چینی گُڑیا اور گُڑیا چینی

جب لب پر نام آئے چین کا تو ہمیں یاد آتی ہے چینی۔


چینی کی کچھ اور شکلیں بھی ہیں جیسے مصری جو اصل میں سفید شکر سے ہی بنا کرتی ہے۔ فوٹو : فائل

اردو میں حرف 'چ' کا چکر بہت طویل بھی ہے اور دل چسپ بھی، اس سے شروع ہونے والے اکثر الفاظ کا استعمال مثبت ہے، جیسے چاہنا، چاہت، چُپکے چُپکے کسی کو یاد کرنا ہو یا چھپ چھپ کر کچھ کھانا ہو، اور کسی سے بچ کر کہیں دیوار سے چپک کر کھڑے ہونا ہو یا چڑیوں کا چہچہانا یا چہچاہٹ، چہا (ممولہ=ایک خوب صورت آبی پرندہ)، چونچ، چومنا، چَم چَم، چقندر، چچا، چچی، چَین، چمن، چنگیر، چھم چھم (بارش کی ہو، موسیقی کی ہو یا بچوں کے کھیل میں ہو)، چھولے کی چاٹ ہو یا آلو کی (کچالو)، یا مزے مزے میں کچھ کھاپی کر چاٹنا ہو....نئے نئے آم سے نکلنے والا چَینپ ہو یا اُس کے رس سے ہاتھ یوں سَنے ہوں کہ بس چاٹتے ہی رہ جاؤ....اور سب سے آخر میں، چین اور چینی کو تو ہم بھول ہی نہیں سکتے۔ ہاں

اب آپ کہیں گے کہ چاپلوس، چاقو، چھری، چھینی، چھِینا جھپٹی، چِیرنا، چِیرہ دستی ، چھپن چُھری، چنگیز بھی تو ہیں۔ جب لب پر نام آئے چین کا تو ہمیں یاد آتی ہے چینی۔ جی ہاں، (چین سے تعلق ہو نہ ہو) کھانے والی چینی ، اور پھر بات ہو نزاکت اور حسن کی تو کسے یاد نہ آئے چینی گڑیا، یہ اور بات ہے کہ چینی زبان کا ایک اور لفظ چائے، بلامبالغہ، پاکستان کی تقریباً ہر بڑی زبان میں اس طرح رچ بَس گیا ہے کہ روزانہ ہر پاکستانی یہ لفظ ضرور بولتا ہے، خواہ وہ چائے کا عادی ہو نہ ہو۔ البتہ تلفظ کا اختلاف اسے، عارضی طور پر، اصل ماخذ سے جدا کردیتا ہے۔ چائے کا ہم سے اس قدر گہرا رشتہ اس لیے نہیں کہ یہ ہزاروں سال قبل، ہمارے دوست ملک، چین میں دریافت ہوئی تھی اور اس کا سہرا کسی قدیم چینی راہب کے سر تھا، بلکہ یہ تو ہمارے پرانے فرنگی آقاؤں کی دین ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ نہ تو چینی (ناہی اُن کی تقلید میں جاپانیوں سمیت خطے کی دیگر اقوام) اس طرح چائے پیتے ہیں جیسے ہمیں عادت ڈالی گئی ، نہ ہی جدید انگلستان میں یہ طریقہ مقبول ہے یعنی چینی اور دودھ ملاکر بنائی جانے والی چائے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند میں اردو سے لے کر تمام اہم علاقائی زبانوں تک، اس چائے نے خاطر تواضع کا صدیوں پرانا طورطریقہ ہی تبدیل کرڈالا۔ پہلے پوچھا کرتے تھے، کوئی لسّی، پانی (یعنی ان میں کوئی چیز لیں گے)، اب تو ہمیں حسرت ہے کہ کہیں دیہات میں بھی یہ فقرہ کسی سے سننے کو ملے۔

اب تو کہتے ہیں، کوئی چائے، پانی (چائے کا یہ مختصر تلفظ بھی ہماری اکثر زبانوں میں عام ہے)۔ بعض پرانے بزرگ لفظ چاہ کو چاء سے ملا کر معنی خیز گفتگو کیا کرتے تھے ، سو اس خاکسار نے بھی ایک چائے کے اشتہار کے لیے (ایک تشہیری ادارے میں بطور کاپی رائٹر کام کرتے ہوئے) کچھ اس طرح کے تشہیری فقرے / نعرے [Slogans]تجویز کیے تھے: چاہ ہے تو چاء ہے ، جہاں چاء، وہاں چاہ۔ ایک عرصے کے بعد اپنے احباب کے لیے قایم کردہ، وھاٹس ایپ گروپ [WhatsApp Group]کی نشست کے لیے دعوت نامہ تیار کرتے ہوئے بھی اسی طرح زباں دانی کا مظاہرہ کرنے کی سعی ناکام کی تھی۔

بات ہے چینی کی تو اس کھانے والی چینی کی نسبت چین سے ہو نہ ہو، اس کی گڑیا کی نسبت بہت گہری ہے۔ ایک چینی پر ہی موقوف نہیں، اردو ادب ہو یا فارسی، عربی ہو، ترکی، فرینچ ہو یا انگریزی یا کوئی افریقی زبان...گڑیا ہر جگہ موجود ہے اور روزمرہ زندگی کا ایک دل چسپ حصہ بھی۔ اردو اور علاقائی زبانوں میں چینی گڑیا، جاپانی گڑیا اور اپنے اپنے علاقوں کی دیسی گڑیا کی بڑی قدر ہے۔ ویسے گُڈے کی بھی ہے جس سے اُس کی شادی کی جاتی ہے، مگر اکیلے گُڈے کا نام کوئی اچھے معنوں میں ذرا کم ہی لیتا ہے۔ (چابی والا گڈا تو یاد ہوگا آپ کو، کسے کہتے ہیں)۔

ہم اردو میں گڑیا کہتے ہیں، عربی میں لُعبَت [Lu'bat]اور فارسی میں عَروسک، انگریزی لفظ Dollتو آپ سب ہی جانتے ہوں گے، فرینچ میں گڑیا کو کہتے ہیں: پُوپے [Poupee]۔ یہاں ایک دل چسپ بات آپ سے کہتے چلیں۔ لفظ عَروس، لغت کی رُو سے دولھا (دُلھا، دولہا) اور دلہن دونوں کے لیے بولاجاسکتا ہے، مگر ہم صرف دلہن کو ہی کہتے ہیں۔ بس یہ اپنے اپنے روا ج کی بات ہے، بالکل اسی طرح جیسے عربی میں لفظ زوج، (شریکِ حیات) میاں بیوی دونوں کے لیے مستعمل ہے، مگر ہم صرف بیوی کے لیے استعمال کرتے ہیں، ایک 'ہ' کے اضافے سے یعنی زوجہ۔ لطف کی بات ہے کہ ہم اردو میں بیوی کو بیگم اور اہلیہ بھی کہتے ہیں۔

ترکی زبان میں، بیگم اصل میں بیغُم تھا، بیغ (بیگ)+اُم یعنی امیر۔یا۔سردار کی بیوی۔ آج ہر گھروالی اپنے گھر کی سردار ہی تو ہے، کیوںکہ حکومت تو اُسی کی ہوتی ہے۔ اَب یہ لفظ لیجے، اہلیہ۔ اس کا مذکر ہے اہل یعنی والا۔ یا۔ حامل۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی کے شوہر کو 'اہل' کہا جائے، خواہ وہ اپنے فرائض ِمنصبی ادا کرنے میں کتنا ہی نااہل کیوں نہ ثابت ہو۔ ہاں یاد آیا، ہمارے نہایت محترم و مقبول بزرگ معاصر سلیم کوثر کی مشہور غزل '' میں خیال ہو ں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے'' کی تحریف [Parody]میں کسی مَن چلے شاعر نے کہا تھا:

ع مَیں تو اہل ہو ں کسی اور کا، میری اہلیہ کوئی اور ہے

گڑیاسازی کی صنعت اپنی جگہ بہت مضبوط سہی، مگر ساتھ ساتھ، چین اور جاپان ہی نہیں، بل کہ قدیم ہندوستان سے لے کر جدید بھارت، بنگلادیش اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں گھریلو پیمانے پر گڑیا بنانے کا شوق اور اس سے منسلک رسوم، تہوار (اصل لفظ تیوہار) اور میلے ٹھیلے عام رہے ہیں۔ لکھنؤ کے ہندوؤں میں 'گڑیوں کا میلہ' بہت مقبول رہا ہے۔ اب پتا نہیں کہ اس کا روا ج باقی ہے یا نہیں۔ ہم نے اپنے بچپن سے دیکھا کہ ابتدائی جماعتوں[Primary classes]کے طلبہ سے دست کاری کے نمونے، گھر سے تیار کرکے لانے کو کہا جاتا اور پھر اُس پر نمبر دیے جاتے تھے۔ اس دست کاری میں سب سے نمایاں چیز، گڑیا ہی ہوا کرتی تھی جسے بنانے، سجانے، سنوارنے کا کام والدہ محترمہ کے ذمے ہوتا تھا اور کامیاب ہوتا تھا بچہ۔ اِن دنوں معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں۔

حسین اور نازک لڑکی، خصوصاً چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی لڑکی کو عرف عام میں چینی گڑیا کہا جاتا تھا اور ہے۔ اب کسی ایسی ہی لڑکی کی تنقیص کرنی ہو یعنی برائی کرنی ہوتو خواتین کہتی ہیں: 'آئے ہائے! اُس کی آنکھیں تو بالکل بٹن ہیں، بٹن'۔ چینی گڑیا کے ذکر میں یہ تازہ اضافہ بھی قابل ذکر ہے کہ چین میں ایک عظیم عمارت ایسی تعمیر ہوئی ہے جو کسی چینی گڑیا کے مانند ہے۔ (لفظ مانند، دہلی و نواح میں مذکر، جب کہ لکھنؤ اور اس کے زیر اثر علاقوں میں مؤنث بولا جاتا ہے)۔

اب چین کی بات کریں تو یہ ایک ملک کا نام ہے، مگر اردو اور فارسی میں لفظ چِیں کا مطلب ہے: شکن، سلوٹ، بَل، تیوری۔ چِیں بہ جبیں جیسا فارسی محاورہ اردو میں بھی عام ہے، جس کا مطلب ہے ماتھے پر شکن ہونا یا تیوری ڈالنا۔ ویسے ایک ہندی الاصل لفظ 'چِیں' بھی ہے جو چڑیا کی آواز اور اس سے مشتق محاوروں کے لیے بولا جاتا ہے۔

اب اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ یہ کھانے والی چینی آخر کس زبان سے آئی۔ صاحبو! یہ لفظ ہندی ہے جو سفید شکر کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسے ہندی میں کھنڈ اور قدیم اردو سمیت مختلف زبانوں میں کھانڈ بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کبوتر کی ایک قسم، ملک چین سے تعلق رکھنے والی مخصوص روغنی مٹی اور اس سے بنے ہوئے برتن (ظُروفِ چینیChinaware-) بھی چینی کہلاتے ہیں۔ چین کا فن ظُروف سازی صدیوں سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ ایک پرندے کو بھی خواہ مخواہ چینی مرغی کہا جاتا ہے، حالاںکہ وہ بے چارہ تو Guinea fowlہے۔ بات اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تو لوگ کسی سیدھے سادے، بے وقوف شخص کو بھی یہی نام دیتے ہیں، یہ چالو زبان[Slang] ہے۔ برتنوں کے لیے بول چال کی زبان میں 'چینی کے برتن' ، 'سچی چینی کے برتن' اور 'مٹی چینی کے برتن' جیسی تراکیب بھی، خصوصاً خواتین سے سننے کو ملتی ہیں۔

چینی کی کچھ اور شکلیں بھی ہیں جیسے مصری جو اصل میں سفید شکر سے ہی بنا کرتی ہے اور چقندر سمیت مختلف پھلوں یا سبزیوں سے تیار ہونے والی چینی جس کا رواج ہمارے یہاں ابھی کم کم ہے۔ پھلوں میں موجود، قدرتی مٹھاس (یا اس سے بننے والی چینی) کے لیے فرکٹوز[Fru ctose]کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ گُڑیا چینی کیا ہے؟

اب یہاں ایک بڑی حیران کُن بات ہے، آپ سب کے لیے، خصوصاً انگریزیت کے مارے، برگر [Burger]افراد کے لیے.....یہ گُڑ سے بننے والی وہ چینی ہے جسے اِن دنوں، معالجین کی ہدایت پر خوب استعمال کیا جارہا ہے یعنی 'فادری' زبان میں Brown sugar۔ کہیے کیسا Surpriseہے؟؟ بات کی بات ہے کہ ہم نے اپنے بچپن سے گڑیا چینی کا استعمال بھی خو ب کیا اور اس کا یہ نام بھی خوب سنا، مگر آج اس مضمون کے لیے متعدد لغات دیکھیں تو یہ نام کہیں نہ دکھائی دیا، یعنی یہ کسی خاص علاقے یا شہر کی مخصوص بولی میں رائج نام ہے۔

اب یہاں راقم قیاس ہی کرسکتا ہے کہ غالباً راجستھان میں چینی کی اس قسم کو یہ نام دیا گیا ہوگا۔ (اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارا آبائی تعلق تو ہاپڑ، میرٹھ ]ہندوستان[ سے ہے ، مگر ہمارے والدین وہاں پیدا نہیں ہوئے۔ میرے والد صاحب نے بچپن کا کچھ عرصہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں گزارا، خاص کر آخری دو سال راجستھان کی ایک چھوٹی سی ریاست 'کوٹہ' میں بسر کیے، جہاں اُن کی پھوپھی کا گھرانا آباد تھا۔ میں نے اپنے تایا سے بھی لفظ گڑیا چینی خوب سنا جو والدصاحب سے اٹھارہ بیس سال بڑے تھے اور اُن سے زیادہ اُس علاقے میں رہ چکے تھے، لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہ لفظ اس علاقے کی مقامی اردو میں زیادہ مستعمل ہو)۔ یہ ہے اردو کا حسن کہ لفظ کہیں کا بھی ہو، اسے قبول عام مل جائے تو کوئی خاص بھی تب تک رَد نہیں کرسکتا جب تک کوئی لسانی اصول پامال نہ ہورہا ہو۔

اب گُڑ کے گُر بھی دیکھ لیے جائیں تو کیسا۔ گنّے کے رَس سے تیار ہونے والا یہ میٹھا مواد کئی شکلوں میں گھریلو، دوائی اور تجارتی استعمال کے لحاظ سے نہایت مفید ہے۔ کچھ عرصہ قبل میرے ایک سسرالی رشتہ دار پنجاب سے تشریف لائے۔ ماشاء اللہ تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازم ہیں۔ بے چارے خواہ مخواہ اِس حقیر پُرتقصیر سے بہت زیادہ مرعوب دکھائی دیے۔

اثنائے گفتگو استفسار فرمایا کہ ہاضمے کے لیے کوئی خاص چیز یا دوا ہوتو بتائیے، بڑا مسئلہ رہتا ہے، ریاحی۔ خاکسار نے اپنی ہنسی اور حیرت ضبط کرتے ہوئے کہا، حیرت ہے، آپ کا تعلق دیہات سے ہے اور آپ کو گُڑ کے فوائد کا پتا نہیں۔ ہر کھانے پر ایک ٹکڑا گُڑ کا کھالیا کریں، ان شاء اللہ شفاء ہوگی۔ وہ بہت ممنون ہوئے اور بندہ حیران و پریشان ہوا کہ الہٰی! کیا دور آگیا ہے۔ پہیا اُلٹا چل رہا ہے۔ گاؤں کی قدیم دانش کہاں گئی، شہر ی کو یہ بات بتانی پڑگئی جو اُس شریف آدمی کو معلوم ہونی چاہیے تھی۔ یہ ہے نتیجہ مدنیت کے حد سے زیادہ فروغ [Urbanization] کا کہ لوگ نہ صرف خاندانی پیشے بھول گئے، بلکہ لوک روایات بھی دم توڑنے لگی ہیں۔ (یہاں ایک ضمنی نکتہ عرض کرتا چلوں۔ ہمارے یہاں نظم ونثر، نیز عام بول چال میں کہا جاتا ہے، یا الٰہی، جب کہ الہٰی کا مطلب ہے، اے میرے اِلٰہ یعنی اے میرے رب۔ یہ خاصہ نازک معاملہ ہے کہ ہر خاص وعام ، حتیٰ کہ علمائے کرام بھی یہی کہتے سنائی دیتے ہیں، یا الہٰی)

گڑ کا استعمال پیٹ کی خرابی کے علاج کے لیے حُقے کے ذریعے بھی کیا جاتا تھا اور شاید اب بھی کہیں یہ روا ج ہو۔ یہ کوئی ٹوٹکا نہیں، بلکہ اطِباء کا تجویزکردہ، باقاعدہ علاج ہے۔ گڑ کا پانی گرمی مارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گُڑ کی شیرینی میں کیری یا آم ڈال کر ایک حرِیرہ بنایا جاتاہے جسے 'گڑانبہ' یا علاقائی تلفظ میں گُڑَمبہ کہتے ہیں۔ اس کا رواج کم ہے، مگر ہم نے تو اپنے والدین کو دیکھا کہ پکے ہوئے آموں کا گودا اور رس نکال کر، اس میں تھوڑا سا مسالا یا پِسی ہوئی مرچ ڈالی اور سالن کے طور پر، روٹی سے کھالیا اور اُسے بھی گڑمبہ کہا کرتے تھے۔ اب ہمارے یہاں بھی یہ چیز بنے ہوئے مدت ہوگئی۔

گڑ سے متعلق محاوروں اور کہاوتوں کا رواج آج بھی ہے۔ مشہور ترین ہے، گڑ کھانا، گُلگُلوں سے پرہیز کرنا۔ استعمال: یہ تو ایسا ہی ہے جیسے گڑ کھائیں، گلگوں سے پرہیز۔ اس کے معانی بھی کافی ہیں: ایک ڈھنگ یا طرز کا کام کرنا اور اس سے مماثل دوسرے کام سے گریز کرنا، کسی شخص سے دوستی اور اُس کے بیٹے سے دشمنی، خفیف سی بدنامی سے بچ کر، بڑی بدنامی مول لینا، بڑے حرام کا ارتکاب اور چھوٹے سے اجتناب کرنا۔ گلگلے، گڑ سے بننے والے وہ میٹھے پکوڑے ہیں جو عموماً آٹے سے بنائے جاتے ہیں اور بارش کے وقت خوب مزہ دیتے ہیں۔

چھوٹے گلگلے کو گلگلی کہتے ہیں۔ افسوس! آج وہ دور آگیا ہے کہ ایک اچھی خاصی عمر والا آدمی بھی پوچھتا ہے، سَر! یہ گلگلے کیا ہوتے ہیں، ہم نے تو کبھی نام نہیں سنا۔

گذشتہ دنوں ایک نہایت معقول (نیزخوب رُو) خاتون نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے، 'غارت گَری، کو شدّومدّ سے باربار ''غارت۔گِری'' قراردیا۔ ایک اور سہو کی نشان دہی کرتے چلیں۔ ایک مشہورٹی وی پروگرام ہے:....تو دیکھے گا ، اُس کے میزبان یا راوی صاحب ایک قسط میں لفظ 'علی الصباح' [Alas-Sabaah]کو ''علی اُل صباح'' [Ali-ul-Sabaah]کہہ رہے تھے۔ اب کوئی کیا کہے کہ جن ٹیلی وژن چینلز کے پاس، نام ور ٹی وی تبصرہ نگار یا تجزیہ نگار افراد کو نوازنے کے لیے چند لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک رقم، بہ آسانی، فاضل دست یا ب ہوتی ہے، وہ کسی ماہر ِزبان کو اس کا م کے لیے چند ہزار معاوضے پر ملازم نہیں رکھ سکتے کہ جتنے مکھڑے اُن کے چینل کی زینت بنتے ہیں، وہ جب کچھ گل افشانی کرنے لگیں تو وہ پھول، گوبھی کے پھول نہ بن جائیں۔

سخن شناسی کے اولین کالم بعنوان 'الف سے آم شریف' میں اثنائے تحریر، قلم برداشتہ لکھتے ہوئے ایک سہویہ واقع ہوا کہ کالا چونسہ کے لیے رحیم یارخان کے ساتھ قادرآباد کا نام لکھ دیا ، حالانکہ درست نام ہے ، شجاع آباد۔ تمام اہل شجاع آباد سے دست بستہ معذرت!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں