آگ کا دریا
میں نے بھی چار پانچ ماہ قبل اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ یہ ایک آسان مقدمہ ہے
انسان اپنے گردونواح اور دور و نزدیک سے بذریعہ سوال و جواب تحریر و تقریر، اشتہار، وعظ و نصیحت، جلسہ جلوس، دھرنا ہڑتال، نگاہ و سماعت سے آگاہی پاتا اور باخبر رہتا ہے آج کے دور میں اخبار اور ٹیلیوژن، بغرض معلومات اور تفریح ہی نہیں وقت کو Kill کرنے والوں کے لیے بھی بہترین ساتھی ہیں جب کہ پاکستان میں بوجہ گرانی دہشت گردی و حکومتی عدم توجہی تفریح اور اسپورٹس کے ذرائع محدود و ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے عزیز اور دوست اپنے ملک پاکستان کے دورے پر آتے ہیں تو خواتین کپڑے سلوانے اور فیملیز کھانوں سے آگے کچھ نہیں دیکھ پاتیں۔
باہر سے آنے والے ایک اور بھی شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے لوگوں میں اچھا اخلاق، قانون کی پاسداری، صفائی اور ایمانداری روبہ زوال ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ کر ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ آپ کا تو وزیراعظم بھی بڑھتی ہوئی کرپشن پر قابو پانے کا عزم دکھانے کے بجائے تسلیم کرتا ہے کہ ''اوپر کی سطح پر بہت گھپلے ہیں اور اگر ہم تدارک و تحقیقات میں لگ جائیں تو ترقیاتی کام رک جائیں گے جب کہ ایک صاحب فرماتا ہے کہ مجھے اگر میگا پراجیکٹس کے لیے پیسے چوری بھی کرنا پڑے گا تو کروں گا۔''
ادھر اگر شام پڑنے پر خاص طور پر اور دن میں کسی بھی وقت اپنا ٹیلیوژن آن کرکے ریموٹ کنٹرول آلے سے پاکستان کا کوئی بھی چینل لگائیں تو پردہ اسکرین پر حالت جنگ کا منظر ملے گا بلکہ یوں کہہ لیں کہ گھمسان کا رن پڑا نظر آئے گا اور یہ صورت حال گزشتہ ایک سال سے اس تواتر سے دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہے کہ لوگوں کے مزاج اور ذہن تک سیاسی آلودگی کی وجہ سے متعفن ہو رہے ہیں۔ جہاں دو چار لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں کچھ ہی دیر میں ینوز لیک کو کریدنا اور پانامہ گیٹ میں گھسنا شروع کر دیتے ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دل خوش کن موضوعات، ہنسی اور قہقہے ہماری روزمرہ زندگی سے نکل کر ہمیں غصیلا اور چڑچڑا بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کے بیرون ملک اثاثوں کی منی ٹریل ان سے اگلوانے کے لیے ایک طویل سماعت کی لیکن وزیراعظم نے اس عدالتی تلاشی میں قطر کے دوست شہزادے کے خط کی انٹری ڈال دی۔
اسی خط کا مذاق اڑانے کے لیے ہمارا ایک دوست ملنے آیا اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگا کہ ''اب وہ سونے کی بیس ڈلیاں مجھے واپس کردو'' میں نے ہنس کر بات ٹالنا چاہی تو وہ غصے سے چلایا کہ ''مذاق برطرف میں اپنا گولڈ لینے آیا ہوں'' اسے لال پیلا ہوتا دیکھ کر میں نے پوچھا یہ کیا بکواس ہے جس پر اس نے کہا کہ اس کے مرحوم والد نے ایکبار اسے بتایا تھا کہ انھوں نے سونے کی ڈلیاں میرے مرحوم والد کے پاس امانتاً رکھوائی تھیں تب سونا سو روپے تولہ تھا جب کہ اس وقت اڑتالیس ہزار روپے تولہ ہے لہٰذا یا تو میں وہ گولڈ اسے واپس کروں یا وزن کے حساب سے سکہ رائج الوقت اسے ادا کردوں۔ میں اس کا مذاق سمجھ گیا اور اپنے زیرو بیلنس والے اکاؤنٹ کا ایک بلینک چیک بناکر اس کو تھما دیا۔
پاکستان میں تین بار وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والے نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف پہلے ڈان لیک اور پھر ساتھ ہی پانامہ گیٹ کے حوالے سے الزامات کی نوعیت غیر معمولی اور انوکھی ہے۔ نیوز لیک کمیشن کی رپورٹ کا پبلک نہ کیا جانا اپوزیشن کے الزام کو تقویت دیتا ہے کہ یہ کسی گھر کے بھیدی کا کام تھا۔ پانامہ گیٹ کیس جو شریف فیملی کے لندن کے چار لگژری اپارٹمنٹس سے متعلق ہے اس کی سماعت پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے غیر معمولی وقت لگایا۔
اس وقت مزید تفتیش کے لیے چھ رکنی JIT کے پاس زیر انکوائری ہے جس میں وزیراعظم ان کے دو بیٹوں اور PM کے برادر خورد شہباز شریف سے سپریم کورٹ کے دیے گئے تیرہ سوالات پر پوچھ گچھ ہو چکی ہے جو اب تکمیل کے قریب ہے۔ البتہ اس میں مزید گواہان سے تفتیش ہونا ممکن ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملک کا ہر شہری اور دنیا کے بے شمار مبصرین اس کھلی کتاب جیسے مقدمے کی سطحی اور گہرے نکات سے واقف ہو چکے ہیں۔
میں نے بھی چار پانچ ماہ قبل اپنے کالم میں تحریر کیا تھا کہ یہ ایک آسان مقدمہ ہے اور اگر مجھے بھی اپنی ملازمت کی پہلی پوسٹ پر یعنی مجسٹریٹ لگا کر اس کی سماعت کے لیے ذمے داری دے دی جائے تو اس کا فیصلہ کرنے میں صرف دو ہفتے کا عرصہ لوں گا۔
جب پانامہ والا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا تو نواز لیگ اور PTI کی ٹیمیں عدالت کے باہر مجمع لگاتی تھیں اور دبے الفاظ میں عدالتی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بناتی تھیں۔ جب سے سپریم کورٹ نے معاملے کی مزید چھان پھٹک کی غرض سے ماہرین کی ایک ٹیم JIT بنا کر ساٹھ دن میں اس سے رپورٹ طلب کی ہے اور اس ٹیم نے وزیراعظم سمیت پوری فیملی کو باری باری بلا کر پوچھ گچھ کرنا شروع کی ہے دونوں طرف کے مصاحبین نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ خاص طور پر وزیراعظم کی ٹیم نے تو JIT پر تعصب اور الزامات کے سنگین حملے شروع کررکھے ہیں۔
JIT کی رپورٹ تو آئندہ چند ہفتوں میں سپریم کورٹ میں پیش کر دی جائے گی لیکن خدا کا شکر کہ PTI اور نون لیگ کی ایک دوسرے اور JIT پر گولہ باری کے دوران برطانیہ میں کرکٹ کھیلنے گئی پاکستانی ٹیم نے یکے بعد دیگرے ICC چیمپئنز ٹرافی کے تین میچز جیت کر پاکستان کی متعفن سیاسی فضا کو گل و گلزار میں بدل دیا ہے۔ اور اب اس کا فائنل میچ اتوار کو یعنی آج انڈین ٹیم کے ساتھ ہو گا۔ ہار ہو یا جیت کھیل تو کھیل ہوتا ہے اور جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کی جیت یا ہار کا تعلق ہے شعر حاضر ہے کہ؎
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے