میرا روگ نہ جانے تو
ہم دنیا کو حسیاتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ حواس خمسہ کے ذریعے ہمارا دنیا سے رابطہ برقرار ہے۔
انسان کی زندگی کا المیہ لاعلمی ہے۔آپ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی بے خبر رہتے ہیں اورحادثے رونما ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ یا تو ماضی میں رہتے ہیں یا پھر مستقبل کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ ہم لمحہ موجودکے تقاضے نہیں سمجھ پاتے۔
ہمارے رہبر ہمارے چارہ گرکامل نہیں ہیں۔ شاید وہ علم اورعمل کے درمیان کا راستہ عبور نہیں کر پاتے یا پھر خواہشات کے ہجوم میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس کا جوکام ہے، وہ اس ذمے داری سے غافل ہے۔اس صورتحال کو شاہ عبداللطیف بھٹائی کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں۔
میرا روگ نہ جانے تو ہے کیسا چارہ گر
بھاڑ میں جھونک تو اپنا مرہم اور یہ علم ہنر
بن بصیرت جینا ہے بے کار یہاں
یہ حقیقت ہے کہ بصارت اوربصیرت دو مختلف دھارے ہیں۔آنکھ سے دیکھتا معنی نہیں رکھتا جب تک اندر کی تیسری آنکھ متحرک نہ ہو۔ یہ آنکھ یکسوئی، خاموشی اور مستقل مزاجی سے کھلتی ہے۔
ہم دنیا کو حسیاتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ حواس خمسہ کے ذریعے ہمارا دنیا سے رابطہ برقرار ہے۔ دوسری طرف باطن کی دنیا ہے۔ یہ دنیا مخفی اور حیران کن ہے۔ جسے دوسرے دیکھ نہیں پاتے۔ جسے فقط ہم جانتے ہیں۔ ہماری سوچ، خیال اور تصور کی دنیا، مشاہدے کی محتاج ہے یا تمام تر تجربات جو بچپن سے لے کر موجودہ وقت تک ہم کرچکے ہیں۔ ہمارے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر ذہن کے کسی کونے میں موجود، ماضی کے اسٹور میں فقط منفی یادیں محفوظ ہوتی ہیں۔
تعصب، نفرت، عداوت یا بدلہ لینے کی خواہش ذہن و روح کی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ غیر انسانی رویے، حواس خمسہ کی کارکردگی کو شدید متاثرکرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ شاہ لطیف کی شاعری کی خاص بات، عام لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ وہ یہ سمجھاتے ہیں کہ ذات کی محبت ، انا پرستی ، ہٹ دھرمی کی دھند سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو ہر منظر اجلا اور خوبصورت ہے۔
انسان اپنا طبیب خود بن سکتا ہے، لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ اپنے ذہن کی پوشیدہ طاقت کو سمجھنے لگے گا۔ کیونکہ تمام تر اچھی بری صفات انسان کے اندر موجود ہیں۔ وہ جس کیفیت کو اپنے اوپر حاوی ہونے کا موقع دے گا۔ وہ اس کے وجود پر چھا جاتی ہے۔ لہٰذا چارہ گر یا مسیحا اس کے اندر کی مخفی قوت کو ابھارنے کا ہنر اسے سکھاتا ہے۔ تاکہ وہ اپنا راستہ خود تلاش کرسکے۔
یہ دنیا عارضی ہے۔ ہر چیز فنا کے راستے پر سفرکر رہی ہے۔ انسان کو محدود وقت ملا ہے۔ آدھی عمر تو وہ نیند کی حالت میں گنوا دیتا ہے اورکھلی آنکھوں کے ساتھ لاعلمی کی غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی نیند یا جاگنا کوئی فرق نہیں رکھتے تو زندگی بھی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی رہتی ہے۔
علم اگر عمل کی قوت سے بے بہرہ ہے تو وہ مثبت سوچ عطا نہیں کرسکتا۔ مثبت سوچ اور رویے انسانوں میں خوشی اور اطمینان بانٹتے ہیں۔ عمل کی قوت اجتماعی سوچ سے رابطہ فعال رکھتی ہے۔ بے عمل شخص کی زندگی فقط خوبصورت لفظوں کے سہارے گزرتی ہے۔ خوبصورت باتیں لوگوں کی بدحال زندگی میں، یقین کی روح پھونکنے سے قاصر رہتی ہیں۔
خوبصورت لفظوں کے جال وقتی خوشی عطا کرسکتے ہیں۔ ان کی کوئی دائمی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن عام لوگوں کے دل پرفریب خیال سے بھی بہل جاتے ہیں۔
بقول شاہ لطیف:
جب بھی مارے پیار سے' میرا یار حبیب
ڈھونڈے کون طبیب گھائل ہی پھرتے ہیں
درحقیقت زندگی کے تمام تر مسائل، دکھ یا محرومیاں تباہ کن اثرات نہیں رکھتے انسان کی زندگی میں اگر فقط خوشیاں، اطمینان و سکھ ہو تو وہ دوسروں کے غم سے غافل ہوجاتا ہے۔ دکھ کا تعمیری پہلو یہ ہے کہ وہ ذہن و دل کی زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ احساس کو اجتماعی شعور سے غفلت برتنے نہیں دیتا۔ لہٰذا طالب جانتا ہے کہ زندگی کے سفر میں ملنے والی تشنگی اس کے احساس کو غم کے پانی سے سیراب کررہی ہے۔
دکھ یا غم انسان کو اس کیفیت سے نکلنے کے لیے تحرک عطا کرتے ہیں۔اسے زمینی سفر کے لیے بے چین کردیتے ہیں۔ لہٰذا اسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے اور دوسرے لوگوں کی اذیت واحساس محرومی دیکھ کر وہ اپنا دکھ بھول جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیمار اورمسیحا میں طویل فاصلہ پایا جاتا ہے۔ بھٹکا ہوا مسافر تاحیات بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ غفلت میں ڈوبے لوگوں کو لائق رہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو ان کے چہرے دیکھ کر ان کی بیماری کو جان لے۔ بغیر کہے مداوا کرنے کی تاثیر اور بن مانگے عطا کرنے کا جوہر رکھتا ہو۔
چارہ گر یا رہنما کی زندگی اگر سکھ کی سیج ہے تو وہ رہبر بننے کا دعویٰ ہرگز نہیں کرسکتا۔