ایران کا جوہری پروگرام
امریکا اور اسرائیل کے درمیان زبانی لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے جس کی وجہ ایران کا جوہری پروگرام سمیت متعدد معاملات ہیں۔
KARACHI:
امریکا کی سیاست میں اور بالخصوص انتخابات کے دوران چند اہم نکات میں سر فہرست نکتہ ایران کا جوہری پروگرام رہا ہے۔ اس نکتے پر امریکا نے ہمیشہ سخت ترین پالیسی اپناتے ہوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایران کو تنہا کر دیا جائے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو یا سلامتی کونسل کا اجلاس، امریکا ہمیشہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاملے کو ایک تنازعے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کے خلاف قراردادیں پیش کرتا ہے۔
ماضی میں امریکا نے اپنی خود سری کے باعث بہت سے ایسے غلط فیصلے کیے ہیں جن کے باعث آج امریکا خود کو تنہا محسوس کررہا ہے اور شاید اسی وجہ سے امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے درمیان کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی کا اصل سبب ایران کا جوہری پروگرام ہے جب کہ دوسرے نمبر پر سال 2012 میں دسمبر میں غزہ پر اسرائیلی حملے میں اسرائیل کی شکست اور غزہ سے ایرانی اسلحے کا بے دریغ استعمال ہونا ہے۔ البتہ جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کی بات ہے امریکا نے ہمیشہ اپنے اتحادی حواریوں اور شیطانی قوتوں کے ساتھ مل کر ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ ایران کے مرکزی بینکوں کو بلیک لسٹ قرار دے کر سمندر پار بینکوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
دوسری طرف ایران ان تمام سختیوں اور پابندیوں کے باوجود ہمیشہ اس بات کی تکرارکرتا ہوا نظر آتا ہے کہ جوہری پروگرام ایران کا قانونی و سیاسی حق ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ کسی بھی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کی پیداوار کرے یا جوہری پروگرام کے ذریعے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے۔ بہرحال امریکا نے ایران کے خلاف پابندیوں سے لے کر اقوام متحدہ کے خصوصی مشن تک ایران کے جوہری پروگرام کو بند کرنے کے لیے بھیج کر اپنی تمام تر کوششیں کرلیں لیکن ایران کی حکومت نے جوہری پروگرام کو بند کرنے سے انکار کردیا ہے اور جوہری توانائی کا حصول جاری ہے، جو ایران کا سیاسی، بین الاقوامی اور قانونی حق بھی ہے۔ امریکی پابندیوں اور سختیوں کے زیر اثر جہاں ایران کی معاشی صورتحال متاثر ہوئی ہے وہاں ایران کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں ملوث یورپی ممالک بھی اس معاشی بدحالی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ یورپی ممالک کے بے پناہ دبائو کے باعث امریکا اس بات کو سمجھنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو پابندیوں اور سختیوں کے ساتھ اور اسرائیل کے ذریعے حملے کے ساتھ بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کے لیے سب سے بڑی مشکل اسرائیل ہے جو ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ کسی طرح ایران کے جوہری اثاثوں پر فوجی حملہ کردیا جائے اور ایران کے جوہری منصوبے کو تباہ و برباد کر دیا جائے تاہم امریکا کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ اگر ایران کے جوہری اثاثوں پر حملہ کیا گیا تو یورپ سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک جو امریکا کے اتحادی ہیں شدید بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔ البتہ امریکا اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح اس معاملے کو حل کرلیا جائے لیکن امریکا اس معاملے میں بھی تنہا ہوچکا ہے۔
ایران کا اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے موقف بہت ہی واضح ہے۔ ایران کے لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے مختلف اوقات میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک سیکڑوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام توانائی کے حصول کے لیے ہے اور اسلامی ایران ہرگز اس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ انسانوں کو نقصان پہنچانے والے مہلک ہتھیار بنائے جائیں اور انسانیت کے خلاف استعمال کیے جائیں۔ امریکا کو حقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت پیش آچکی ہے۔ یہی حقیقت پسندی اب امریکا اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کا باعث بنتی جارہی ہے۔ اسرائیلی روزنامے ''ماریو'' میں شایع ایک تبصرے میں اسرائیل کی فضائیہ ایجنسی کے ایک سابق جنرل نے لکھا ہے کہ امریکا اس بات پر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو تسلیم کر لے اور اس بات کے اشارے امریکی سیاست میں رد و بدل اور معاملات سے نظر آرہے ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل کو اس بات سے شدید تشویش لاحق ہو چکی ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔
دوسری جانب ایرانیوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی تقریر جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو سرخ لائن قرار دیتے ہوئے حملے کی دھمکی دی گئی ہے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اسی لیے ایرانی حکام نے جو تزویراتی حکمت عملی وضع کی ہے اس میں وہ یورینیم افزودگی کے پلانٹ کو ایران کے ایک مضبوط شہر قم میں منتقل کررہے ہیں جہاں پر کسی بھی قسم کے حملے کو ناکام بنانے میں زیادہ آسانی رہے گی۔
اسرائیلی فضائی ایجنسی کا سابق جنرل لکھتا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے معاملے میں بالکل تنہا ہوچکا ہے اور امریکا اور اسرائیل کے درمیان واضح شگاف نظر آرہا ہے۔ جب کہ اسرائیل کے تمام سیکیورٹی ماہرین اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کیا جائے اور اس کا خاتمہ کیا جائے۔ اسرائیلی سابق جنرل کہتا ہے مجھے کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے ماہرین نے اسرائیل کو حملہ کرنے کی رائے نہ دی ہو لیکن موجودہ وقت میں حالات تیزی سے بدل چکے ہیں اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی بیداری ''عرب بہار'' بھی اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ اسرائیل کا یہ تجزیہ کار کہتا ہے کہ اسرائیل کے پاس اب دو میں سے ایک آپشن باقی ہے وہ یہ کہ یا تو اسرائیل فوری طور پر ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کرے یا پھر ایران کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کرے۔
اب ایک طرف امریکا اور اسرائیل کے درمیان شدید زبانی لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے جس کی وجہ ایران کا جوہری پروگرام سمیت متعدد معاملات ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے اسرائیلی وزیراعظم کو کہا ہے کہ اسرائیل کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا مفادکس بات میں ہے، اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی خوب جانتے ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہیے اور کس چیز میں اسرائیل کا مفاد ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل گزشتہ چار برس سے امریکا اور عالمی برادری کی طرف سے شدید دبائو برداشت کررہا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ عالمی برادری ہم سے مطالبہ کررہی ہے کہ ہم ایران پر حملہ نہ کریں اور 1967 کی سرحدوں پر واپس جائیں اور بیت المقدس سے دستبردار ہوجائیں اور فلسطین میں جاری آباد کاری کے عمل کو روک دیں۔ نیتن یاہو نے عالمی برادری کو جواب دیا ہے کہ اسرائیل کسی دبائو کو برداشت نہیں کرے گا اور ہم ہر وہ کام کریں گے جس سے اسرائیل کو محفوظ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی صدر اور عالمی برادری کی طرف سے شدید مخالفت کے باجود اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ E-1 علاقے میں یہودی آباد کاری کے عمل کو نہیں روکیں گے اور ان کو عالمی برادری سمیت امریکا کی پرواہ نہیں ہے۔