فضیلت ماہ رمضان الکریم
انسان کی کامیابی اس دنیا سے جاتے وقت نجات یافتہ ہونا ضروری ہے
ماہ رمضان الکریم قمری سال کا نواں مہینہ ہے، اس ماہ میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور بمقصد قربت الٰہی ترک کیے جاتے ہیں، اس میں کھانا اور پینا ترک ہوتا ہے۔ اس ترک عمل کا نام روزہ ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ میں آیت نمبر 186 میں سحر اور افطار کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ ''بلاتکلف اس کا سامان کرو، کھاؤ پیو، اس وقت تک تمہیں سفید خط (یعنی نور) صبح (صادق) ممیز ہوجائے سیاہ خط سے (رات تک روزہ پورا کرو)''۔ عربی میں رمض کے معنی سخت دھوپ میں پتھر کے گرم ہوجانے کو کہتے ہیں۔
اس مناسبت سے تپتی ہوئی زمین کو رمضا کہتے ہیں۔ جب مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو سخت گرمی کا مہنیہ تھا۔ اس نسبت سے روزوں کے مہینہ کا نام رمضان پڑگیا۔ یہ ایسا تزکیہ نفس ہے جس میں سرکش نفس کو بے لگام ہونے سے بچانا ہوتا ہے۔ حقیقتاً نفس ہی جس پر شریعت کے مکافات نافذ ہوتے ہیں، یہی وہ نفس ہے جس کو موت نہیں بلکہ موت کا مزہ چکھایا جائے گا۔ یہی وہ نفس ہے جس سے حساب کتاب لیا جائے گا۔
اس لیے مالک دوجہاں پرورگار عالم نے تمام مسلمانوں پر سال میں تیس روز کے لیے روزہ فرض کیا۔ سرکار دو عالم خاتم المرتبت حبیب کبیریا حضرت محمد مصطفیٰ کا ارشاد ہے ''تمہاری طرف اﷲ کا مہینہ برکت، رحمت اور مغفرت کا پیغام لے کر بڑھ رہا ہے، یہ وہ مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ہے، اس کے دن تمام دنوں سے افضل اس کی راتیں تمام راتوں سے افضل، اس کے لمحات تمام لمحات سے افضل ہیں''۔ اس مہینے کی راتوں میں ایک رات لیلۃ القدر کے نام سے موصوم ہے، جس میں بجا لائے ہوئے اعمال و عبادات ہزار راتوں سے افضل ہیں۔ یہ ماہ رمضان وہ ماہ ہے جس میں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید نازل ہوا۔
یہ اسلام کی شان ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو ایک نظم و نسق، ایک تنظیم اور ایک ضابطہ میں رکھ کر بین المسلمین ایسی ہم آہنگی کو قائم رکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا جز بن جائے۔ جس طرح ہمارے جسم کے اجزا ایک دوسرے سے مربوط ہیں اسی طرح ایک مسلم دوسر ے مسلم سے مربوط رہے۔ اسی فلسفے کی بنا پر تمام عبادات میں اس عبادت کا درجہ بلند رکھا، جس میں اجتماعی عبادت ہو، مثلاً نماز پنجگانہ کے اوقات معین کیے، نماز فردا کے مقابلے میں باجماعت نماز کا ثواب زیادہ رکھا۔ اس طرح روزے کو ایک خاص ماہ سے معین کرکے پوری مسلم قوم کو ایک ساتھ روزہ افطار کرنا اور ایک ساتھ سحر کرنے کا حکم دیا۔ قومی ملی نظم کو قائم کیا۔
اگر پورے سال میں تیس روزوں کو کسی بھی مہینے میں رکھنے کا حکم ہوتا تو ہم اجتماعی تزکیہ نفس سے محروم ہوجاتے۔ یہی وجہ ہے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ اور ایام حج کو بھی اجتماعی عبادت بنایا گیا۔ اس طرح جب سارے مسلمان ایک ہی وقت میں مکہ معظمہ میں جمع ہوکر فریضہ حج انجام دیتے ہیں تو پوری دنیا کے دوسرے لوگ اس لاکھوں کے مجمع کو دیکھ کر حیرت زدہ بھی ہوتے ہیں اور ان پر مسلمانوں کی ہیبت بھی طاری ہوتی ہے۔ اسلام کا فلسفہ یہی ہے کہ تمام ملت اسلامیہ میں یک رنگی ہو۔ اس سے انسیت بڑھتی ہے اور تلخی خوشگواریوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
روزوں کا حکم یہ ہے رمضان کی پہلی کا چاند دیکھ کر روزے شروع کردو اور شوال کے چاند پر ختم کردو، چونکہ روزہ ہمارے لیے تزکیہ نفس ہے، اس لیے حکم ہے ''جب روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، بال اور جسم کی کھال تک روزہ دار ہو اور تمہارے روزے کا دن بے روزہ والے دن کی مانند نہ ہونا چاہیے''۔ اس لیے مسلمانوں کا روزہ رات کے بجائے دن کا ہوتا ہے، کیونکہ رات تو سونے میں کٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ خواہشات اور جذبات بھی سو جاتے ہیں، اس لیے خواہشات نفس کو روکنے کی ریاضت نہ ہوسکے گی۔ یہ ریاضت دن ہی میں ممکن ہے۔ انسان جب دن میں فاقہ کرتا ہے، کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اسے اپنے کانوں سے اچھا سننا، آنکھوں سے حلال دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
اس طرح ہمارا جسم جو تکالیف اٹھاتا ہے اس کے نتیجے میں ہمارا نفس نکھرتا ہے، اس کی سرکشی کم ہوتی ہے اور نفس میں طہارت اور پاکیزگی پیدا ہوتی اور ایسا ہی نفس نفس مطمئن بن سکتا ہے۔ طاہر اور پاک نفس رضائے الٰہی پر عمل کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے ایسا نفس قربت الٰہی کی منزل پاتا ہے۔ اس ماہ رمضان میں آخری جمعہ، جسے ہم جمعۃ الوداع کہتے ہیں، وہ بھی بڑا اہم ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری صحابی رسولؐ اللہ سے فرماتے ہیں کہ میں ماہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے دن پیغمبر اسلامﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے مجھ سے فرمایا اے! جابر یہ رمضان کا آخری جمعہ ہے اسے وداع کرو۔ اور یہ کہو اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ نہ قرار دے۔ اگر اسے آخری قرار دیا تو ہمیں اپنی رحمت سے سرفراز کر اور محروم نہ کر''۔
ماہ رمضان کا پہلا عشرہ یعنی پہلے دس روزے ''عشرہ رحمت'' کہلاتا ہے۔ شیطان ابلیس قید ہوجاتا ہے اور پرورگار کی رحمت، اس کی کریمی جوش میں ہوتی ہے، جب کہ دوسرا عشرہ مغفرت کا ہوتا ہے۔ اگر مسلمان چاہے تو اپنی زندگی کے تمام گناہوں، نافرمانیوں سے نجات کے لیے مغفرت طلب کرے۔ رب العالمین ہر گناہ کو معاف کردے گا۔ حقیقتاً اس سے طلب توبہ کی جائے۔ اس ماہ رمضان کا آخری مہینہ نجات یافتہ ہونے کے لیے اس عشرے میں اپنے گناہوں کے اقرار اور آیندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ اور جو گناہ کیے اس کے کفارہ کا خیال کرکے اسے پورا کرے تو اس عشرے میں اسے نجات ملے گی۔
انسان کی کامیابی اس دنیا سے جاتے وقت نجات یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ایک حدیث شریف میں کہا کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ یعنی جو قیدی ہوتا ہے وہ قید سے آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اسے جہاد کہتے ہیں۔ اگر مومن ہے تو اس دنیا میں راحت نہیں بلکہ سلامتی کے ساتھ نجات چاہے گا۔ یہ ماہ رمضان الکریم ایسا مہینہ ہے جس میں مغفرت بھی، رحمت بھی اور نجات بھی ملتی ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے اپنے نفس کو سرکشی سے بچانے کے لیے روزوں کے ذریعے جسم کی ریاضت کے ذریعے نفس کو آلودگی سے پاک کریں۔ اور اس ماہ رمضان میں اپنے اخلاق اطوار کا جائزہ لیں۔ ایک دوسرے کے حق کو پہچانیے اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد، جس میں والدین کے حقوق، پڑوس کے حقوق، بہن بھائی کے حقوق، بزرگوں کے حقوق، استاد اور عالموں کے حقوق، تاجر اور آجر کے حقوق، محتاج اور غنی کے حقوق، کمزور اور طاقتوروں کے حقوق، حاکم اور رعایا کے حقوق کا خیال رکھیں۔ کیونکہ یہ انسان اس دنیا میں حقوق اللہ اور حقوق العباد ہی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جس نے خوش اسلوبی سے ان حقوق کو فرائض سمجھ کر پورا کیا۔ وہ اس دنیا سے مومن بن کر وفات پائے گا۔ اس مومن کی قبر کشادہ ہوگی، اسے جنت کی بشارت ہوگی۔ اس کے جنازے میں شریک مومن کی بخشش ہوگی۔ وہ عالم برزخ میں خوش و خرم، راحت سے اس دن کے انتظار میں بے چین ہوگا، جو دن یوم الحساب کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس نے حقوق العباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔