وینزویلا میں سوشلسٹ تحریک عروج پر
اجناس کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی کی ترسیلات میں خلل ڈال کر یہ سب دقتیں پیدا کی جارہی ہیں
ایک کالم نگار نے ''وینزویلا سے سوشلزم رخصت ہونے کو ہے'' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ انھیں ٹرمپ کی امریکی سرمایہ داری اور برطانیہ کی انحطاط پذیر سرمایہ داری، جہاں لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیریمی کوربن تیزی سے عوام میں مقبول ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ انھوں نے اپنے آخری تجزیے میں خود اپنے موقف کی نفی کردی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ''تمام تر صورتحال کے باوجود عوام کی اکثریت اب بھی ''سوشلزم ناکام ہوگیا'' یا ''مارکس ازم مرگیا'' جیسے نعروں کو بکواس قرار دے کر سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں''۔
ہیوگو شاویز ایک فوجی افسر تھا، جس نے وینزویلا میں اقتدار میں آنے کے بعد اسپین اور امریکا کی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا، خاص کر تیل کی کمپنیوں کو۔ مگر انھوں نے وینزویلا کی معیشت کے ستون مرکزی بینک، اسٹاک ایکسچینج، دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی بنیادی، بھاری صنعتوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں نہیں لیا، جس کی وجہ سے سامراج اور اس کے آلہ کاروں کو سازشیں کرنے کا موقع مل گیا۔
چودھویں صدی کے ذہین فلسفی، دانشور اور موسیقار ''سولونو'' نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں''۔ معیشت کو مکمل طور پر عوام کے حوالے اگر نہیں کیا جائے تو ان رہنماؤں کا وہی حشر ہوتا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب، کرنل قذافی، سنکارا، ڈاکٹر نجیب کے ساتھ ہوا۔ ہر چند کہ وینزویلا کوئی سوشلسٹ ملک کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ ایک سامراج مخالف نیم سوشلسٹ ملک کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ معیشت مکمل طور پر عوام کے ہاتھوں میں نہ ہونے سے سامراج اور ان کے آلہ کاروں نے مصنوعی طور پر غذا، دوا، توانائی اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت پیدا کردی ہے۔
اجناس کی ذخیرہ اندوزی اور بجلی کی ترسیلات میں خلل ڈال کر یہ سب دقتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ جس میں ایسی عوام دوست حکومت کا خاتمہ کرکے پھر اسے ایک بار سامراجی اکھاڑے میں تبدیل کیا جاسکے۔ دو دہائیوں سے سوشلزم کا مرحلہ طے کرنے پر صرف کیے جارہے ہیں۔ جب کہ اب تک کمیونسٹ سماج کی تشکیل ہوجانی چاہیے تھی۔
کالم نگار کو گندم، چاول، مکئی، روزگار، رہائش، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور روزمرہ اشیائے ضرورت نظر نہیں آئی، آئی تو صرف توانائی اور انڈے وغیرہ۔ انھیں ایتھوپیا، روانڈا، نائیجیریا، بنگلہ دیش،پاکستان، افغانستان، عراق، سوڈان سمیت تقریباً سو ملکوں کی بدترین معاشی صورتحال نظر نہیں آئی، صرف وینزویلا دنیا کی ناکام ریاست کے طور پر نظر آئی، جب کہ کمیونسٹ ریاست کے انکاری ہیں، اب تک وینزویلا کو اسٹیٹ لیس سوسائٹی کا اعلان کردینا چاہیے تھا۔
جہاں تک سوشلزم کی بات ہے تو اس میں ایک حد تک طبقات موجود ہوتے ہیں اور اقتدار کارکنان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ شہر اور دیہات کا فرق، لکھے پڑھے اور ان پڑھ کا فرق، ہنرمند اور غیر ہنرمندوں کا فرق، خوشحال کسانوں اور عام کسانوں کا فرق ہوتا ہے۔ کمیونزم میں یہ ساری تفریقات ختم ہوجاتی ہیں۔ پھر سوشلزم میں ان تفریقات کے سبب ایک حد تک طبقاتی کشمکش بھی رہتی ہے، اسی لیے فوری طور پر کمیونزم کے قیام اور بے ریاستی سماج کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
وینزویلا میں تمام تر خلفشار کے باوجود وہاں اب بھی 98 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔ تعلیم اور صحت تقریباً مفت ہے۔ کراکس جہاں ہنگامے ہوئے وہ علاقہ کراچی کے ڈیفنس کی طرح ہے، وہاں صاحب جائیداد طبقات کے لوگ رہتے ہیں، جو اکثر قومیانے کے عمل پر ردعمل کرتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ خود کہیں اس گرداب میں نہ آجائیں۔ مگر محنت کش اور ادنیٰ متوسط طبقے کی آبادی اب بھی سوشلسٹ موومنٹ کے ساتھ ہے۔
کالم نویس کو یہ نہیں معلوم کہ سوشلزم کوئی نظام نہیں ہے، نظام قدیم کمیونزم یا پنچایتی نظام، غلامانہ نظام، جاگیردارانہ نظام، سرمایہ دارانہ نظام اور پھر پلٹ کر وہی کمیونزم یا اسٹیٹ لیس سوسائٹی یا غیر طبقاتی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ۔ سوشلزم تو فوری انقلاب کے ذریعے محنت کش، پیداواری قوتیں اور شہریوں کا اتحاد، ایسا انقلاب برپا کرتا ہے کہ اقتدار کارکنان اور عوام کے حوالے کیا جاسکے اور تیزی سے کمیونسٹ معاشرے کی جانب پیشرفت کی جاسکے۔ اگر اس کام میں دیر کردی تو بورژوازی (سرمایہ دار) اپنی مذموم سازشوں کے ذریعے وہی سب کچھ کرتا ہے جو روس، چین اور مشرقی یورپ میں کیا۔
مضمون نگار معیشت کے قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اگر معیشت کو سرکاری کنٹرول میں لے لیا گیا تو حشر خراب ہی ہوگا۔ اس وقت ساری دنیا کی معیشت نجی اداروں میں ہیں، پھر دو ارب لوگ کیوں بے روزگار ہیں اور پانچ ارب لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ دنیا کی سب سے اچھی معیشت جرمنی کی شرح نمو 8 فیصد سے گھٹ کر 2 فیصد پر کیوں آگئی ہے، چین کی 11 فیصد سے گھٹ کر 6 فیصد، جاپان کی منفی ایک اور امریکا کی 9 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد پر کیوں آ گئی ہے؟
اس وقت چین میں 27 کروڑ، جرمنی میں 60 لاکھ، جاپان میں 70 لاکھ، ہندوستان میں 34 کروڑ، پاکستان میں 4.5 کروڑ، امریکا میں 3 کروڑ، فرانس میں 30 لاکھ اور برطانیہ میں 25 لاکھ لوگ کیوں بے روزگار ہیں۔ جب کہ کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں کوئی بے روزگار نہیں۔ اس لیے کہ سوشلزم نہیں بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام انحطاط پذیری کا شکار ہے۔
مضمون نگار سرکاری تحویل میں اداروں کو لینے کے خلاف ہیں۔ بقول ان کے اس سے معیشت تباہ ہوتی ہے۔ روس اور چین جب سوشلسٹ ممالک تھے اس وقت ساری صنعتیں، ادارے اور وسائل عوامی تحویل میں تھے، جس کے نتیجے میں دنیا میں سب سے زیادہ تیل، چینی، بجلی، کوئلہ، لوہا، دودھ، گوشت اور سبزی یہیں پیدا ہوتی تھیں۔ روسی ایئرلائنز سے دنیا کے سب سے زیادہ لوگ سفر کرتے تھے۔ صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ مفت تھے۔ سوشلسٹ روس اور چین میں کوئی گداگر تھا، منشیات نوش تھا، عصمت فروش تھا، بے روزگار تھا، لاعلاج تھا اور نہ ناخواندہ۔ روبل کی قیمت ڈالر کی قیمت سے زیادہ تھی۔
مضمون نگار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس وقت جنوبی امریکا کے 35 ممالک میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹس کی حکومتیں قائم ہیں۔ اب بھی منگولیا، ویتنام، لاؤس، کوریا، زمبابوے، کیوبا، بولیویا، ایکواڈور، نکاراگوا، چلی، پیراگوئے اپنے آپ کو سوشلسٹ ممالک کہلاتے ہیں۔ نیپال، کیرالا، تریپورہ میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ بھارت کے ایک تہائی علاقے پر ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ ہے۔ وینزویلا میں درحقیقت ایک سوشلسٹ تحریک چل رہی ہے اور یہ تحریک جنوبی اور شمالی امریکا سمیت دنیا بھر میں چل رہی ہے۔ جب تک طبقات اور استحصال ہوگا، طبقاتی لڑائی بھی ہوگی اور کمیونزم کا نظریہ ختم نہیں ہوگا۔