قومی سیاست میں طلبا کا کردار
اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کے علم میں بہت سے تاریخی حقائق یا تو ہیں نہیں یا پھر مسخ شدہ ہیں
چند روز قبل کی بات ہے، ایک نجی ٹیلی ویژن کے کرنٹ افیئر پروگرام میں وقفہ کے دوران بحالی جمہوریت کی تحریک میں طلبا کے کردار کا تذکرہ آیا۔ میزبان خاتون کے علم ہی میں نہیں تھا کہ طلبا نے ملک میں جمہوریت کی بحالی، تعلیم کو عام کیے جانے اور یکساں نصاب تعلیم کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔
اس دوران جب ایوب خان کے دور میں علی مختار رضوی مرحوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر آیا، تو پوچھنے لگیں کہ کیا یہ بینکر ہیں۔ مجھے ان کی معصومیت یا لاعلمی پر حیرت ہی نہیں افسوس بھی ہوا، کیونکہ وہ سیاسیات اور صحافت دو مضامین میں ایم اے کیے ہوئے ہیں۔
یہ کسی ایک فرد کا المیہ نہیں ہے بلکہ اس پوری نسل کا المیہ ہے، جو جنرل ضیا کے دور کے آخری برسوں یا اس کے بعد پیدا ہوئی۔ اس میں اصل قصور ہماری اور ہم سے سینئر نسل کا ہے، جو عصر حاضر کی تاریخ کو صحیح طور پر مرتب نہیں کرسکی۔ گو کہ قیام پاکستان کے وقت سے تادم تحریر اس موضوع پر کئی کتب، مقالے اور مضامین شایع ہوچکے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں نصابی کتب سے ہٹ کر مطالعہ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بیشتر تعلیم یافتہ احباب اپنی سیاسی و سماجی تاریخ کے بیشتر حقائق سے عدم واقفیت رکھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں رونما ہونے والے واقعات کو ہر زاویے سے قلمبند کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ مگر ہم تو وہ بدنصیب لوگ ہیں، جنھیں سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں سطحی معلومات کے سوا کچھ زیادہ علم نہیں۔ اس موضوع پر وہ چند کتب دستیاب ہیں، جو زیادہ تر سابق فوجیوں اور بیوروکریٹس کی تحریر کردہ ہیں یا پھر غیر ملکی مصنفین کی ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ملک کا نصف حصہ خونریز جنگ کے بعد جدا ہوگیا، مگر نہ کوئی معرکۃ الآرا ناول، نہ افسانے، نہ دل سوز نوحے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے بنگالی عوام کی علیحدگی پر ہم سب نے شکر ادا کیا ہو۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی عصر حاضر کی تاریخ پر بہت کم کتب موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی ایسی تحاریر موجود ہیں، جو اس دور کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے لیے کسی حد تک مواد فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح 1950ء سے 1980ء کے دوران تین دہائیوں کے دوران طلبا نے تعلیم کی عام انسان تک رسائی، جمہوریت کی بحالی اور منصفانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے جو جدوجہد کی ہے، اس پر گو بہت کم تحاریر پائی جاتی ہیں، لیکن پھر بھی اس جدوجہد کے بارے میں خاصی حد تک آگہی ہو جاتی ہے۔
اس سلسلے میں حمزہ علوی، ڈاکٹر سید جعفر احمد، ڈاکٹر ریاض احمد شیخ سمیت کئی مصنفین کی کتب موجود ہیں۔ رشید جمال نے معراج محمد خان مرحوم پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔ جس میں کئی مضامین میں اس دور کی طلبا سیاست کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مجاہد بریلوی کی فوزیہ وہاب مرحومہ پر مرتب کردہ کتاب بھی ماضی قریب کی سیاست کو سمجھنے میں معاون ہوسکتی ہے۔
محبوب حسین کا 1947ء سے 1958ء کے دوران طلبا جدوجہد پر مقالہ اور ندیم پراچہ کا 1970ء میں طلبا سیاست پر مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ راقم کا ایک مضمون ''طلبا سیاست کے تیس سال'' ڈاکٹر مبارک علی کی زیر صدارت شایع ہونے والے کتابی سلسلے ''تاریخ'' میںشایع ہوچکا ہے، جس میں 1950ء سے 1980ء تک طلبا تحاریک کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں قیام پاکستان کے وقت سے دور حاضر تک طلبا سرگرمیوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کے علم میں بہت سے تاریخی حقائق یا تو ہیں نہیں یا پھر مسخ شدہ ہیں۔ کیونکہ جنرل ضیا کی آمریت نے پورے طور پر کوشش کی کہ ملک کا سماجی Fabric مکمل طور پر تباہ کردیا جائے۔ نئی نسل کو مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت میں مبتلا کردیا جائے۔ اس نے نفرتوں کا جو بیج بویا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن گیا ہے، جس کے زہریلے کانٹوں سے اس ملک کے عوام کا پورا وجود زخم زخم ہے۔
نوجوان نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ 1950ء سے 1980ء تک تیس برس طلبا پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، عام آدمی کے شہری اور انسانی حقوق اور تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کا ہر اول دستہ تھے۔ یہ طلبا ہی تھے، جنھوں تعلیم عام کیے جانے اور غریب طبقات کے بچوں کی تعلیم تک رسائی کے لیے 8 جنوری 1953ء کو اپنے سینے پر گولیاں کھائیں اور آٹھ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس جلوس میں شریک ایک طالب علم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی بھی تھے، جو اس وقت ملک کے مایہ ناز Philanthropist ہیں۔
1959ء میں ایوب خانی آمریت کو پہلی بار طلبا ہی نے کھل کر چیلنج کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بیشتر سیاسی رہنما ایبڈو کا شکار ہوئے یا تو جیلوں میں تھے یا گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) نے سیاسی جمود کو توڑا اور آمریت کو کھل کر چیلنج کیا۔ 1962ء میں جب BA کو تین سالہ کردیا گیا، تو بھی طلبا باہر نکلے اور اس اقدام کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ جس کے نتیجے میں کراچی کے 12 طالب علم رہنماؤں کو شہر بدری بھگتنا پڑی۔ یہ طالب علم جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے، تنگ دستی کے عالم میں کئی ماہ سکھر اور ملتان میں گزارنے پر مجبور ہوئے۔
اگر تاریخ پر غیر جانبداری کے ساتھ نظر ڈالی جائے، تو ملک میں جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری حقوق (جس میں تعلیم اور صحت کی سہولیات تک عام آدمی کی رسائی بھی شامل ہے) کے لیے جتنی قربانیاں پاکستان کے طلبا نے دی ہیں، کسی جماعت یا حلقے نے نہیں دی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ طلبا کی اجتماعی قوت کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں روز اول ہی سے شروع ہوگئیں۔ طلبا کو کہیں مذہب اور عقیدے کے نام پر بہکایا گیا، کبھی نسلی اور لسانی بنیادوں پر منقسم کرنے کی کوشش کی گئی۔
1950ء سے جاری مفسدانہ سازشوں کا نکتہ عروج جنرل ضیا کا آمرانہ دور تھا۔ اس نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا یونینوں پر پابندی عائد کرکے نہ صرف ان کی قائدانہ صلاحتیوں میں اضافے کا راستہ روکا، بلکہ سیاسی جماعتوں میں مڈل کلاس سے نئے کیڈر کی آمد کا سلسلہ بھی بند کردیا۔
نوجوان قارئین کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 1980ء کے عشرے تک سیاسی جماعتوں میں آنے والی دوسری سطح کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی کھیپ طلبا یونینوں سے تربیت یافتہ ہوا کرتی تھی۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا یہ کیڈر عوامی مسائل اور مشکلات سے کماحقہ آگہی رکھتا تھا اور انھیں حل کرنے میں بھی سنجیدہ ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ خود ان مسائل سے دوچار ہوتا تھا۔ ضیاالحق کے اقدامات کے نتیجے میں ایک طرف سیاسی جماعتوں پر فیوڈلز اور مراعات یافتہ طبقات حاوی آتے چلے گئے، جب کہ دوسری طرف متوسط، نچلے متوسط اور زدپذیر طبقات کی اجتماعی سیاسی قوت بھی پارہ پارہ ہوگئی، کیونکہ سیاسی جماعتوں میں ان کی نمایندگی تقریباً ختم ہوگئی۔
پاکستان میں اس وقت سیاست امرا اور دولت مند طبقات کے مفادات کا کھیل بن چکی ہے۔ اگر ملک کی تین بڑی جماعتوں میں جو قومی جماعتیں کہلاتی ہیں، 10 سے 15 برسوں کے دوران شامل ہونے والے افراد کا ریکارڈ چیک کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہر جماعت میں دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، جو ایک سے زائد جماعتیں تبدیل کرچکے ہیں۔ نتیجتاً یہ جماعتیںسیاسی نظریات اور ایجنڈے سے عاری محض اقتدار کے حصول کا بدترین ذریعہ بن چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں قیادتوںکی موروثیت، شخصیت پرستی اور Electables کے مفادات کا گڑھ بن چکی ہیں۔
عرض ہے کہ پاکستان میں سیاست کو درست سمت اسی وقت مل سکتی ہے، جب سیاسی جماعتوں میں نئے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کیڈر کی آمد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے، جو یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تربیت یافتہ ہو۔ دوسرے شخصیت پرستی اور Electables سے جان چھوٹ جائے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو وہ اقدامات مدنظر رکھنا ہوں گے، جو انیسویں صدی میں جرمنی کے چانسلر بسمارک نے اپنے ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کیے تھے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی عزم و بصیرت اور فیصلہ سازی کا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ کیا سیاسی جماعتوں کی موجودہ قیادتوں میں اتنا ویژن ہے کہ وہ بدلتی دنیا کے تصورات و رجحانات کا ادراک کرتے ہوئے خود کو اور اپنی جماعتوں کو ٹرانسفارم کرسکیں؟