امریکی قومی تشخص رکھنے والے انسان اس صف میں سب سے آگے آگے اور ان کے پیچھے پیچھے یورپی ممالک کے وہ انسان ہیں جنہوں نے خود نیا قومی وجود لینے کے ساتھ ساتھ مل کر امریکی قومی تشخص کو جنم دیا ہوا ہے۔
اس قسم کی تشکیل وتکمیل کے تمام تر مراحل کی ترقی وتحقیقات کو جن انسانوں نے سرمایہ فراہم کیا وہ اب امریکی قومی تشخص اور امریکی قومی ریاست پر مکمل اقتصادی گرفت رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے فلکی اجسام کی تحقیق کا سب سے بڑا اور قابل اعتماد ادارہ ناسا بھی امریکا سے متعلق ہے تو دنیا میں امریکی کرنسی ڈالر بھی تمام ریاستی کرنسیوں پر اجارہ داری رکھتا ہوا نظر آنے لگتا ہے۔ جب کہ اقوام عالم سے متعلق تمام تر ریاستی، سیاسی، سفارتی، معاشرتی، تمدنی مسائل کے حل سے ان کو بھی ترقی یافتہ بنانا اور اقوام عالم کے دیگر باہمی تعلقات کے تعین کی ذمے داریوں کا بوجھ بھی امریکی کندھوں پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی تشخص رکھنے والے انسانوں کے اس قائدانہ کردار کی ادائیگی کے لیے تمام تر سرمایہ اس استعماری قوم کا ہے جس کی کمپنیوں نے امریکی جی ڈی پی کو سہارا دیا ہوا ہے۔ جس کے سرمایے کی گردشی حرکت کی برکات سے قوموں میں بٹی عالم انسانیت کے معروضی حالات کے پیش نظر تمام تر ترقی یافتہ ومہذبانہ معاشروں میں بھی وحشت زدہ انداز حیات نمو پذیر ہونے لگی ہے، جب کہ ترقی پذیر خطوں کے ''غیر مہذبانہ معاشروں'' کی حالت زار تو اس سے کہیں زیادہ بھیانک صورتحال کی غماز دکھائی دیتی ہے۔ انسان تقسیم در تقسیم اور اختلاف برائے اختلاف کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جس نے عالم انسانیت کو مسائل کی دلدل میں لا کھڑا کر دیا ہے۔
آج کا انسان زندہ ہے تو اسے تعیشات زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے کفن دفن کے لیے بھی سرمایہ پس انداز رکھنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ آج ہر ایک بچہ ان ترقی یافتہ انسانوں کے پیدا کردہ وائرس کے لازمی وحتمی نتیجے کے طور پراپنی ناک میں آکسیجن پائپ چڑھائے اس دنیا میں آنے لگا ہے اور جانے والا اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے اپنی زندگی کی جمع پونجی لٹائے بغیر مر نہیں سکتا ہے۔ اس پیدا ہونے اور مرنے والے انسانوں کا ادا کردہ یہ تمام تر خراج بھی گھما پھرا کر اسی استعماری قوم کے قدموں میں جا کر جمع ہونے لگا ہے اور وہ اسی سرمائے سے فلکی اجسام پر اپنے گھر بنائے جانے کی تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ قوموں میں بٹی عالم انسانیت پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے ہے۔ اس لیے اقوام عالم کے اہل دانش حضرات پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس استعماری قوم کے اسلاف کی تعلیمات اور تحقیقات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے جس کی روشنی میں یہ دیکھا جانا ممکن ہو گا کہ جن تحقیقاتی ایجادات نے دو چار صدیوں کے دورانیے میں ہی عالمی درجہ حرارت کو بڑھاوا دیکر حیات کرہ ارض کو خطرات میں ڈال دیا ہے وہ دراصل ترقی ہے یا پھر تنزلی؟