بلوچ عوام کیا چاہتے ہیں
بلوچستان کے مجبور لوگ خاص طور پر ہزارہ اس فرقہ وارانہ پاگل پن میں مارے جارہے ہیں۔
بلوچستان کا جغرافیہ اور اس کے معدنی وسائل کی دولت ، جو یہاں کے باسیوں کی بدبختی بن چکی ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں کے اپنے سامراجی عزائم ہیں، وہ بھوکے گدھ کی طرح بلوچستان کے زندہ جسم پر جھپٹ کر اسے نوچ کھا رہے ہیں، ان سب نے سامراج کی پراکسی جنگوں کو جنم دیا ہے جن میں نہ صرف ریاستیں بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ایک جانب چینی مفادات اور امریکی سامراج کا خفیہ ٹکراؤ ہے جس کی بنیاد قدرتی وسائل کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ اور ساحل مکران تک رسائی کا حصول ہے۔
اس طرح خطے میں بالادستی کے لیے مذہبی اشرافیہ کا تصادم بھی موجود ہے۔ بلوچستان کے مجبور لوگ خاص طور پر ہزارہ اس فرقہ وارانہ پاگل پن میں مارے جارہے ہیں، بلوچ عوام 6 دہائیوں کے زیادہ عرصے سے طبقاتی استحصال کا شکار ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو وسائل کے اعتبار سے امیر ترین ہے۔ لیکن یہاں کے عوام انتہائی غربت اور اذیت کا شکار ہیں،یہاں کے سرداروں نے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ تقسیم سے قبل بلوچستان کا بڑا حصہ ریاست قلات میں شامل تھا۔ سامراج نے ایران کے مقبول قوم پرست رہنما مصدق کا ایک سازش کے ذریعے تختہ الٹ کر شاہ کو تخت طاؤس پر بٹھایا تھا۔ اس جدوجہد میں 5000 سے زیادہ بلوچ مارے گئے۔ بلوچ قوم پرستوں کے مطابق حالیہ واقعات میں 8,000 بلوچ طلبہ اور سیاسی کارکنان اغواء ہوچکے ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ نہ صرف مروجہ سیاست کرنے والے لیڈروں کو خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بہت سے سامراجی اس کشمکش میں گھس کر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل شیروف کے نام سے مشہور بلوچ مزاحمت کے لیڈر شیر محمد مری جنہوںنے 1978 میں طلبہ کے وفد سے کہا تھا، ہمارا مقصد بلوچستان کے ذریعے سارے خطے میں انقلابی اشتراکیت کو پھیلانا ہے۔ اس بیان سے 1970 کی دہائی میں جاری جدوجہد کی نظریاتی اساس اور اس کے کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج ہونے والی جدوجہد، فرقہ وارانہ اور نسلی تنازعات کے ہاتھوں تقسیم ہو رہی ہے۔ اس مزاحمت کو توڑنے کے لیے ان تنازعات کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ سامراجی کبھی بھی محکوم قومیتوں کے محنت کش عوام کے دوست نہیں رہے، خصوصاً بلوچستان کے عوام کے۔
دوسری جانب بلوچستان میں ہزارہ کے ہولناک، بے رحم اور لامتناہی قتل عام نے اس خطے میں بھڑکتی ہوئی آگ، قومی سوال اور فرقہ وارانہ تصادم کی پیچیدگی کو ایک مرتبہ پھر انتہائی دلخراش انداز میں بے نقاب کردیا ہے۔ بربریت کی یہ کارروائی ایک بوسیدہ نظام کی اس خطے میں امن اور خوشحالی لانے میں ناکامی کا نتیجہ ہے بلکہ بعض طاقتور گروہوں کے اس ہلاکت میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں۔ تقریباً ایک دہائی سے ہزارہ افراد کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا جارہا ہے، کوئی ایک بھی مجرم گرفتار یا قانونی کارروائی کی زد میں نہیں آیا۔ ظلم و جبر کی خاطر مذہبی دہشتگرد تنظیموں کا اس جرم کے پیچھے ہونا سب پر عیاں ہے۔ معاشی اور سماجی بحران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کے گلنے سڑنے کے عمل میں ریاست مزید شکستہ ہوتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ جبر اور دہشت گردی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ان مذہبی جنونی تنظیموں کی اکثریت کو حکمراں طبقات کے مختلف دھڑوں اور ریاستی حکام کے مفادات کے تحفظ کی کارروائی سرانجام دینے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ غیر ریاستی تنظیمیں ظالمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں جب کہ سامراجیوں کی جانب سے تربیت اور مالی معاونت پانے والوں کی تعلیم و تربیت مذہبی اور فرقہ وارانہ داستانوں کی بنیاد پر کی گئی۔ تاہم تیزی سے بدلتے حالات اور سامراجیوں اور پاکستان میں ان کے کارندوں کی پالیسیوں میں فوراً اور یکسر تبدیلیوں کی وجہ سے ان کو قابو میں رکھنا مشکل اور پیچیدہ ہوگیا۔ ان تنظیموں کا شیرازہ بکھرنے لگا اور لوٹ کر علیحدہ ہونے والے عناصر کہیں زیادہ درندہ صفت اور دیوانگی کا شکار ہونے لگے۔ منشیات کی تجارت اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کے ذریعے جمع کیے گئے بے پناہ کالے دھن کی وجہ سے یہ دہشت گردی بے پناہ منافع بخش کاروبار بن گئے۔
1978 کے افغان انقلاب کے بعد سامراجیوں کی شروع کردہ اس لڑائی میں نو دولتی جنگجو سردار اور منشیات کے سوداگر ابھر کر سامنے آئے۔ پھوٹ پڑنے کے بعد علیحدہ ہونے والے گروہوں نے سب سے پہلے اپنے خالق آقاؤں کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ اس ٹوٹ پھوٹ اور بکھرنے کے عمل نے ریاست کے مختلف دھڑوں کو بھی ایک دوسرے کے برخلاف لاکھڑا کیا جو پہلے سے ہی اکثرا ن مذہبی جنونی تنظیموں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف آپریشنوں میں باہم متصادم تھے۔ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کا قتل ہو، ہزارہ برادری کا قتل ہو یا عام محنت کشوں کا، اس جبر ظلم اور لوٹ مار کا بازار صرف محنت کشوں کے انقلاب کے ذریعے سے ہی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جہاں ایک ایسا آزاد، خوشحال اور غیر طبقاتی سماج قائم ہوگا جہاں کوئی بھوک سے نہ مرے گا، کوئی لاعلاج نہیں رہے گا، کسی کا قتل نہیں ہوگا، کوئی قید نہیں ہوگا، کسی کی کوئی ملکیت نہیں ہوگی، دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔